امریکی پابندیاں- امریکہ کیلئے وبال جان/اتوسا دیناریان

امریکی حکام کی جانب سے مختلف ممالک کے خلاف وسیع پیمانے پر اقتصادی پابندیاں لگانا مخالف ممالک کو امریکی پالیسیوں کے تابع بنانے کا ایک سنگین حربہ ہے، البتہ اس پالیسی سے واشنگٹن کے لیے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے امریکن فارن پالیسی میگزین نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کی معیشت کا پانچواں حصہ اس وقت امریکی پابندیوں کی زد میں ہے اور اس طرز عمل کو جاری رکھنے کا نتیجہ امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی طاقت کے زوال کی صورت میں نکلے گا۔ اس اشاعت میں واشنگٹن حکومت کی جانب سے دوسرے ممالک کے خلاف پابندیوں کے حد سے زیادہ اقدام پر تنقید کی گئی اور لکھا گیا ہے کہ مخالف ممالک کو سزا دینے کے لیے بنائے گئے اقدامات اس مغربی نظام کو تباہ کر رہے ہیں، جس کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں مختلف ممالک کے خلاف امریکی پابندیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عالمی معیشت اور امریکی بالادستی کو عملی طور پر مختلف مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔

امریکی حکومت درحقیقت اپنے دشمنانہ اہداف کے لئے ان ممالک کے خلاف جو واشنگٹن کی مطلوبہ پالیسیوں کی تعمیل کرنے سے انکار کرتے ہیں، پابندیوں کے نام سے اقتصادی اور سیاسی جنگ لڑتی ہے۔ اب تک مختلف ممالک جیسے کہ روس، ایران، وینزویلا سمیت کئی ممالک پر واشنگٹن کی طرف سے پابندیاں لگائی جا چکی ہیں اور امریکی حکومت نے کوشش کی ہے کہ امریکی کمپنیوں کو بھی ان پابندیوں کی تعمیل پر مجبور کیا جائے۔ لیکن اس ہتھکنڈے کے استعمال نے عالمی معیشت میں پابندی والے ممالک کی پوزیشن کو کمزور کرنے میں نہ صرف اپنی تاثیر کھو دی ہے بلکہ یہ اقدام امریکہ مخالفت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مختلف ممالک نے مختلف سیاسی اور اقتصادی طریقوں سے امریکی پابندیوں پر قابو پانا سیکھا ہے۔

ایران، روس، چین اور وینزویلا جیسے متعدد ممالک نے اپنے باہمی اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے اور یہاں تک کہ لین دین میں ڈالر کو دوسری کرنسیوں سے بدل دیا ہے۔ اس سلسلے میں چین اور روس نے برکس کے نام سے ایک ادارہ قائم کرکے مختلف ممالک جیسے ہندوستان اور جنوبی افریقہ سمیت بہت سے دوسرے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کرکے اقتصادی تعاون کو مضبوط کیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ جینیٹ ییلن نے اس حوالے سے اعتراف کیا ہے کہ یہ درست ہے کہ دشمن ممالک کے خلاف ہمارا ہتھیار ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنا ہے، لیکن ان پابندیوں نے انہیں ڈالر کا متبادل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ نے پابندیوں کے نام پر مختلف ممالک میں جو اقتصادی جنگ مسلط کی ہے، اس نے ڈالر کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کے حصہ میں مسلسل کمی کا رجحان اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء کے آغاز سے 2020ء کے آخر تک مختلف ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کا حصہ تقریباً 13 فیصد کم ہوا ہے۔ “Tom Bellevue” ایک سرگرم کارکن اور اقتصادی تجزیہ کار ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں خبردار کیا ہے کہ قومیں امریکی ڈالر سے دور ہوتی جا رہی ہیں، امریکی حکومت کو اپنے رویئے کو جاری رکھنے میں محتاط رہنا چاہیئے، جس سے ڈالر کی قدر اور اعتبار مزید کم ہو جائے۔ دوسری طرف عالمی سیاست میں واشنگٹن پر انحصار کم ہوا ہے۔ یہاں تک کہ واشنگٹن کی طرف سے متحد یورپی ممالک بھی امریکی حکومت کی یکطرفہ اور غنڈہ گردی کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں، جیسا کہ بعض یورپی حکام، مثلاً فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، نے بارہا یورپی آزادی کی خلاف ورزی کے بارے خبردار کیا ہے اور اس یونین کے ممالک کے درمیان باہمی اقتصادی اور فوجی تعاون کو مضبوط کرنے پر زور دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مختلف ممالک کے خلاف امریکی پابندیوں کی ناکامی، امریکی بالادستی کو لاحق خطرے نیز ڈالر کی قدر میں روز افزوں کمی نے واشنگٹن کے بہت سے حکام اور ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور انہوں نے اس مسئلے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے واشنگٹن کی پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply