الوداع بلال شاہ کھگا/محمد وقاص رشید

خدا زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھا۔ زمان و مکاں کے قیدیوں کے خدا بن جانے سے کہیں اوجھل ہو گیا۔ بڑا عالی ظرف ہے چاہے تو انکی خدائی ایک ثانیے میں انکے منہ پر دے مارے لیکن زمین کے خداؤں میں آسمان کے باسی حقیقی خدا کے متلاشیوں کی آزمائش کیسے ہو انکی تلاش کا امتحان کیونکر ہو۔ زندگی آزمائش ہی تو ہے۔ اخلاصِ نیت کے پار پرے بیٹھا انتظار کرتا ہے ہمارا۔ ایسا لاشریک منتظر۔ اللہ اللہ

ایک میسج میرے ان باکس میں موصول ہوا اور فیس بک دوستی کا آغاز  ہو گیا۔ میں اسکے نظریات سے متاثر تھا انہیں پیش کرنے کے انداز سے مرعوب۔ دھیما سا لہجہ ، نرم گفتار ، متاثر کن اندازِ بیاں اور خوب صورت شخصیت۔ اسکی ویڈیوز بھانے لگیں۔ میرا ذوق ایسی تحریروں اور ویڈیوز کی طرف مائل ہوتا ہے جن میں “موٹیویشنل سپیکر مارکہ” خاص تصنع اور زعمِ برتری نہیں پایا جاتا۔ وہ اسی وجہ سے مجھے پسند تھا۔ وہ اپنے پیج “خدا اور انسان” پر کبھی میری کوئی تحریر لگاتا تو مجھے خوشی ہوتی۔

نظریات کے پہاڑوں میں تیشہ ِ حق گوئی لے کر نکلنے والے فرہادوں کو سلام کہ جن کے خون پسینے کی بوندیں قحط الرجال میں کسی نہر سے کم نہیں۔ وہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ ایک یو ٹیوب چینل میرے ذہن میں تھا جس میں اسکے ساتھ مستقل گفتگو ہوتی۔ مگر اب ایک خلش کا زخم ہے۔

کہیں وہ تصورِ خدا پر بات کرتا تو کہیں فلسفہِ انسانیت پر۔ کہیں وہ سماجی شدت پسندی کے آگے اعتدال و استدلال کے بند باندھتا دکھائی دیتا تو کہیں مخصوص پاکستانی سماجی و مذہبی عقائد پر اپنی مخصوص حلیمی کے ساتھ مثبت تنقید کرتا نظر آتا۔

یہ مگر کیا خبر ہے او خدایا یہ کیسی خبر ہے خدا کرے جھوٹی ہو ۔۔۔یااللہ یہ کیا ہو گیا کہ آج اسکا یو ٹیوب چینل اسکی ویڈیو کا منتظر ہے ۔ اسکی ٹک ٹاک اسکا راستہ دیکھ رہی ہے۔ “خدا اور انسان ” کا پیج کسی تحریر کا منتظر ہے اور BSK کی وال کسی پوسٹ کی راہ پر آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے اور ہم اسکے چاہنے والوں کے دلوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ روح ویسی ہی ایک پتھر و تارکول کی ایک سڑک معلوم ہوتی ہے دل کو اس خبر کے ٹائروں نے جیسے کچل دیا۔ سڑک حادثہ۔ اوہ میرے خدایا یہ سڑکیں کتنی قیمتی جانیں لیں گی۔ یہ سڑکیں زمین کے لیے بچھائی تھیں آسمان پر کیوں پہنچانے لگیں۔

ابھی ہفتہ بھر قبل جن والد صاحب کی سڑک حادثے میں خیریت کی دعا کروا رہا تھا آج وہی بوڑھے والد صاحب اسکے لیے مغفرت کی دعا کروا رہے ہیں۔ ” اے لم یلد ولم یولد”خدا تیری بندگی کا اس سے بڑا ثبوت کوئی کیا دے کہ بوڑھی ہڈیاں اکلوتے جوان بیٹے کی لاش اٹھائیں۔

چشمِ تصور سے ناچیز دیکھنے کی جسارت کرتا ہے کہ آج عرش پر کوئی عجیب منظر ہے۔ خدا نے اعلان کرا دیا ہے کہ میرا ایک نوجوان متلاشی آ رہا ہے۔ یہ زمین پر میرا قرب چاہتا تھا۔ اتنے اخلاص سے مجھے ڈھونڈ رہا تھا کہ میں نے پاس ہی بلا لیا۔ فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا۔ جس نوجوانی میں وہاں خدا سے غافل ہوا جاتا ہے یہ کون نادرِ روزگار ہے جو اس عالم میں اپنے پروردگار کی تلاش میں اڑان بھرنے لگا اور پھر ایک ہی جست میں اتنا اونچا اڑا کہ زمین پر واپس نہیں گیا۔۔۔خدایا کون ہے۔۔۔یہ وہی ہے جس نے ابھی کل پوسٹ کی تھی۔۔۔
زندگی تم میرا کیا بگاڑ لو گی آخر ؟
ایک دن میں تمہیں چھوڑ کے خدا کے پاس چلا جاؤں گا۔
میرا بندہِ خاص بلال شاہ کھگا آ رہا ہے استقبال کرو۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے خدا اسکے بوڑھے ماں باپ اسکا جسدِ خاکی تو بوڑھے کاندھوں پر اٹھا پائے اب اپنا کیسے اٹھائیں گے۔ انکا ہاتھ بٹائیں مالک۔۔۔۔
(اس ایک دن کی لا علمی سے میں جہان کا ہر علم ٹیک لگا کر بیٹھا ہے۔ ہم کتنے بد بخت ہیں کسی ایسی جوان موت پر ایک لمحے کے لیے علم پاتے ہیں پھر لا علم ہو جاتے ہیں۔ بلال شاہ کھگا خوش بخت تھا کہ اس لا علمی سے لا علم نہیں تھا۔۔۔الوداع یار )
“الوداع بلال شاہ کھگا (نظم)
آج تو فیس بک پر وہ آیا نہیں
بات حکمت کی کوئی وہ لایا نہیں
اسکا یو ٹیوب چینل بھی خاموش ہے
اسکا ٹک ٹاک بھی آج مد ہوش ہے
وہ “خدا اور انساں ” کے اس پیج پر
پوسٹ اسکی کوئی بھی نہ آئی نظر
او خدایا یقین مجھ کو آتا نہیں
ان میں اب وہ دکھائی نہ دے گا کہیں
وہ خدا کا تعارف کراتا تھا جو
اس نو عمری میں رب سے ملاتا تھا جو
وہ مہذب سا دھیما سا اور نرم خو
جس کو ہر آن تھی رب کی ہی جستجو
آج اپنے خدا سے ہے وہ جا ملا
اس کے ماں باپ کو درد کیسا ملا
اس بڑھاپے میں اکلوتے بیٹے کا دکھ
اپنے جیون کے واحد سہارے کا دکھ
زندگی بے ثبات ایک شے کس قدر
اے خدا بے ثباتی مگر اس قدر
قبل اک ثانیہ خیریت کی دعا
بعد اک پل کے ہے مغفرت کی دعا
تیرے جانے کا ہے ہر کسی کو ملال
الوداع اے بلال الوداع اے بلال

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply