دلاور اور ماہ نور کی شادی/ثاقب لقمان

پانچ سال قبل سپیشل ایجوکیشن کے سابقہ ڈی-جی خالد نعیم صاحب نے مجھے خصوصی افراد کے حقوق کے حوالے سے ایک میٹنگ پر مدعو کیا۔ میں تھوڑا سا لیٹ پہنچا۔ جہاں جگہ ملی وہیں پر بیٹھ گیا۔ اس ٹیبل پر بالکل خاموشی تھی۔ میرے ساتھ چار لڑکیاں اور دو لڑکے بیٹھے تھے۔ وہ اشاروں میں ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ یہ اشاروں میں کیوں باتیں کر رہے ہیں۔ منہ سے کیوں نہیں بولتے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ یہ سب سماعت سے محروم ہیں۔ سامنے والی ٹیبل پر چار نابینا لڑکیاں بیٹھی  تھیں۔ اگلی ٹیبل پر ویل چیئر والی لڑکیوں کا گروپ تھا۔

 

 

 

میں خاموشی سے مقررین کے دیئے گئے اعداد و شمار نوٹ کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد چائے کا وقفہ ہوا۔ اسی دوران میرے ساتھ بیٹھی خاموش لڑکیوں نے ایک دوسرے کی تصوریریں بنانا شروع کر دیں۔ میں انھیں غور سے دیکھ رہا تھا۔ یہ عام لڑکیوں والے سٹائل اور اداؤں کے ساتھ تصویریں بنا رہی تھیں، ہنس رہی تھیں ایک دوسرے سے مذاق کر رہی تھیں۔ ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھیں نابینا لڑکیاں بھی عام لڑکیوں کی طرح ایک دوسرے سے گپیں لگا رہی تھیں۔ پھر آگے دیکھا تو ویل چیئر والی لڑکیاں بھی اسی طرح سیلفیاں بنا رہی تھیں۔ اگلی نشتوں پر کچھ جاننے والے بیٹھے تھے۔ انھوں نے مجھے بلانے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کیونکہ اپنی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جسمانی کمی کے باوجود یہ لڑکیاں عام لڑکیوں والے احساسات اور جذبات رکھتی ہیں۔

چار سال قبل جب میں نے باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا تو اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہوسکا خصوصی لڑکیوں کے مسائل پر لکھونگا۔ اس وقت لوگ منیبہ مزاری، تنزیلہ خان، آبیہ اکرم جیسی چند ہی لڑکیوں کو جانتے تھے۔ ان تینوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہر ایوارڈ انھیں ہی ملے۔ خصوصی لڑکیوں کے مسائل پر جب بھی بات ہو تو انھیں ہی بلایا جائے۔ خیر میں نے نئی لڑکیوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ دو سال میں ملک کے کونے کونے سے نئی لڑکیوں کے انٹرویوز کیے ۔ زیادہ تر زندگی میں پہلی بار انٹرویو دے رہی تھیں۔ میں جس سے بھی بات کرتا سب سے ایک ہی جواب سننے کو ملتا کہ ہم نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمارا انٹرویو لیا جائے۔ پھر میں کہتا کہ مجھ سے بات کریں میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ اب تک کیا اچیو  کر چکی ہیں۔ میں اس لڑکی سے کی گئی بات چیت کو جب تحریر کی شکل دیتا تو لڑکیاں حیران رہ جاتیں۔

خصوصی لڑکیوں کے حقوق کے نام پر اقوام متحدہ یا کسی عالمی فورم سے ہماری کسی لڑکی کو کوئی عالمی ایوار ڈ ملے تو سمجھ لیں رانگ نمبر ہے۔ دیسی اور عالمی این-جی-اوز مافیا کا گٹھ جوڑ ہے۔ کیونکہ اگر آپ ایوارڈ لینے والی لڑکی سے کہیں گے کہ کام دکھاؤ تو صرف باتیں ہی ملیں گیں۔

چند روز قبل دلاور بھٹہ اور ماہ نور کا انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس انٹرویو کو اتنی پذیرائی ملی کہ بہت سے نیوز اور یوٹیوب چینل دلاور بھٹہ کے گھر پہنچ گئے اور پھر انٹرویوز کی بھر مار ہوگئی۔
انٹرویو کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے، کہ دلاور پولیس میں کانسٹیبل ہیں اور انکی بیگم ماہ نورشدید معذوری کا شکار ہیں۔ ماہ نور کہتی ہیں کہ انکے گھر والوں نے دلاور کو انکے لیے  پسند کیا۔ انھوں نے دلاور کو ایک شادی میں دیکھا اور ہاں کر دی۔ اسی طرح دلاور کہتے ہیں کہ انکے بھائی نے ان سے رشتے کی بات کی اور انھوں نے ہاں کر دیا۔ خدا نے انھیں اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ انٹرویو کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کیلئے گانے بھی گائے۔ جوڑی سوشل میڈیا پر بھی کافی مشہور ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈالتے رہتے ہیں۔

خصوصی خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا آٹھ سے دس فیصد حصہ ہیں۔ یہ ویڈیو لڑکیوں کے حلقے میں بہت مشہور ہوئی۔ بلاگ میں اس حوالے سے چند حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں۔

دلاور اور ماہ نور انٹرویو میں اپنی شادی کا قصہ جس طرح بیان کر رہے ہیں۔ اگر یہ اسی طرح ہوئی ہے تو بہت بڑی بات ہے۔ ایسے واقعات حقیقی زندگی میں شاذونادر ہی ملتے ہیں۔ ایک دوست جس کی رنگت سانولی تھی بنک منیجر تھا۔ اس کی شادی میں گھر والوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک انجینئر دوست جس کے گھر والوں کو اسکے گنجے ہونے کی وجہ سے رشتہ ڈھونڈنے میں بڑی بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ ہمارے ملک میں لاکھوں لڑکیاں جہیز، ذات برادری، قوم قبیلہ، عمر، رنگت وغیرہ جیسی غیر اہم چیزوں کی وجہ سے شادی بندھن کے محروم رہ جاتی ہیں۔ ہمارے روائیتی معاشرے میں توہمات، خدشات رسوم و رواج، مسلک، رنگ و نسل وغیرہ کا درجہ انسان اور انسانیت سے زیادہ ہے۔

میں ایسی بہت سی خصوصی لڑکیوں کے انٹرویوز کرچکا ہوں جو اعلیٰ  تعلیم یافتہ ہیں، کچھ سولہویں، سترہویں اور اٹھارویں گریڈ کی آفیسر بھی ہیں، کچھ کا تعلق ملک کے نامور خاندانوں سے ہے۔ زیادہ تر کی شادی نہیں ہوئی۔

انٹرویوز کے دوران ایک اور چیز میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ جن خصوصی لڑکیوں کی شادیاں محبت سے ہوئیں۔ انھیں انکے شوہروں نے جلد یا کچھ عرصہ بعد چھوڑ دیا۔

مجھے نوکری اور کاروبار کرنے والی خصوصی لڑکیوں کی شادیاں  زیادہ کامیاب اور بھرپور نظر آئیں۔ حافظ آباد کی میڈم رخسانہ بھٹی، مظفر گڑھ سے ماہین خدیجہ، لاہور سے ڈاکٹر آسیہ، لاہور ہی سے فرح خان، کشمیر سے سلمہ طاہر، کامونکی سے صدیقہ وغیرہ کے انٹرویوز کامیاب شادیوں کی روشن مثالیں ہیں۔

میرے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں نارمل لڑکوں نے خصوصی لڑکیوں سے شادیاں تو کرلیں۔ لیکن گھر والوں نے لڑکی کو کبھی بہو تسلیم نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔
متوازن شادی شدہ زندگی گزارنے کیلئے محبت اور دولت دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ خصوصی لڑکیوں کو میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو نوکری یا کاروبار میں مصروف کر لیں گیں تو نارمل رشتے خود چل کر آپ کے پاس آئیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خصوصی لڑکیوں میں کوئی نام ایسا نہیں ہے جسے خصوصی خواتین کی آواز کہا جاسکے۔ خصوصی لڑکیوں کے مسائل پر معاشرے میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے خصوصی لڑکیوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ابلاغ کے ہر ذریعے کو استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ آگہی عام ہو گی تو مسائل کا حل بھی نکلنا شروع ہو جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply