عراق کے دارالحکومت بغداد میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے سویڈن کے سفارتخانے پر حملے کے بعد عمارت کو آگ لگا دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق قرآن کریم کو جلائے جانے کے ایک اور متوقع واقعے کے خلاف عراق میں سویڈن کے سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا گیا۔اس مظاہرے کے دوران سینکڑوں مشتعل افراد سویڈن کے سفارتخانے میں داخل ہو گئے اور عمارت کو نذرِ آتش کر دیا۔واقعے کے فوری بعد سویڈن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں حملے کی سخت مذمت کی۔
سٹاک ہوم میں وزارت خارجہ کی جانب سےجاری کیے بیان میں کہا گیا ہےکہ ہم سفارتکاروں اور بین الاقوامی تنظمیوں کے عملے پر ہر قسم کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔بغداد میں سویڈن کے سفارتخانے نے فوری طور پر اس حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دینے گریز کیا ہے۔
اس احتجاج کا اعلان شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے کیا تھا۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے جانے والے اعلانات اور مقتدیٰ الصدر کے حامی میڈیا کے مطابق اُن کے حامیوں نے احتجاج کے لیے بغداد میں سویڈن کے سفارتخانے کا رُخ کیا تھا۔اس سے قبل خبریں آئی تھیں کہ سٹاک ہوم میں پولیس نے عراقی سفارتخانے کے باہر قرآن کریم کو جلانے کے ایک اور مظاہرے کی اجازت دے دی ہے۔ون بغداد کے نام سے بنائے گئے گروپ میں سویڈن کے سفارتخانے پر حملے کی مختلف ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں۔
https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-07-20/news-1689833786-2311.jpg?ver=1.0
عراق کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کر کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہےکہ ’عراقی حکومت نے مجاز سیکیورٹی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر ضروری حفاظتی اقدامات اور تحقیقات کریں تاکہ اس واقعے کے پیچھے ملوث عناصر کا تعین کیا جا سکے اور اس فعل کے مرتکب افراد کی شناخت کی جا سکے اور انہیں قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔عراقی پولیس اور سرکاری میڈیا نے فوری طور پر سویڈن کے سفارتخانے پر حملے اور جلانے کی تصدیق نہیں کی۔
خیال رہے کہ ایک شخص نے پولیس کی حفاظت میں سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر قرآن اور یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے نسخے جلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم مبینہ طور پر اس شخص نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کے خدشات کے پیش نظر اپنا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔
سویڈن میں عوامی مظاہرے کرنے کا حق حاصل ہے اور آئین کے تحت اس کو تحفظ حاصل ہے۔ سویڈن میں توہین مذہب کے قوانین کو 1970 کی دہائی میں ختم کر دیا گیا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں