کیا آپ بھی صرف ایک محبت پر یقین رکھتے ہیں ؟

ہمارے معاشرے کی اکثریت صرف ایک سچی محبت پر یقین رکھتی ہے لیکن ایسا کیوں ہے؟

ہینا ملر کہتی ہیں کہ وہ شروع سے ایک سچی محبت یا ایک جیون ساتھی کے تصور پر یقین کرتی آئی ہیں جس سے روح کا گہرا تعلق ہو۔

ان کے بقول بچپن میں کسی نے انہیں بتایا تھا کہ سمندری گھوڑوں کا تاحیات ایک ہی ساتھی ہوتا ہے اور تب سے ہی انہیں ایک ساتھی کا خیال پسند آیا اور وہ اس متعلق سوچنے لگیں۔

تقریبا دس سال کی عمر میں وہ اپنی بہن کے ساتھ ایک تفریحی مقام پر گئیں جہاں ان کی بہن دوست سیم سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ سب سے خطرناک جھولے سیم نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا جبکہ اس دوران ان کی بہن انھیں چھیڑ رہی تھی کہ ان کی سیم سے شادی ہوجائے گی۔

برطانیہ میں برمنگھم سے تعلق رکھنے والی اس 45 سالہ ہینا ملر کا کہنا ہے کہ یہ بات میرے لئے باعث شرمندگی تو تھی ہی لیکن مجھے واقعی اس دن محبت کا احساس ہوا تھا۔

ہینا نے اس لڑکے سے اگلی ملاقات 18 سال کی عمر میں کی اور یوں تعلقات میں نیا موڑ آ گیا۔ محبت کی داستان بڑھی تو ہینا کی 20ویں سالگرہ سے قبل ہی دونوں نے شادی کر لی۔

لوگ ایک جیون ساتھی پر کیوں یقین کرتے ہیں؟

تحقیق کے مطابق گذشتہ پچاس سال میں ایسی سوچ کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاہے ہم اس پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن اس کا تعلق ہمارے ذاتی حالات اور نفسیات سے ہوتا ہے اور ہم جانے انجانے میں کسی مخلص شخص کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

سول میٹ یا ایک جیون ساتھی کا تاریخی تصور

یونانی فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ کسی زمانے میں انسانوں کے چار ہاتھ اور چار ٹانگیں ہوتی تھیں جبکہ زیوس دیوتا نے انسان کو اس کے تکبر کی وجہ سے دو ٹکڑے کر دیے اور اب ایک انسان دراصل اپنے دوسرے حصے کی تلاش میں ہوتا ہے۔

ہندو مذہب کی روایات کے مطابق کچھ لوگوں سے آپ کی ‘آتما’ کا تعلق ہوتا ہے۔ ہندو مذہب میں فوت شدہ انسان کی روح یعنی آتما کے پھڑکنے اور دوسرے انسان میں موجود ہونے کا تصور موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ اس کو کسی بھی رنگ میں لے لیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ایک انسان کی زندگی کسی دوسرے انسان کے ساتھ سچے پیار اور تعلق کے بنا ادھوری ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply