میلوڈی آف اے ٹئیر (ایک آنسو کا راگ)-مترجم/افشاں نور

میلوڈی آف اے ٹئیر محبت، دھوکے اور مصالحت کی ایک سحر انگیز کہانی ہے۔

مشہور اردو ادبی شخصیت محمد خالد اختر کے بیٹے ہارون خالد اختر نے ہندوستان میں نیاگی کتب کے اشتراک سے ایک ناول ‘میلوڈی آف اے ٹئیر’ شائع کیا۔ ناول کا آغاز ایک مکالمے سے ہوتا ہے “میرے معاملے میں ایک جدید طرز کا، کھلے گلے کا لباس اور تیز بھڑکیلی لپ اسٹک مجھے ایک مکمل عورت کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے ہے جو آخر کار بے تکلف، دلکش اور مار گرانے کے لیے تیار ہے۔” ایک مکالمہ جو فوری سوال اٹھاتا ہے کہ یہ عورت کون ہے؟
ناول تین مرکزی کرداروں وارث ، زارا اور زید کے درمیان ایک پیچیدہ رشتہ کے متعلق ہے۔ وارث ایک مصنف ہے جو زارا کو اعتماد میں لیتا ہے تاکہ وہ اپنی تحریروں کو خوشگوار انجام دے سکے۔ زید ایک بینکر ہے جو نرم دل ہے اور بہت جلد اس کی آنکھیں نم آلود ہوجاتی ہیں اور یہ اس کی نرم دلی ہی ہے جو زارا کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ہارون یہاں اس رسم کو توڑتے ہیں کہ کس طرح ہمارے پدرسری معاشرے میں، جہاں ایک آدمی کو آنسو بہانے پر کمزور سمجھا جاتا ہے چاہے وہ ایک آنسو ہی بہائے، مرد بھی رو سکتے ہیں۔
ہارون جس مرکزی موضوع پر توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ محبت کا جذبہ ہے۔ کس طرح سچا اور خالص پیار، ایک بے لوث محبت تمام جنگیں جیت سکتی ہے۔ کیسے محبت دل جیت سکتی ہے اور روح کو تمام اداسی اور غم سے پاک کر سکتی ہے۔
یہاں سے ہارون بیانیے کے مختلف انداز اپناتے ہے۔ وہ انداز کی سادگی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے اور جو واقعی آپ کے اندر گہرائی میں اترتی ہے وہ انتہائی سادہ اور واضح انداز میں اظہار پاتی ہے۔ جو ایک عام آدمی کی سمجھ میں آجائے وہی کامیابی کی کنجی ہے۔ پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانا ہی ایک سچے مصنف کا مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی ، وہ کہتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ لکھنے والا اپنے اندازِ تحریر کو عزیز رکھے۔
جادوئی حقیقت پسندی ایک وسیع موضوع ہے جو مختلف ناولوں میں مختلف کرداروں کو اپناتا ہے۔ مثال کے طور پر ، ہیری پوٹر سیریز میں ایک مافوق الفطرت عنصر نمایاں ہے، محسن حامد کے ناول ‘ایگزٹ ویسٹ’ میں ایک ایسی دنیا دکھائی گئی ہے جو آج کی دنیا سے مختلف نہیں ہے سوائے ایک چھوٹے فرق کے:
“یہاں ایسے دروازے ہیں جو کھلنے لگتے ہیں” مرکزی موضوع ہجرت کا ہے اور یہ ہجرت صرف جگہ کی ہجرت نہیں بلکہ خیالات ، اقدار ، ثقافت ، زبان اور نظریات کی ہجرت ہے۔ یہ ایک ‘کلائیڈوسکوپ’ کی طرح ہے۔”

عرب الہند کے ادب میں نامعلوم اور اجنبی ریاست میں جانے کا ذکر ہے۔ اس لیے جادوئی حقیقت پسندی کا تصور ملک سے ملک ، خطے سے خطے اور ایک موضوعاتی فکر سے دوسری میں مختلف ہوتا ہے۔

ناول میں جادوئی حقیقت پسندی ایک طاقتور قوت کے طور پر دکھائی دیتی ہے جہاں کرداروں کے درمیان ایک پیچیدہ رشتہ ہے جو الجھا دیتا ہے۔ کوئی سادہ جواب نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ابہام باقی رہتا ہے کہ کون اصل فاتح ہے؟ کون اصل راوی ہے؟ کیا کچھ لوگ مر جاتے ہیں یا محض شکل بدلتے ہیں؟ کس کا تخیل بالآخر زارا سے محبت کرتا ہے؟ جوابات اتنے ہی غیر حقیقی ہیں جتنے خود سوالات!
مصنف کی کہانی میں کوئی ولن نہیں ہے۔ واحد ولن جسے پہچانا جا سکتا ہے وہ شاید کراچی شہر ہے۔ خطرات اور عدم تحفظ کے ساتھ ایک جہاں دیدہ شہر۔ کراچی جھگیوں، کچی آبادیوں اور سانحات سے بھرا ہوا تھا جبکہ اس کے برعکس زندہ دل پنجابیوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے ہارون خالد اختر ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی جہاں کتابوں سے بے پناہ محبت کی جاتی تھی۔
اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جو لکھنے کے بہت دلدادہ تھے، ہارون نے ‘ڈان’ کے لیے سو سے زائد مضامین اور مختصر کہانیاں لکھنے کے بعد انہیں ’تھریڈبیر‘ کے طور پر اکٹھا کیا جس نے آخر کار ناول “میلوڈی آف اے ٹیئر” کی شکل اختیار کرلی۔
ایک مصنف کے طور پر اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے سے پہلے ہارون بیس سال تک ایک بینکر رہے۔ وہ لکھنے کے جذبے سے سرشار تھے اور قارئین کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ وہی کریں جس کا انہیں شوق ہو! کیونکہ کامیابی صرف محنت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے حصول کے لیے کام کرتے ہوئے اس سے لطف اندوز ہونا اور انسان میں اس کام کی قدرتی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہارون ٹھیک ہی کہتے ہیں:

“شبے کے فائدے کے وقت اپنی جبلت پر بھروسہ کریں”

‘دی کیس آف ایکسپلاڈنگ مینگوز’ کے مصنف محمد حنیف کا کہنا ہے “ہارون خالد اختر کا تخیل شاندار اور خیالات کا اظہار بالکل حقیقی ہے۔”
ہارون بتاتے ہیں کہ کس طرح کسی کے ذاتی تجربات ایک حقیقی اور خیالی کہانی کے لیے جگہ بناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ پندرہ منٹ جن میں موسیقی جو وہ صبح کام پر جاتے ہوئے گاڑی چلانے کے دوران سنتے تھے سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور منافع بخش لمحات تھے۔ صبح کے وہ اوقات ان کے ذہن میں انتہائی تخلیقی خیالات انڈیلنے کا سبب بنے۔ ان لمحات نے کمال اور اصلیت کا بیج بویا جس نے بالآخر ان کی ذہنی تخلیق کی جو ہارون کے سب سے قیمتی اثاثے “میلوڈی آف اے ٹئیر!” میں بدل گیا-

Advertisements
julia rana solicitors

ناول کا عنوان قافیہ بندی کے ارتعاش کے ساتھ بجتا ہے جو زندگی کے اتار چڑھاؤ کا گیت گاتا ہے۔ ایک آنسو کا راگ، موسیقی کے آلات کا ساز مل کر ایک سحر طاری کرتے ہیں جو زارا ، زید اور وارث کی زندگی کی کہانی کو بُنتا ہے۔ ایک عظیم ناول جو کرداروں ، رشتوں ، تجربے اور تخیل کی کہانی بناتا ہے۔ “میلوڈی آف اے ٹیئر” بلا شبہ “جذبے اور دردمندی” کی کہانی ہے۔ یہاں انجام کو ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ کون مرتا ہے؟ کون جیتا ہے؟ اور کون ابدیت کو پالیتا ہے؟ یہ تمام سوالات ہیں جو ایک معمہ ہی رہیں گے۔ ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے بلاشبہ ناول پڑھنا ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply