عیدِقرباں مبارک/شاہین کمال

بچپن کا تو دور ہی سہانہ و شہانہ تھا،خواہشات بھی چھوٹی چھوٹی اور پورا کرنے کو مہربان والدین ہر دم تیار۔ تمنا و آرزوئیں ایسی کہ با آسانی بر آ جائیں۔ امّی ہر تہوار بہت اہتمام اور ذوق و  شوق سے مناتی تھیں۔ میرے گھر میں کونڈا، شب برات، رمضان اور عید، بقر عید سب کا اپنا اپنا رنگ و ذائقہ تھا۔ بچپنے کی بقر عید جو ڈھاکہ میں بسر ہوئی، وہاں قربانی کا جانور ہمیشہ ہفتہ دس دن پہلے آ جاتا تھا۔ عموماً میرپور ہاٹ سے آتا تھا۔ دو بکرے آیا کرتے تھے اور ترنت ہی ہم اور زرین ایک ایک بکرے پر قابض ہو جاتے۔

ان بکروں کا نام بھی رکھا جاتا اور ان کی خاطر داریوں اور ٹہل سیوا میں اسکول و سکول سب گول ہو جاتا اور امی بھی کمال مہربانی سے صرفِ  نظر کرتیں۔ نورو، غفور (نوکروں) سے بکروں کے سنگھار کا سامان منگواتے، گلے کا چمکدار پٹہ، ماتھا پٹی اور پیروں کے لیے چھن چھن کرتے گھنگھرو والے کڑے۔ نورو سے بکروں کی سینگ رنگوائی جاتی۔ غرض جمع شدہ ساری پاکٹ منی پیشانی پر بل ڈالے بنا لاڈلے بکروں پر وار دی جاتی۔

اس ایک ہفتے میں عزیز از جان جمی، میری دلاری کتیا بھی ذرا پس منظر میں چلی جاتی۔ بکرے کا چارہ تو آتا ہی تھا مگر مارے محبت کے محلے کے درختوں سے بھی اچھل اچھل کر پتے جھاڑ کر ان بکروں کی تواضع کی جاتی۔ غرض کہ  ان معصوموں کو اتنا ٹھونسایا جاتا کہ اکثر غریب کو جلاب لگ جاتا پھر امی کی کراری ڈانٹ کے بعد بکروں کے لنچ ڈنر کی ذمہ داری نورو یا غفور کو تفویض کر دی جاتی۔

ہم اور زرین بس بکروں کو نہلانے، رگڑ رگڑ کر پونچھنے، کنگھا کرنے اور سنوارنے تک ہی رہ جاتے۔ ان دنوں جانوروں کو ٹہلانے کا رواج کم کم تھا۔ اگر کسی شام بکروں کو ٹہلایا جاتا بھی تو یہ ذمہ داری غفور کی ہوتی کہ ہم اور زرین اپنے منحنی وجود کے سبب اس مہم کے جوگے تھے بھی نہیں۔ ہم دونوں کی بکروں پر فریفتگی کا یہ عالم کہ بس چلے تو کھانا ناشتہ  بھی انہیں کے ساتھ ہی کرتے مگر بھلا ہو امّی کے ڈسپلن کا ،ڈائنگ ٹیبل سے ہلنے کی جرات نہیں تھی ہماری۔

ہم دونوں ایک دوسرے کے بکرے کی ناز براری تو برابر کرتے مگر یہ گمان واثق رہتا کہ میرا بکرا زیادہ خوب صورت ہے۔ ہمارے خیال میں خوبصورتی اور ذہانت میں پورے محلے میں ہمارا بکرا یکتا ہوتا تھا۔ بس خوبصورتی والے معاملہ پر کبھی کبھی میری اور زرین کی تکرار بھی ہو جاتی پھر ثالثی کے لیے پاپا سے رجوع کیا جاتا اور پاپا تحمل سے پورا مقدمہ سننے کے بعد ہم دونوں کو ہمارے بکروں کی اضافی خوبیوں سے آگاہ کرتے اور مارے خوشی کے ہم دونوں بہنیں یہ بات ہی بھول جاتیں کہ ہم لوگ تو بکروں کے مقابلہ حسن کے فیصلے کے لیے پاپا کی عدالت میں آئے تھے۔

اس عرصے میں راتیں میرے پر بہت بھاری ہوتیں  کہ بکرے سے لمحے بھر کی جدائی بھی شاق تھی۔ حقیقتاً میری بھوک، پیاس اور نیند سب کسی ٹین ایجر عاشق کی طرح اڑ چکی ہوتیں  اور جیسے جیسے بقر عید قریب آتی میری بےچینی بڑھتی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے کہ بچپن میں ہمیں بقر عید بالکل اچھی نہیں لگتی تھی، حتیٰ کہ  بقر عید کا جوڑا بھی نہ بھاتا۔ عرفہ کے دن نورو چٹائی، کوئلہ وغیرہ لے آتا اور میرا جی بیٹھ جاتا۔

عید کی صبح ہم دونوں بہنوں کے لیے بہت المناک ہوتی اور ہم دونوں بھورے بھور بستر چھوڑ کر بکروں کے گلے کا ہار ہو جاتیں۔ بمشکل امی کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے ایک دو نوالہ زہر مار کرتے اور پھر بکرے کے پاس پہنچ جاتے۔

میرا اور زرین کا اصل جھگڑا تب شروع ہوتا جب قصائی آ جاتا۔ ہم دونوں یہ ضد پکڑ لیتے کہ پہلے میرا بکرا ذبح نہیں ہوگا۔ اس وقت لمحے بھر کی مانگی تانگی زندگی اتنی اہم لگتی کہ حد نہیں۔ پاپا مشکلوں سے مسئلہ حل کرتے۔ پھر ہم دونوں بہنیں بکروں کو خوب خوب پیار کرکے روتی ہوئی نیچے آ جاتیں۔ کونے کے کمرے میں کانوں میں انگلیاں دے کر بیٹھ جاتیں  اور روتی رہتیں۔ امی پیار کرتیں، سمجھاتیں  مگر دل بے طرح اداس رہتا۔ کلیجی بھی امی کی ڈانٹ کے ڈر سے بس چکھ لیتے تھے کہ نوالہ حلق سے اترتا ہی نہیں تھا۔

بقر عید میں ہم دو دن بالکل گھر سے باہر نہیں نکلتے بلکہ بالکونی تک میں بھی نہیں جاتے تھے۔ قربانی چونکہ چھت پر ہوتی تھی اس لیے کئی دن چھت کا بھی رخ نہیں کرتے تھے ۔ چار چھ دنوں کے بعد جب چھت پر جاتے تو بکرے کا پٹہ یا کوئی اور نشانی مل جاتی اور دل نئے سرے سے دکھ جاتا۔ امی میری اتنی جذباتیت پر سمجھاتیں  بھی اور کبھی کبھی ناراض بھی ہوتیں  کہ اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے صدقے اولاد کے بجائے دنبے کی قربانی قبول کر لی۔ پھر تو ڈر کر واقعی شکر کرتے، اس وقت قربانی کا اصل فلسفہ کب پتہ تھا۔ جب بڑے ہوئے اور قربانی کی اصل روح سے آگاہی ہوئی تو بقر عید بہت اچھی لگنے لگی مگر قربانی ہوتے دیکھنے کی ہمت پھر بھی نہ ہوئی۔

بقر عید کا ذکر ہو اور بکو کا احوال بیان نہ کیا جائے یہ بھلا کیسے ممکن ہے ۔ پاپا اپنے دورے پر کوئٹہ گئے تو دیکھا کہ خالہ امی کی بکری نے بچے دئیے ہیں۔ دونوں میں سے ایک بچہ پاپا کو بہت بھایا۔ اب بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اکلوتے نوشے بھائی کو کوئی چیز بھائے اور خوش خلق سالی اس کو پورا نہ کریں۔ سو کراچی واپسی کے سفر میں پاپا کے ہمراہ وہ بکری کا بچہ بھی تھا۔ بڑا ہی خوبصورت، کھلتے چاکلیٹی بڑے بڑے بال، سنہری چمکتی آنکھیں اور بلا کا شریر۔

اس کا نام “بکو” تھا اور وہ دو سال ہم لوگوں کے ساتھ رہا اور ان دو سالوں میں اس نے سب کو  ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس سے پاپا کی انسیت کا یہ عالم تھا کہ پاپا اس کی قربانی خود نہیں کر سکے بلکہ ہم لوگوں کے پڑوسی، خالد صاحب سے اس کے گلے پہ چھری پھیرنے کی درخواست کی۔ پاپا جو گوشت کے، خاص طور پر قربانی کے گوشت کے رسیا تھے صرف سنت پوری کرنے کے لیے اس کا گوشت چکھا تھا۔

عرصے بعد جب گلستان جوہر میں ہم اور زرین پڑوسی ہوئے تو وہاں کی بقر عید بچپن کے بقر عید کی یاد تازہ کر دیتی تھی۔ ہم دونوں اب بھی جانوروں کے ناز نخرے اٹھاتے تھے۔ گرمی ہو تو پنکھا لگایا جا رہا ہے، سردی ہے تو گائے کو موٹی چادر اور بکروں کو سوئیٹر پہنایا جا رہا ہے۔ جانوروں کے لیے اپلے سلگائے جا رہے ہیں تاکہ انہیں مچھر نہ کاٹے۔ بچیاں بھی جانور کے چارے پانی کا بہت خیال رکھتی تھیں مگر شکر کہ اپنی ماں کی طرح وارے صدقے نہیں جاتی تھیں۔ زرین کا چھوٹا بیٹا اویس بالکل اپنی ماں اور خالہ کی طرح جانوروں کا شیدا تھا۔ سارا سارا دن جانوروں کے ساتھ رہتا۔ مغرب کے قریب گھر آتا تو زرین سے ڈانٹ سنتا۔

“جاؤ جا کر نہاؤ بالکل بکرے کی باس میں بسے ہوئے ہو۔ ”

اُس پہ ڈانٹ کا کیا ہی اثر ہونا تھا، ہنستا رہتا اور نہا دھو کر کچھ آدھا ادھورا پیٹ میں ڈالتا اور پھر چپکے سے جانوروں کو کمپنی دینے نکل جاتا۔

ہمارے بچوں اور ہم بہنوں میں ایک فرق تھا کہ زرین اور ہم نے کبھی جانوروں کی قربانی ہوتے نہیں دیکھی تھی جب کہ یہ بچے بھاگ بھاگ کر جانور قربان ہوتے دیکھتے تھے۔ اس معاملے میں میرا دل ہمیشہ کمزور رہا۔ اپنے گھر میں جانوروں کے قربان ہونے کے وقت ہم گھر کے سب سے اندرونی کمرے میں نماز حاجت پڑھا کرتے کہ مالک اس جانور کی مشکل آسان کرنا اور قربانی کو قبول فرمانا۔

اب یہاں کیلگری میں تو بقر عید ہی اجنبی ہوگئی ہے۔ نہ ہی یہاں جانوروں کی منڈی سجتی ہے اور نہ ہی گھر گھر قربانی کا رواج ہے، پاکستان یا دنیا کے کسی بھی حصے میں قربانی کروا دی جاتی ہے اور قصہ ختم۔ نہ وہ جانوروں کی مہمان نوازی نہ ہی عید کا رونق میلا۔ عید کے دن عید گاہ سے نماز پڑھ کر گھر آتے ہیں اور گوشت کی دکان سے مول لی گئی کلیجی پکا کر عید کی صبح پراٹھے کے ساتھ نوشِ جاں کرکے عید منا لیتے ہیں۔ یہی حال جانپ اور بوٹیوں کا ہے۔ ہم پہلے ہی سے بہاری کباب اور ہنٹر بیف کا گوشت لا کر سب چیزیں بنا لیتے ہیں اور عید کے تینوں دن کھیل “فرض کرتے ہیں” کھیل کرکے قربانی کا مزہ لیتے ہیں۔

جو دل کی کہیں تو ہم اب زیادہ پرسکون ہیں کہ کہیں سے بھی ذبح ہونے کی اذیت ناک آواز سنائی نہیں دیتی اور سڑکوں پر خون اور آلائش بھی بکھری نہیں ملتی مگر اپنے نواسوں نواسیوں کے لیے قدرے ملال بھی کہ یہ بقر عید کے  تھرل سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں۔ یہ جانتے ہی نہیں کہ منڈی جانا، سوزوکی پر جانور چڑھانا اور پھر گھر پہنچ کر اسے بحفاظت اتارنا کیسا جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ رکھ کرنا، ان کے آرام اور چارے کا انتظام اور شام میں انہیں ٹہلانا کتنا تھرلنگ ہوتا ہے۔

وہ رسی تڑا کر سرپٹ بھاگتے ہوئے جانور کے تعاقب میں لوگوں کا ہجوم، یہ بچے اس ہیجان خیز منظر سے قطعی نا آشنا ہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والے بچے ان مہم جوئی اور ایکسائٹمنٹ سے محروم ہیں۔ اب یہاں کیلگری میں فارم پر جا کر قربانی کرنے کی سہولت موجود ہے۔ آپ فیملی کے ساتھ فارم پر جائیں اور خود اپنا جانور قربان کریں۔ کہیں کہیں تو اسی دن سارا گوشت بھی مل جاتا ہے بلکہ بعض فارم میں تو باربی کیو کی سہولیات بھی موجود ہیں گویا سارے دن کی پکنک۔

ان شاءاللہ بچے بڑے ہو جائیں تو ایسی عید بھی ضرور منائیں گے۔

فی الحال تو آن لائن تیرا آسرا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالیٰ ہم سب کی عبادات اور قربانیاں قبول فرمائیں۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply