آن لائن نذرانہ پورٹل ۔ چند “سنجیدہ “تجاویز/محمد وقاص رشید

عمران خان صاحب اپنی تقریروں میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو سرمایہ اور سب سے بڑا اثاثہ قرار دیا کرتے تھے۔ لیکن وہ اس قیمتی اثاثے میں سے میاں نواز شریف اور جنرل باجوہ کو نکال دیتے تھے حالانکہ وہ بھی تو بیرونِ ملک پاکستانی ہیں۔ چلو جنرل باجوہ تو انکار کرتے ہیں کہ میں “وہ” نہیں ہوں لیکن میاں صاحب نے تو کبھی انکار نہیں کیا ناں ۔۔پھر؟

 

 

 

بہرحال خان صاحب ساڑھے تین سال تقریریں ہی کرتے رہے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے کیا کچھ نہیں اب موجودہ حکومت نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے بہترین اور ٹھوس اقدام اٹھایا ہے۔

نگران وزیراعلی جناب محسن نقوی اور وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں جدید ٹیکنالوجی کے اب تک کے سب سے بہترین استعمال کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے آن لائن چندہ و نذرانہ پروگرام کا اجراء کر دیا۔

پاکستان معاشی طور پر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی محصولات کے ذریعے اور معاشرتی طور پر ان درباروں پر مانگی گئی منتوں مرادوں سے چل رہا ہے اس لیے ان دونوں چیزوں کو باہم ملا دینا یقینی طور پر وقت کی اہم ضرورت تھی سو پاکستان کی تاریخ میں موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ تاہم اس ضمن میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے کچھ تجاویز اور مطالبات ہیں کہ اگر جمہوریت کے حسن کو چار چاند لگاتے ہوئے اسحاق ڈار صاحب ہی نگران وزیراعظم بن رہیں تو وگرنہ نون لیگ کی اگلی حکومت میں ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

1۔ آن لائن دھمال۔
بے روزگاری ہر حکومت کا مسئلہ رہی ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس تجویز سے روزگار کے کتنے کثیر مواقع میسر آئیں گے اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں ناچنے گانے والے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ اگر اس پورٹل پر آن لائن دھمال کا سلسلہ شروع کروایا جائے۔ بیرونِ ملک پاکستانی اپنی پسند کی ٹولی اور دھمال کا دورانیہ منتخب کریں اگر ہو سکے تو انکی ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو ایڈیٹنگ میں انہیں بھی ساتھ شامل دکھایا جائے۔

2۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس والے روبوٹ ملنگ۔
کیونکہ بیرونِ ملک پاکستانی جدید ممالک میں رہتے ہیں جہاں اب روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا انقلاب آ رہا ہے تو درباروں پر ملنگ بھی روبوٹس کی صورت میں ہونے چاہئیں تاکہ انہیں ملک ترقی کرتا ہوا محسوس ہو اور انہیں اوپرا اوپرا سا نہ لگے اور وہ ان ملکوں میں بتا سکیں کہ تم ڈرائیور لیس وہیکلز وغیرہ کی بات کرتے ہو ہمارے ہاں روبوٹ ملنگ پائے جاتے ہیں اس سے ان ممالک کی طرف سے درباروں میں سرمایہ کاری بھی متوقع ہو گی۔

3۔ لائیو بھنگ گھوٹہ۔
راقم الحروف نے ماضی بعید میں درباروں پر “پی ساوی تے ہوش آوی” اور “پی پیالہ صبر دا تے کوئی نہیں ساتھی قبر دا” کے نعروں کے ساتھ ملنگوں کو “پہنچے ہوئے” بنتے دیکھا ہے۔ اس پورٹل پر لائیو بھنگ گھوٹہ کی آپشن بھی ہونی چاہیے تاکہ بیرونِ ملک پاکستانی ورچوئلی اس سے مستفید ہو سکیں۔ یہاں موجود ملنگ ویسے ہی روبوٹس ہونگے اور مخیر حضرات ویسے ہی باہر تو ایسے میں “پہنچنے” کا خطرہ ہے ہی کوئی نہیں۔ کیسا؟

4۔ اکنامکل مائیکرو دیگچی۔
شہباز شریف صاحب کے “کپڑے نہ بکنے” کی وجہ سے مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے بھی پہلے والے حالات نہیں رہے۔ اب دیگ دینے کی بجائے لوگ اکنامکل مائیکرو دیگچی دینے کی باتیں کر رہے ہیں اس لیے پورٹل پر دیگ کی بجائے دیگچی کی آپشن رکھی جائے.

5۔ سبیل کے ڈراپس۔
یہاں بھی وہی معیشت کا مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستانیوں کو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ چینی کی ملوں والے سارے لوگ حکمران ہوتے ہیں اور چینی کی قیمتیں بڑھتی ہیں پھر وہی حکمران شوگر ملوں کے مالکان کے خلاف کمیٹیاں بناتے ہیں یعنی خود ہی اپنے خلاف تحقیقات کرتے ہیں اسی لیے چینی کی قیمتیں گھٹتی نہیں۔ بحرحال قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سبیل کے ڈراپس کی آپشن رکھی جانی چاہیے اور پولیو کے قطروں کی طرح ٹیمیں درباروں پر آنے والوں کو یہ قطرے پلائیں۔ خیال رہے کہ یہ قطرے بھنگ کے نہ ہوں وگرنہ عام زائرین بھی روبوٹس بن سکتے ہیں۔

6۔ منتوں مرادوں کا کھاتہ۔
اسحاق ڈار صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ جو پیسے دیتا ہے وہ اپنی شرائط تو رکھتا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف کے مِنت پروگرام کے بعد اب درباروں پر مِنت پروگرام شروع کریں۔ پورٹل میں ایسی آپشن ہونی چاہئیں کہ عقیدت مندوں کے باقاعدہ کھاتے بنے ہوں۔ زیادہ نذرانہ دینے والوں کو 23 مارچ کو ستارہِ امتیاز کی بجائے “چندہِ امتیاز” دیا جائے اور کوئی منت مراد پوری نہ ہونے کی صورت میں آدھے پیسے واپس کیے جائیں۔

7۔آن لائن لنگر۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ کیونکہ لنگر چندوں اور نذرانوں سے چلتے ہیں تو اس لنگر کے ساتھ اس بیرونِ ملک پاکستانی کا نام اور تصویر ہونی چاہیے اور آن لائن لنگر اور فری ڈیلیوری کی سہولت موجود ہونی چاہیے تا کہ بیرونِ ملک پاکستانی اگر چاہے تو اس لنگر پر اپنے خاندان کو بھی لنگرانداز کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

8۔گدی ایوارڈ۔
آخری تجویز یہ ہے کہ دربار کیونکہ چندے سے چلتے ہیں اور یہ چندے محترم گدی نشین حاصل کرتے ہیں۔ تو زائرین و معتقدین و مریدین کا بھی کچھ نہ کچھ حق ہونا چاہیے انہیں اگر یہ والی گدی نہیں مل سکتی جو کہ ظاہر ہے نہیں مل سکتی تو کم ازکم کوئی عام گدی ہی سے نوازا جائے تاکہ بیرونِ ملک آن لائن حاضری کے دوران وہ اس گدی پہ بیٹھ کے خود کو تھوڑا تھوڑا گدی نشین محسوس کر سکیں۔۔۔۔۔
خدا کرے کہ یہ مزار اور دربار آباد رہیں کہ چلو ہم کہہ سکیں کہ پاکستان میں کوئی تو کاروبار ایسا ہے جسکو زوال نہیں۔ حق ہو حق۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply