• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روشن خیال پٹھان (ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے نام)-تحریر/ثاقب لقمان قریشی

روشن خیال پٹھان (ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے نام)-تحریر/ثاقب لقمان قریشی

پٹھان قوم سے متعلق تین مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے یہ ہے کہ پٹھانوں کا تعلق آریائی نسل سے ہے۔ دوسری رائے کے مطابق قیس عبدالرشید سے ہے۔ جو کہ نبی پاکؐ کے صحابی تھے۔ جبکہ تیسری رائے یہ ہے کہ پٹھانوں کا تعلق بنی اسرائیل کے گم شدہ قبائل میں سے ہے۔

قیس عبدالرشید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب انھیں نبی پاک ؐ کی آمد کا علم ہوا تو یہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ زیارت کیلئے چلے گئے۔ اسلام قبول کیا۔ پہلے پشتون مسلمان ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ نبی پاکؐ نے انکا نام قیس سے عبدالرشید رکھ دیا۔

ایک روایت کے مطابق مختلف جنگوں کے دوران کفار کا پلڑا جب بھاری ہونے لگا تو نبی پاکؐ نے حضرت خالد بن ولید سے کہا کہ عبدالرشید سے مدد لی جائے۔ حضرت عبدالرشید قافلے کے ساتھ مکہ آئے اور کفار کو شکست فاش دی۔ افغان لشکر کی جرات و بہادری کو دیکھتے ہوئے نبی پاکؐ نے خصوصی دعا فرمائی۔ حضور پاکؐ پر وحی نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسلام کی خدمت میں پشتونوں کو وہ مقام  حاصل ہوگا جو کسی کشتی میں لکڑی کے نچلے حصے کو ہوتا ہے۔ یعنی جس کے بل پر پوری کشتی کھڑی ہوتی ہے۔ رخصت کے وقت حضرت خالد بن ولید کی درخواست پر ایک انصار صحابی کو لشکر کے ہمراہ بھیجا گیا تاکہ وہ کوہستان غور میں دین کی تعلیم کو عام کریں۔

نعمت اللہ کی مشہور کتاب “مخزن افغانی” قیس قبیلے پر لکھی گئی مشہور تاریخی کتاب ہے۔ اس کتاب میں نعمت اللہ لکھتے ہیں۔ قیس عبدالرشید حضرت خالد بن ولید کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے اور انھوں نے حضرت خالد بن ولید کی بیٹی سے شادی بھی کی تھی۔ حضرت قیس کے دو صاحبزادے تھے جن کے نام بٹان اور غور تھے۔ بٹان نام آگے چلتے چلتے تبدیل ہوکر پٹھان ہوگیا۔
اسلامی تاریخ پر لکھی گئی مختلف کتابوں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سندھ اور افغانستان کے مختلف قبائل دین اسلام قبول کرنے نبی پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں۔

مختلف پشتون اور یہودی تاریخ دان، پشتون قوم کو یہودی نسل سے جوڑتے نظر آتے ہیں۔ مورخین کے مطابق فلسطین میں یہودیوں کے بارہ قبائل آباد تھے۔ حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھا اس لیے انکی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے۔ ان بارہ کے ناموں سے یہودیوں کے بارہ قبائل کی بنیاد پڑی۔ حضرت سلیمانؑ کے دور تک یہ بارہ قبائل متحد رہے۔

حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد جب انکے صاحبزادے ربحام کو تخت سونپا گیا تو بارہ میں سے دس قبائل نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس طرح بنی اسرائیل دو حصوں میں بٹ گئے ۔مشرقی فلسطین میں دس باغی قبائل نے سلطنت اسرائیل کی بنیاد رکھی جبکہ مغرب میں دو قبائل لاوئی اور یہوداں ربحام کے ماتحت رہے۔ جنھیں سلطنت یہوداں کہا جاتا ہے۔

آٹھ سو قبل مسیح میں بابل کی اشوئی فوج اسرائیل پر حملہ آور ہوئی اور انکی سلطنت کو برباد کر دیا۔ اب صرف مغربی فلسطین میں سلطنت یہودان باقی بچی۔ وہاں بچے کچے بنی اسرائیل یہودی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جبکہ بنی اسرائیل کے بقیہ دس قبائل کا قتل عام کیا گیا۔بچ جانے والے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئے۔ یہودی محققین کے مطابق بنی اسرائیل کے یہ گم شدہ قبائل ایران میں گوہر کے پہاڑوں میں چھپ گئے اور پھر دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل گئے۔ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا بھی یہی ماننا تھا کہ انکے آباؤ اجداد کا تعلق بنی اسرائیل کے “بن یامین” قبیلے سے تھا۔ جو بنی اسرائیل کے گم شدہ قبائل میں سے ایک ہے۔

افغانستان اور ہمارے پشتون علاقوں کو عظیم طاقتوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ پرشین ایمپائر، سکندر اعظم، تاج برطانیہ، روس اورامریکہ سمیت دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت پشتونوں کو زیر نہ کرسکی۔ سکندر اعظم جنگ کے ذریعے دنیا فتح کرتے کرتے یہاں پہنچا۔ چھوٹی بڑی متعدد جنگوں کے بعد اسے پتہ چل گیا کہ اس قوم کو جنگ کے ذریعے ہرایا نہیں جاسکتا۔ پھر اس نے مشہور سردار کی بیٹی سے شادی کی۔ بات چیت کے ذریعے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ تسلط بھی سکندر کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ پشتونوں پر ایرانی، مصری، یونانی، ہندوستانی متعدد بار حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن کوئی بھی زیادہ عرصہ غیر قانونی تسلط برقرار نہ رکھ سکا۔

گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے افغانستان اور ہمارا پشتون بیلٹ عالمی طاقتوں کی سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ طالبان، القاعدہ، داعش، تحریک طالبان، رنگ برنگے جہادی لشکر بنا کر ان علاقوں کو جہنم بنا دیا گیا۔

عالمی طاقتوں کے مابین طویل ترین سرد جنگ کے باوجود خیبرپختون خواہ میں روشن خیالی کے کچھ عجیب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پٹھان بھائی طویل ترین بدامنی کے باوجود اپنی بہادری، روشن خیالی اور خوش اخلاقی کو ثابت کرتے نظر آ ہیں۔

یہاں میں تین ایسی خبروں کا ذکر کرنا چاہونگا جنھیں ہمارے میڈیا نے توز یادہ اہمیت نہیں دی لیکن یہ خبریں بی-بی-سی، وی-او-اے، ڈی-ڈبلیو، انڈیپینڈینٹ اردو کی زینت رہی ہیں۔

خیبرپختون خواہ میں ہر سال معذور افراد کی سپورٹس کا ایک بڑا ایونٹ ہوتا ہے۔ جس میں بہت سے کھیلوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال اس ایونٹ میں ملک بھر سے ایک ہزار سے زائد معذور لڑکے اور لڑکیوں نے حصہ لیا۔ ایسا ایونٹ ملک کے کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہوتا۔ ایونٹ کے دوران ملک بھر سے آئے کھلاڑی پٹھانوں کے اخلاق اور حسن سلوک کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

اس سال مارچ کے مہینے میں عزیز اللہ خان تحصیل چیئرمین سرائے نورنگ، لکی مروت کی شادی ہوئی۔ عزیز نے ولیمے کی تقریب میں عزیز و اقارب کو بلانے کے بجائے چھ سو غریبوں میں راشن تقسیم کیا۔

جون کے مہینے میں بونیر میں ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا۔ بونیر کے ایک گاؤں انظرمیرہ میں مقامی جرگے نے جہیز کے لین دین پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ جرگے کے ایک ممبر واسط خان نے انڈیپینڈنٹ اردو کو انٹرویو کے دوران جو چند اہم باتیں کیں ہیں

“جہیز پر مکمل پابندی تو ممکن نہیں البتہ اس میں 60 سے 70 فیصد کمی آجائے تو پھر بھی بڑی بات ہوگی”

’ہماری کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ یہ رسومات ختم ہو جائیں۔ کیونکہ مالی مسائل کی وجہ سے وقت پر شادیاں نہیں ہوتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر گاؤں کے لڑکے کی آمدن بہت کم ہو یا وہ لاہور، کراچی میں دس سے 15 ہزار تنخواہ لیتا ہو اور اس کی شادی پر اخراجات لاکھوں تک ہوں، تو وہ کیسے برداشت کرے گا۔‘
’اسی طرح لڑکی کے باپ کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ ان کی آمدن اتنی نہیں ہوتی کہ وہ جہیز کا سارا سامان خرید سکیں۔ لہذا یہ شادیوں میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔

پٹھان کہتے ہیں کہ پٹھان آپ کو ملک کے ہر کونے میں محنت کرتا نظر آسکتا ہے۔ لیکن بھیک مانگتا نظر نہیں آئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اوپر بیان کیئے گئے واقعات کی اگر میڈیا پر اچھی طرح پروجیکشن کی جائے تو دوسرے صوبے اور قومیں بھی ان سے متاثر ہوسکتی ہیں۔ پٹھان واقعی ایک عظیم قوم ہے جو ہر کچھ عرصے بعد ایسی مثالیں قائم کرتی نظر آتی ہے جو دوسری قوموں میں کم ہی ملتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply