حلالہ یا جسمانی و ذہنی اذیت۔۔۔فوزیہ قریشی

پچھلے برس یوکے میں یہ اشو بہت زیادہ اٹھایا گیا تھا بلکہ ایک بی بی سی ڈاکو منٹری بھی اس پر بنائی گئی تھی کہ یہاں کچھ مسلم تنظیمیں چھپ کر حلالہ کروا رہی ہیں۔جس میں کچھ فیس بک، وٹس ایپ گروپ اور پیجز شامل ہیں۔ ان پیجز کے تواسط سے حلالہ کے لئے افورڈ ایبل لڑکے ایسی لڑکیوں کو تلاش کر کے دیے  جاتے ہیں۔

یوکے میں اکثر مسلم فیمیلیز اپنے بچوں کی فورس میریجز کرواتے آئے ہیں۔ جس پر اب فائن لگا دیا گیا ہے کیونکہ اکثر بچے راضی نہیں ھوتے اور ان کی مرضی جانے اور پوچھے بغیر بیک ہوم لے جاکر بیاہ دیا جاتا ہے۔نتیجہ دیر سویر یہ نکلتا ہے  کہ دو الگ مزاج اور کلچر کے لوگ زیادہ عرصہ تک ساتھ نہیں چل پاتے اور ایسی صورت میں سیپریشن، خلع یا طلاق جیسے مسائل سامنے آتے ہیں ۔
کچھ مسلمان فیمیلیز حکومت سے مالی مدد کی خاطر بھی یہ کام کرتے ہیں۔ جیسا کہ مرد عورت پیپرز میں سیپریشن شو کرتے ہیں لیکن دراصل نکاح میں ہی رہتے ہیں۔ جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عورت اور اس کے بچوں کو حکومت سپورٹ کرتی ہے۔ اس طرح بیوی حکومت سے مالی مدد لیتی ہے اور شوہر بھی کام کر رہا ہوتا ہے۔ جس سے میاں اور بیوی دونوں کی مالی حیثیت بہتر ہوجاتی ہے۔
اب آتے ہیں اسی ایشو کی طرف جس کی وجہ سے حلالہ یہاں اب ایک کاروبار کی  شکل اختیار کر چکا ہے۔

مختلف مزاج ہونے کی وجہ سے اکثر غصے میں وہ جذباتی لڑکے یا مرد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتے ہیں اور چند گھنٹوں یا اگلی صبح جب احساس  ہوتا ہے تو پھر امام سے مشورہ لیا جاتا ہے اور کبھی اس طرح کے لوگوں کی تلاش کی جاتی ھے جو با آسانی حلالہ کی حامی بھر لیں اور جلد طلاق دے کر فارغ بھی کر دیں۔ کبھی کبھی یہ احساس بچوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اپنے وقتی غصے کے اتر جانے کے بعد بھی کہ اب باقی خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟

باقی خاندان سے بات کو چھپانے کی خاطر یہ اپنی بیوی سے حلالہ کروانے کو کہتے ہیں یا اسے راضی کرتے ہیں۔کچھ لڑکے یا مرد اس بات کو چھپانے کے لئے بھی کہتے ہیں۔ اگر عورت کچھ دینی علم رکھتی ہے اور وہ اس طرح ساتھ رہنے کو تیار نہیں ھوتی تو ایسے میں پھر کسی امام صاحب سے مشورہ لیا جاتا ہے اور انہیں یہی کہا جاتا ہے کہ کوئی گنجائش نکالیں۔
کچھ مساجد کے امام اسی مسئلے کو نظر میں رکھتے ہوئے عوام کی پُر زور مالی اصرار پر گنجائش نکال ہی لیتے ہیں اور یہ کام پروفیشنلی کردیتے ہیں۔ جس میں حلالہ سے لے کر نئی طلاق تک کا مُستند پیپر ورک کرکے دیا جاتا ہے تاکہ حلالہ کرنے والا بعد میں بلیک میل نہ کر سکے اور حلالہ کروانے والی فیمیلی کے پاس بھی ثبوت کے طور پر یہ رسید موجود ہو۔ یہی وجہ ہے دینے والے باآسانی فیس دینے کو تیار ہوتے ہیں اور لینے والے اپنے پروفیشنیلی اصول کے تحت فیس لیتے ہیں۔

یہ فیس ڈھائی ہزار پاؤنڈز سے شروع ہو کر چھ ہزار پاؤنڈز تک بھی چلی جاتی ہے۔ جس میں ہوٹل  کا خرچہ یا جہاں بھی وہ لڑکی اس رات یا چند راتوں کے لئے ٹھہرتی ہے یا ٹھہرائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے اور دوسری لگجریز کاسٹ بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔ یعنی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا کر لو مطلب اپنی سہولت کی خاطر اِس کام کو آسان بنا لو۔یہی کام کچھ لوگ ڈھکے چُھپے بھی کر رھے ہیں اور کچھ امام کو فیس دے کر شامل کر لیتے ہیں۔

میرے جیسے حساس ذہن کے مالک لوگ اس طرح کے مسائل پر بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہمارے مذہب میں حلالہ اس طریقے سے جائز ھی نہیں ھے تو پھر کیوں کچھ امام اسے جائز قرار دے رہے ہیں؟
جہاں تک مجھے علم ہے اُس علم کے مطابق عورت کی جس بھی دوسرے مرد سے شادی ھو تو وہ کبھی بھی اس کنڈیشن پر نہ ہوں  کہ وہ اسے چھوڑنے کے لئے یا حلالے کی غرض سے نکاح کرے گا۔ حلالہ اس صورت میں ہے کہ عورت کی پھر شادی ہو اور دوسرے مرد سے نہ بن سکے یا وہ طلاق دے۔ ایسی صورت میں عورت اگر چاہے تو واپس پہلے مرد سے نکاح کرسکتی ہے لیکن اس طرح حلالے کی رقم لے کر معصوم اور کم علم رکھنے والے معصوم لوگوں کو بے وقوف بنانا کونسا دین ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ مجبور فیمیلیز بھرم رکھنے اور بچوں کی خاطر چُھپ کر حلالہ کرنے کے لئے تیار بھی ہو جاتی ہیں اور یہ دونوں میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کچھ لڑکیاں یا عورتیں نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کی خاطر تیار ہو جاتی ہیں۔
ذرا سوچئے طلاق مرد دیتا ھے اور اُس کا خمیازہ اُس لڑکی یاعورت کو بُھگتنا پڑتا ہے۔ مرد اگر زبان پر اور غصے پر کنٹرول رکھے تو نوبت اِس حد تک نہ پہنچے۔کوئی بھی پل بھر کے لئے نہیں سوچتا کہ اس لڑکی یا عورت پر کیا گزر رھی ھوگی؟جسے اپنے شوہر کی اُس غلطی کا ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔مرد کا کیا گیا؟۔۔۔۔۔
ذہنی اور جسمانی اذیت تو عورت نے اُٹھائی صرف اس لئے کہ اُن کی شادی کا بھرم بچوں اور خاندان کے باقی افراد کے سامنے قائم رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حلالہ یا جسمانی و ذہنی اذیت۔۔۔فوزیہ قریشی

  1. فوزیہ صاحبہ آپ نے درست لکھا ہے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا جو مروجہ ہے کہ اس کے بارے میں اسلام کہتا ہے کہ حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو, البتہ جو آپ نے لکھا ہے کہ مرد کی غلطی کی سزا عورت کو ملتی ہے یہ بات حلالہ کی حقیقت شاید نہ سمجھنے سے لکھی ہے کیونکہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کوئی عورت اپنے شوہر سے ھمیشہ کے لیے جدا ہوجائے تو اب یہ اپنے شوہر کے پاس کسی بھی طرح واپس نہیں جاسکتی الا یہ کہ وہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے پھر اسکا یہ نیا خاوند فوت ہوجائے یا اس کو کسی بھی وجہ سے طلاق دیدے تو اب بعد از عدت اگر یہ پہلے والے خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے لیکن دونوں مواقع میں اس کی اپنی مرضی چلے گی. تو گویا پہلے خاوند کے پاس لوٹنا by chance ہے

Leave a Reply