بند ذہن/مرزا مدثر نواز

یونانی فلسفی ارسطو نے لکھا ہے کہ گول دائرہ معیاری دائرہ ہے اور وہ جیومیٹری کی کامل صورت ہے۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر ارسطو نے کہا کہ فطرت کا ہر کام چونکہ معیاری ہوتا ہے‘ اس لیے فطرت آسمانی اجرام کو جن دائروں میں گھما رہی ہے‘ وہ صرف گول دائرہ ہی ہو سکتا ہے۔ ارسطو کا یہ نظریہ قدیم زمانہ میں تمام لوگوں کے دماغوں پر چھایا ہوا تھا۔ قدیم زمانہ میں ہیّت کے جو نظام بنائے گئے‘ مثلاً  بطلیموس کا نظام‘ کو پر نیکس کا نظام‘ ٹائیکو براہے کا نظام‘ سب میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ آسمانی اجرام (نظام شمسی کے سیارے) سب کے سب خلا کے اندر گول دائروں میں گھومتے ہیں۔ جوہانس کپلر غالباً  پہلا شخص ہے جس نے اس کے خلاف سوچا‘ اس نے حساب لگاکر 1609میں بتایا کہ مریخ کی گردش سورج کے گرد گول دائرہ میں نہیں ہے بلکہ بیضوی مدار میں گھومتا ہے۔ اس نے پیشینگوئی کی کہ دوسرے تمام سیارے جو سورج کے گرد گھومتے ہیں‘ وہ بھی بیضوی شکل ہی میں گھومتے ہیں۔ کپلر کا یہ نظریہ آج ایک  ثابت شدہ حقیقت بن گیا ہے۔ قدیم ہیئت داں دو ہزار سال تک گول دائرہ کے تصور میں گم رہے‘ وہ سیاروں کی گردش کے بارے میں دوسری نہج پر سوچ نہ سکے۔ اس کی وجہ ارسطو کے نظریہ کی عظمت تھی۔ اس نظریہ کو انہوں نے بلا بحث ایک مسلمہ حقیقت مان لیا۔ اس بناء پر ان کا ذہن کسی اور انداز میں کام نہیں کر پاتا تھا۔

یہ صرف قدیم زمانہ کی بات نہیں‘ یہ ہر دور کی بات ہے۔ ہر زمانہ میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض خیالات آدمی کے دماغ پر اتنا زیادہ چھا جاتے ہیں کہ ان سے نکل  کر آزادانہ طور پر سوچنا آدمی کے لئے ناممکن  ہو جاتا ہے۔ یہ مذہبی دائرہ میں بھی ہو تا ہے اور غیر مذہبی دائرہ میں بھی۔ یہ بند ذہن ہر قسم کی ترقی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ (۱)

ہم میں سے ہر ایک نے خود کو ایک دائرہ میں قید کر رکھا ہے‘ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کنویں کے باہر بھی ایک دنیا ہے جس کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔ روایتی تقلید کا فلسفہ ہی ہمارا سب کچھ ہے‘ صدیوں سے رائج رسم و رواج پر غور کرنا اور سوال اٹھانا تو درکنار‘ الٹا ان کے سامنے خود کو جھکائے ہوئے ہیں۔ استاد نے جو کچھ میرے ذہن میں ڈال دیا‘ ساری زندگی صرف اسی کے گرد گھومتا رہا‘ اپنی سوچ و تحقیق کو کبھی پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ استاد‘ بچوں کے پہلی صفوں میں کھڑا ہونے کو پسند نہیں کرتا تھا تو میں نے بھی ساری زندگی یہی اعلان کیا کہ چھوٹے بچوں کو ایک سائیڈ پر کر دیں‘ میں کیوں یہ تحقیق نہیں کرتا کہ یہ عمل قرآن و سنت کے مطابق بھی ہے کہ نہیں؟ کیا حسن و حسین و اسامہ ؓ کو چھوٹا ہونے کی بنا پر مسجد نبوی سے نکال دیا جاتا تھا‘ کیا آپﷺ نے اپنی نواسی امامہؓ کو گود میں اٹھا کر امامت نہیں کروائی؟ مسجد میں بچوں کے ہلکے سے شور کو سن کر آگ بگولا ہو جاتا‘ خشوع و خضوع میں خلل کا رد عمل ہے یا اپنی چودھراہٹ کی دھاک بٹھانا؟ استادبچوں کو مار پیٹ کر پڑھاتا تھا‘ یا کوئی ہنر سکھاتا تھا تو کیا میں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کر کے اپنے بدلے اتاروں؟ احترام کے نام پر ساری زندگی مسجد میں ایک گھٹن کا ماحول بنائے رکھوں کہ اکابرین کا یہی عمل رہا ہے‘ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتا کہ معبود برحق نے نماز باجماعت کے اندر کیا حکمتیں رکھی ہوئی ہیں اور مخبر صادق نے عبد اللہ ابن مکتوم کو بھی گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت کیوں نہیں دی اور کیا مسجد نبوی کی سرگرمیاں صرف باجماعت نماز تک محدود تھیں؟اتالیق مجھ سے اپنے گھر جھاڑو پھرواتا تھا‘ پاؤں دبواتا تھاتو کیا میں بھی اپنے شاگردوں سے احترام کے نام پر ایسا کرنے کی توقع رکھوں اور ان پر بے جا دباؤ ڈالتا رہوں؟ استاذ کسی کی تنقید برداشت نہیں کرتا تھا اور خود کو عقل کل سمجھتا تھا اور سوال کرنے والے کو بے عزت کرتا تھا تو کیا میں بھی خود کو دوسروں سے بالا سمجھوں اور خود کو ہر قانون و احتساب سے مستثنیٰ خیال کروں اور یہ نہ سوچوں کہ اگر خلیفہ وقت نے اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا تھا تو میں کون ہوتا ہوں یہ کہنے والا کہ میں دو ٹکے کے جاہل آدمی کو جواب نہیں دے سکتا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں خود کو ان نام نہاد بندشوں سے آزاد کرانا ہوگا‘ ذہن کو وسعت دینی ہو گی اور تحقیق و وسعت مطالعہ کو کھلے دل سے اپنانا ہو گا نہ کہ بس اندھی تقلید میں ساری زندگی بسر کر دیں۔معاشرے میں رائج رسم و رواج سے بغاوت کرنا ہو گی‘ یہ سوچنا ہو گا کہ ولیمہ کے دن کا ناشتہ دلہن کے گھر کی طرف سے ہی کیوں ہونا چاہیے‘ جہیز کی رسم کیا ہے اور بغیر محنت کے جہیز کی مد میں وصول شدہ سامان جائز ہے کہ نہیں‘ بیٹیوں و بہنوں کو وراثت میں سے حصہ دینے سے کیوں کترایا جاتا ہے‘ غیرت کے نام پر ہمیشہ عورت کو ہی کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ؟
(۱) کتابِ زندگی از مولانا وحید الدین خان

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply