• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔۔سکندر مرزا کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط2(حصہ اول)

پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔۔سکندر مرزا کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط2(حصہ اول)

سکندرمرزا بنگال کی مشہور تاریخی شخصیت میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ 1899 نومبر میں  مرشد آباد بنگال ، تیرہ میں پیدا ہوئے۔
سکندر مرزا ایک نہایت ذہین شخص تھے جو اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے واقف تھے وہ ایک ایماندار اور نہایت قابل شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف عہدوں پر کام کیا اور اپنی قابلیت کا سکہ منوایا۔ اتنی اہم حیثیتوں میں کام کرنے کے باوجود ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا زندگی کے آخری ایام برطانیہ کے جس ہوٹل میں گزارے اس کے کرائے  کے پیسے نہیں تھے کہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد یہ رقم ملکہ برطانیہ نے ادا کی۔

اتنی صلاحیتوں، تجربے اور مالی دیانت کے باوجود سکندر مرزا پاکستانی سیاست کے انتہائی متنازعہ کرداروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک  کے  آئینی اور پارلیمانی راستے کو تباہ کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اپنے وقت کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ الفنسٹن کالج ممبئی میں تعلیم  حاصل کی ۔ زندگی کا کچھ عرصہ فوجی ملازمت میں گزارا۔ کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے کامیاب ہو کر برٹش آرمی کا حصہ بنے،کوہاٹ اور وزیرستان کی جنگوں میں شامل ہوئے ، اس کے بعد پونا میں تبدیلی ہوگئی تاہم سکندر مرزا کا اصل کردار ایک بیورو کریٹ کے طور پر تھا ،وہ انڈین پولیٹکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد، ٹانک،نوشہرہ اور بنوں میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کام کیا۔ بعد میں مردان، اور ہزارہ میں ڈپٹی کمشنر رہے۔  اس  کے بعد   خیبر میں پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ پشاورکے ڈپٹی کمشنر مقرر  بھی رہے ۔ جس کے بعد ان کا تبادلہ اڑیسہ میں کر دیا گیا۔ حکومت ہند  میں وزارت دفاع میں’ جائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔

پاکستان کی سیاسی اور آئینی زندگی کا اہم کردار۔ملک غلام محمد/داؤد ظفر ندیم۔۔۔قسط1

قیام پاکستان کے بعد وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اپنے فوجی پس منظر اور سول بیوروکریسی کی مہارت نے آپ کو موقع دیا کہ آپ فوجی افسران کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کریں ہزارہ اور پشاور میں آپ کی تعیناتی اور یادوں کی وجہ سے بریگیڈ ایوب خاں سے قریبی دوستی کا موقع ملا جبکہ بیوروکریسی کے پس منظر کی وجہ سے وزیر خزانہ ملک غلام محمد اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوئے۔ اور امکان یہی ہے کہ آپ ہی ان دونوں کے ایوب خاں سے دوستی اور تعلق کا ذریعہ بنے۔ جب ملک غلام محمد نے اقتدار پر عملا ً قبضہ کرلیا تو پہلے سکندر مرزا کو مشرقی بازو کا گورنر بنایا گیا۔ مگر جلد ہی ملک غلام محمد کو ملکی کابینہ میں اپنے ایک موثر ساتھی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اور سکند مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔ اس کابینہ میں ایوب خاں بھی بارودی وزیر دفاع مقرر ہوئے۔ اس کابینہ میں سکندر مرزا سب سے طاقتور سویلین وزیر کی حیثیث سے سامنے آئے۔ ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر انھیں 6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنر نامزد کیا۔ یہ نا  صرف جناب سکندر مرزا کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا بلکہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ کا بھی ایک اہم موڑ تھا سکندر مرزا نے پاکستانی سیاست اور آئینی پیش رفت کو جس طرح مذاق بنا دیا اس کی مثال نہیں ملتی انہوں نے جناب محمد علی بوگرہ جیسے تابعدار سمجھے جانے والے وزیر اعظم کو بھی گوارا نہیں کیا اور ان کی جگہ چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ جنہوں نے پاکستان کا پہلا آئین پیش کیا۔ اس آئین کے لئے پاکستانی سیاست دانوں نے ۹ سال بہت زیادہ محنت کی تھی اور یہ پاکستان کی آئینی اور سیاسی زندگی کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی پاکستان کے مختلف سیاسی گروہوں اور افراد کو مطمئن کرنے اور شریک کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی گئی تھی جو آئندہ اقساط میں بیان کی جائے گی مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ سکندر مرزا آئین کی اہمیت اور آئین کی حیثیث پر زیادہ یقین نہیں تھا ان کے لئے اس سارے عمل کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی وہ صرف ایک مضبوط صدر اور بادشاہ گر کے کردار کو پسند کرتے تھے۔
5 مارچ، 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اور اس کے بعد جناب سکندر مرزا نے وزیر اعظم کے عہدے کو جس طرح بے توقیر کیا اس کی مثال نہیں ملتی، جناب چوہدری محمد علی جیسے سینئر ترین بیوروکریٹ، جناب سہروردی جیسے مقبول سیاست دان، آئی آئی چندریگر جیسے قابل قانون دان کو جس طرح میوزک چیئر کے ذریعے وزیر اعظم بنا کر ہٹایا گیا او ر آخر میں فیروز خاں نون سے بھی مطمئن نہیں ہوئے اس نے پاکستانی سیاست کو سخت نقصان پہنچایا۔

جناب سکندر مرزا نے کوشش کی کہ وہ پاکستان میں مسلم لیگ کی سیاست کو ختم کرکے سرکاری حمایت میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دیں، اس کے لئے ان کی خاص کوشش سرخ پوشوں اور مسلم لیگ کے روائتی سیاست دانوں میں مفاہمت کروانے کی کوشش تھی ،انھوں نے ریپبلکن پارٹی کا پارلیمانی لیڈر فیروز خاں نون کو بنایا اور مغربی پاکستان کے وزیر اعلی جناب عبدالجبار خاں کو اس میں شامل کیا۔ یہ ایک زبردست سیاسی کامیابی تھی اور یہ پاکستان میں بہتر سیاست کا آغاز ہو سکتا تھا جو بدقسمتی سے نہیں ہو سکا۔

اسکندر مرزا کی محلاتی سازشوں کی ایک جھلک ایک بار پھر شہاب نامہ کے صفحوں میں سے دیکھیے:
اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنے تین روز ہوئے تھے کہ شام کے پانچ بجے مجھے گھر پر مسٹر سہروردی نے ٹیلی فون کر کے پوچھا، ‘پرائم منسٹر کے طور پر میرا حلف لینے کے لیے کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے؟’
یہ سوال سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا کیوں کہ مجھے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ یہی بات میں نے انھیں بتائی تو مسٹر سہروردی غصے سے بولے، ‘تم کس طرح کے نکمے سیکریٹری ہو؟ فیصلہ ہو چکا ہے اب صرف تفصیلات کا انتظار ہے۔ فوراً گورنر جنرل کے پاس جاؤ اور حلف لینے کی تاریخ اور وقت معلوم کر مجھے خبر دو۔ میں انتظار کروں گا۔
مجبوراً میں اسکندر مرزا صاحب کے پاس گیا۔ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے۔ موقع پا کر میں انھیں کمرے سے باہر لے گیا اور انھیں مسٹر سہروردی والی بات بتائی۔ یہ سن کر وہ خوب ہنسے اور اندر جا کر اپنے دوستوں سے بولے، ‘تم نے کچھ سنا؟ سہروردی وزیرِ اعظم کا حلف لینے کا وقت پوچھ رہا ہے۔`
اس پر سب نے تاش کے پتے زور زور سے میز پر مارے اور بڑے اونچے فرمائشی قہقہے بلند کیے۔ کچھ دیر اچھی خاصی ہڑبونگ جاری رہی۔ اس کے بعد گورنر جنرل نے مجھے کہا، ‘میری طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ تم سہروردی کو بتا دو کہ حلف برداری کی تقریب پرسوں منعقد ہو گی اور چودھری محمد علی وزیرِ اعظم کا حلف اٹھائیں گے۔’
وہاں سے میں سیدھا مسٹر سہروردی کے ہاں پہنچا اور ان کو یہ خبر سنائی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ اس نئی صورتِ حال پر وہ بڑے جھلائے اور میرے سامنے انھوں نے بس اتنا کہا، ‘اچھا، پھر وہی محلاتی سازش۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply