داستانیں اور مذاہب/انور مختار

Myth, Epics & Religions

 

 

 

 

 

 

نظریہ ارتقاء کے نقطہ نظر سے مذہب کے ارتقائی تصور کے بیانیے کو درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
1. مذاہب آسمانی نہیں ہیں یہ انسانوں کے ذریعے اور انسانوں کے درمیان ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔
2. مذاہب اپنی ابتدائی شکلوں (رسومات rituals) سے پیچیدہ عقائد کی جانب ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔
3.مذاہب گروہی فٹنس دیتے ہیں۔ یعنی وہ انسان اور انسانی نوع کو بحیثیت ایک گروہ بہتر بقا کی ضمانت دیتے ہیں اس لیے وہ اہم ہیں۔
4.آج کے پیچیدہ مذہبی فلسفہ رسومات/ عقائد اور ساختی مذاہب کی ابتدائی شکلیں یا تصورات دور جدید میں بھی موجود قدیم غیر متمدن قبائل (primitive tribals) جیسے انڈمان اور زمبابوے یا مشرقی افریقہ میں موجود قبائلی سوسائٹیوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
5.جدید انسان کے قریبی عم زاد نیئنڈرتھل اور دیگر کے ذریعے بنائی گئی پینٹنگز میں بھی ابتدائی رسومیات کی جھلک ملتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آج کے پیچیدہ مذہب ماضی میں سادہ شکلوں میں موجود رہے ہوں گے۔ اور انسانی شعور و ادراک میں ارتقا کے ساتھ ساتھ مذاہب بھی ارتقا پذیر ہوتے رہے۔ دیگر اگر یہ معلوم کرلیا جائے کہ موجودہ پیچیدہ عقائد جیسے ایک سے زیادہ خداؤں پر یقین، ایک خدا پر یقین، ایک کامل اور مقتدر دخل دینے والے خدا پر یقین، ان یقین سے پیدا ہونے والے شعار جیسے قربانی، ہدایت کا ماننا اور اس کے لیے تکلیف اٹھانا یا اپنے نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسرے انسان کی خدمت کرنا وغیرہ ان سب کی سادہ ترین شکلیں کیا ہیں تو پھر ان سادہ شکلوں کو آج کی ان پیچیدہ شکلوں سے مربوط کیا جاسکتا ہے اور یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ مذاہب انسان ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے ٹائلر نے مشہور زمانہ اصطلاح نسمیت (animism) وضع کی۔

نسمیت: ٹائلر کے نزدیک مذہب کی سب سے ابتدائی شکل روح یا ارواح پر عقیدہ ہے۔ نسمیت یا اینمزم اصطلاح کی تعریف کئی طریقے سے کی جاتی ہے، لیکن عمومی تعریف یہ ہے کہ فطری مظاہر اور اشیا سب میں روح ہوتی ہے۔ اور یہ روح انسانوں کو نفع یا نقصان پہنچانے کی قوت رکھتی ہے۔ ہندوستان میں ہندو مذہب کی ایک خاص شکل بلکہ غالب شکل کا آج بھی یہی نظریہ ہے۔ نسمیت کے زیر اثر پرانے قبائل میں آج بھی ارواح کو خوش کرنے کے لیے قربانی دی جاتی ہے۔ مختلف دیوتاؤں کی روحوں کو چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔ خود ہندوستان کے بہت سے گاؤں دیہات میں بڑے بوڑھوں کی روحوں کی تسکین کے لیے ایک مقررہ دن مختلف انواع کے پکوان اور پھل ایک خاص جگہ رکھے جاتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ارواح ان کو آکر استعمال کریں گی، ان کی تسکین ہوگی اور اس کے نتیجے میں وہ خوش ہو کر برسات یا موسم کی تبدیلی کے لیے عوام کے فائدے کے لیے کام کریں گی۔

اس موضوع پر ایک بہت تحقیقی اور فکر انگیز آرٹیکل میں سعید حسن صاحب لکھتے ہیں کہ قدیم دیومالائی داستانوں جن میں مصر، ہندوستان، میسوپوٹیمیا اور قدیم یونان شامل ہیں ان داستانوں میں خاصی مماثلت ہے. اگرقدیم رزمیہ کہانیوں اور دیومالائی داستانوں کاتقابل مذاہب سے جائے تو یہ دلچسپ ہونےکے ساتھ ساتھ اس بات کااشارہ بھی دیتی ہیں کہ مذاہب خواہ وہ Monotheistic ہوں یا Polytheistic دیومالائی کہانیوں کے بغیر ادھورے ہیں.

دیومالائی داستان ایک روایتی کہانی ہوتی ہے، خاص طور پر لوگوں کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یا کچھ قدرتی یا معاشرتی مظاہر کی وضاحت، اور خاص طور پر مافوق الفطرت مخلوق یا واقعات کو شامل کرنا۔

یوں تو دیومالائی کہانیاں اور داستانیں دنیا میں ہزاروں ہوں گی مگر کچھ کہانیاں ایسی ہیں جنہوں نے رفتہ رفتہ عقیدت اور مذاہب کی شکل اختیار کرلیں۔ قدیم داستانیں چاہے وہ مغربی ہوں یا مشرقی یا دنیا کے کسی اورحصے کی ان میں اصل تاریخ, مزہب یا متھ (Myth) کو الگ الگ کرنا بہت مشکل کام ہے۔

یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ مروجہ مذاہب کی بنیادیں دیومالائی کہانیوں پر ہی استوارکی گئی ہیں جن میں کئی صدیاں لگیں،ان سب کہانیوں میں اکثر بنیادی پہلو مشترک ہیں۔

ان دیومالائی کہانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوں جوں انسان ارتقائی مراحل سے گزرتا ہوا اس مقام پر پہنچا۔ جب اسے اپنے اطراف ایسی بہت سی چیزیں نظر آئیں جنہیں وہ سمجھنے سے قاصر تھا، لیکن سوالات بہت تھے، جن کا جواب آسان نہ تھا۔ ان سوالات میں مثال کے طور پر کائنات کی پراسراریت، دنیا کیسے تخلیق ہوئی، موسموں کا نظام، انسان کا وجود میں آنا، انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور مرنے کے بعد کیا ہوگا۔

یہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات اس زمانے کے لوگوں نے اپنی ذہنی استطاعت کے ساتھ دینے کی کوشش کی جو رفتہ رفتہ کہانیاں سنانے والوں نےفرضی داستانوں میں ڈھال دیں۔

دیومالائی داستانوں میں چاہے وہ مصری ہوں یا میسوپوٹیمیا کی، قدیم یونان کی ہوں یا ہندوستان کی یہ بات مشترک ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ دنیا کیسے تخلیق ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک خدا سب سے طاقتور ہوتا ہے، خداؤں کا گھراور انکا ایک پورا خاندان ہوتا ہے۔ خداؤں کی ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن آجاتی ہے، خداؤں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں، قدیم خداؤں کی جگہ نئے خدا لے لیتے ہیں۔

اکثر نامی گرامی اسکالرز جن میں ڈی ایم مرڈوک، کیرسی گریوذ، بارٹ اِہرمین، کیرن آرمسٹرونگ، جوناتھن کِرش، لائیڈ گراہم کے علاوہ دیگر کی رائے میں Polytheistic مذاہب میں سے Monotheistic مذاہب نمودار ہوئے انکا یہ بھی خیال ہے کہ بائبل خصوصاً اولڈ ٹیسٹیمنٹ دراصل میسوپوٹیمیا اور مصر کی قدیم دیومالائی کہانیوں کا چربہ ہے۔ نیو ٹیسٹیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرسچیینٹی ایجاد کی گئی ہے اور اسے یورپ میں قابل قبول بنانے کے لیے قدیم یونانی دیومالائی داستانوں کی آمیزش کر دی گئی۔

سب سے پہلے ذکر کرلیتے ہیں میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) کا یہاں پربہت سی قدیم قومیں آباد رہیں جن میں قابل ذکر سمیرین، اکادین، اسیرین اور بیبیلونین قومیں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن میں کئی صدیاں لگیں، ان کے مذہب اور کہانیوں میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، پرانے خداؤں کی جگہ نئےخداؤں نے لے لیں۔ بائبل اور Enuma Elish اسی خطے میں مرتب ہوئی۔

سمیرین مذہب دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے اس مذہب کےمطابق Anu جو آسمانوں کا دیوتا تھا اس کے اور Ki زمین کی دیوی کے ملاپ سے Enki جو عقل و دانش کا دیوتا تھا اور اسکی بہن Ningikuga جو زمین پر سبزے کی دیوی تھی پیدا ہوئے۔

اسکے علاوہ Anu اور Nammu پانی کی دیوی کے ملاپ سے Enlil ہواؤں کا دیوتا اور اسکی بہن Ninlil ہواؤں کی دیوی پیدا ہوئے۔ جس طرح قدیم مصری، یونانی داستانوں اور بائبل میں اولاد آدم میں بہن بھائی کی شادی ہوتی تھی اسی طرح Enki اور Ningikuga کے ملاپ سے Ningal چاند کی دیوی پیدا ہوئی، Enlil اور Ninlil کے ملاپ سے Nanna چاند کا دیوتا پیدا ہوا. Nanna اور Ningal کے ملاپ سے چار اور دیوی دیوتا پیدا ہوئے Utu سورج دیوتا، Inana جنت، زمین، محبت اور جنگ کی دیوی، Dumuzi چرواہا دیوتا اور Ereshkigal زیر زمین دنیا کی دیوی۔

سمیرین قوم کے چند مشہور اور طاقتور دیوتا اور دیویاں یہ ہیں. Anu جنت اور آسمانوں کا دیوتا، Nishursag زمین کی دیوی، Enlil ہواؤں کا دیوتا، Enki میٹھے پانی اور عقل و دانش کا دیوتا، Ershkigal زیر زمین دنیا کی دیوی، Inanna جسے Ishter بھی کہتے ہیں یہ جنگ کے علاوہ جنسی پیار و محبت کی دیوی تھی۔

سمیرین قوم کا ماننا تھا کہ دیوتاوؤ نے انہیں مٹی سے بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ دیوی اور دیوتاؤں کی عبادت اور خدمت کریں۔ اگر ان عبادات کے نتیجے میں خدا ان سے خوش ہوتا تھا انسانوں کو خوشحال اور بیماریوں سے دور رکھتا تھا٫ جبکہ نا خوش ہونے کی صورت میں زلزلے٫ طوفان یا دیگر آفات برپا کرتا تھا۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بہت سی چیزوں کی قربانی دی جاتی تھی جس میں اناج٫ سبزیاں اور جانور ہوتے تھے۔ عبادات اور قربانیاں دینے کے لیے مذہبی عبادت گاہ ذگرت (Ziggurat) کہلاتی تھی, جہاں عبادت گاہ میں دیوتاؤں کا پجاری دیوتاؤں کا نمائندہ ہوتا تھا۔

سمیرین کا یہ بھی ماننا تھا کہ پجاریوں کو دیے جانے والے تحفے دیوتاؤں تک پہنچ جاتے تھے، کائنات کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ یہ ایک پلیٹ کی مانند ہے جس پر ٹین جیسی دھات کا ایک گنبد ہے جو ہر طرف سے سمندر کے نمکین پانی سے گھرا ہوا ہے۔

سمیرین کا یہ بھی ماننا تھا کہ دنیاوی زندگی ختم ہونے کے بعد ایک ابدی زندگی انہیں کسی اور دنیا میں ملے گی جو کہ  ایک روح کی شکل میں ہوگی۔

وقت اور زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ میسوپوٹیمیا کی داستانوں میں بھی تبدیلی آئی جو بیبیلونین کی اینوماایلش جو کہ کائنات زمین اور انسان کی تخلیق کے بارے میں بتاتی ہے۔ انسان کو مٹی سے ہی بنایا گیا لیکن اس مٹی میں دیوتا کےخون کی آمیزش کی گئی اسی وجہ سے انسان کو دنیا کی باقی مخلوق پر فوقیت ملی۔

اگر ہم بائبل اولڈ ٹیسٹیمنٹ اورEnuma Elish کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں میں کتنی مماثلت ہے۔

یہاں یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ Enuma Elish بیبیلونین ورژن سترہ سو BC میں مٹی کی سات تختیوں پر لکھی گئی تھی، اس کے مقابلے میں اولڈ ٹیسٹیمنٹ کی موجودہ شکل پانچ سو BC میں مرتب ہوئی، یعنی Enuma Elish کے بارہ سو سال کے بعد بائبل اولڈ ٹیسٹیمنٹ میں Book of Genesis اور Enuma Elish دونوں ہی کائنات کی تخلیق بیان کرتی ہیں۔ ان دونوں مسودوں میں سات دن بہت اہم ہیں۔ اینوما ایلش کا آغاز when on high سے ہوتا ہے اور جینیسس کا in the beginning سے ہوتا ہے۔

ہر دیومالائی قصے اور مذہبی داستان میں تخلیق کائنات (Creation Story) اور (Pantheon) خداؤں کا کنبہ (دیوی، دیوتایوں کی اولادیں اور ان اولادوں کی اولادیں) اسکے علاوہ Flood Story کا زکر لازمی ہوتا ہے۔

مذاہب خواہ وہ مونوتھیئسٹک ہوں یا پولیتھیئسٹک تخلیق کائنات اور دیگر داستانیں انکا لازمی جٗزو ہے۔ جو اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ داستانیں نہ صرف تفریح مہیا کرتیں تھیں بلکہ انسان کو کسی حد تک کائنات کی پراسراریت پر غلط ہی سہی مگر مطمئن بھی کردیتی تھیں۔

ان داستانوں کے بہت سے حصوں کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر حکمران اور طاقتور گروہوں نے خداؤں کے نام پر ایک ایسا نظام قائم کیا جس سے انسانوں کو کنٹرول کرنا نسبتاً آسان تھا۔

بہت سی دیومالائی داستانیں ادب کے طور پر شاہکار داستانیں ہیں جیسے ایپک آف گلگامش، اشتر کا نزول، نرجل اور ارشکیگال، اڈاپا، اٹانا، انزو، ایرا اور اشام وغیرہ یہ سب کہانیاں اولڈ بیبیلونین ورژن میں ملتی ہیں جو تقریباً آج سے 4000 سال قبل مٹی کی تختیوں پر لکھی گئیں۔

پچھلے حصے میں میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) کی قدیم تہذيب میں دیومالائی داستانیں جو کہ وہاں کے مذاہب اور سماج میں کلیدی حیثیت رکھتی تھیں انکا زکر کیا تھا۔

سمیرین قوم میسوپوٹیمیا کی قدیم ترین قوم تھی جو کہ آج سے تقریبا ً چھ ہزار سال قبل وہاں آباد تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں دیگر قومیں بھی آباد ہوتی گئیں جیسے اکادئین، اسیرئین، بیبیلونین وغیرہ۔ ان قوموں نے قدیم دیومالائی کہانیوں اور مذہب میں کچھ تبدیلی تو کی جیسا کہ کچھ نئے دیوی دیوتا شامل کردیئے گئے، یا پرانے دیوتاؤں کی جگہ نئے دیوتا زیادہ طاقتور ہو گئے۔

اینوما ایلش (Enuma Elish) بھی کائنات کی تخلیق کی کہانی ہے. پروفیسر کرک سپینسر کے مطابق بائبل اولڈ ٹیسٹیمنٹ میں مذہب کا بنیادی کردار میسوپوٹیمیا کی دیومالائی کہانیوں ہی سے لیا گیا ہے۔

اینوماایلش میں تخلیق کائنات کچھ یوں ہوئی کہ:
٭جب کسی شے کا نہ نام تھا نہ وجود، نہ چاند تھا نہ سورج، اسوقت بس ایپسو (Apsu) جو میٹھے پانی کا (دیوتا) سمندر تھا اور تیامت (Tiamat) جو نمکین پانی (دیوی) کا سمندر تھی۔
٭ان دونوں کے ملاپ سے لاہمو اور لاہامو پیدا ہوئے۔
٭لاہمو اور لاہامو کے ملاپ سے انشر، کیشر اور انو پیدا ہوئے.
٭ان دیوتاؤں سے آگے ایک اور دیوتاؤں کی نسل پیدا ہوئی جس میں اییا(Ea)جو بہت طاقور خدا تھا اور اسکے بھائی شامل تھے۔
٭جب خداؤں کی تعداد بڑھی تو کائنات میں شور بڑھ گیا جس کی وجہ سے اپسو اور تیامت کا سارا سکون غارت ہو گیا۔
اپسو نے سوچا اور تیامت سے صلاح مانگی کہ نئی نسل کے دیوتاؤں کو مار دیا جائے تیامت راضی نہ ہوئی۔یہ گفتگو اییا (Ea) نے سن لی اور اسنے اپسو کو ہی مار ڈالا۔
8ایپسو کی بیوی تیامت اپنے شوہر کے قتل پر مشتعل ہوگئی اور بدلہ لینے کے لئے Monsters کی ایک فوج بنائی اور یوں خداؤں میں ایک جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں نئی نسل کے خداؤں نے حصہ لیا اور مرڈوک (Murdook) نے اس جنگ کی قیادت اس شرط پر کی کہ اگر وہ جنگ جیت لے تو وہ دیوتاؤں کا سربراہ بن جائیگا۔ مرڈوک کی شرط مان لی گئی۔ مرڈوک نے جنگ جیت کر تیامت کے دو ٹکڑے کرکے ایک حصے سے زمین بنائی اور دوسرے سے آسمان پھرانسان کو مٹی سے ایک غلام کے طور پر بنایا گیا تاکہ وہ خداؤں کی خدمت، اطاعت اور عبادت کریں۔
اسی وجہ سے بیبیلونین قوم کا ماننا تھا کہ دیوتاوں نے انہیں مٹی سے بنایا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ دیوی اور دیوتاوں کی عبادت اور خدمت کریں۔

اگر ان عبادات کے نتیجے میں خدا ان سے خوش ہوتا تھا انسانوں کو خوشحال اور بیماریوں سے دور رکھتا تھا، جبکہ نا خوش ہونے کی صورت میں زلزلے، طوفان یا دیگر آفات برپا کرتا تھا. دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بہت سی چیزوں کی قربانی دی جاتی تھی جس میں اناج، سبزیاں اور جانور ہوتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عبادات اور قربانیاں دینے کے لیے مذہبی عبادت گاہ ذگرت (Ziggurat) کہلاتی تھی، جہاں عبادت گاہ میں دیوتاؤں کا پجاری دیوتاؤں کا نمائندہ ہوتا تھا. ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ پجاریوں کو دیے  جانے والے تحفے دیوتاؤں تک پہنچ جاتے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply