سارے جگ کا راج دلارا۔۔۔شکور پٹھان

بہت سوچا، سر کھپایا لیکن سمجھ نہ پایا کہ یہ چیز جسے محبت کہتے ہیں، یہ کیونکر ہوتی ہے۔ اس عالم رنگ و بو میں بے شمار دل کو موہ لینے والے ، حواس پر چھا جانے والے، ایک سے بڑھ کر ایک حسین، طرح دار، باکمال، شاندار بلکہ عظیم الشان لوگوں سے پالا پڑتا ہے لیکن دل کسی کسی کو ہی اس طرح چاہتا ہے جسے محبت کہا جاتا ہے۔ کیا چیز ہے جو اس کا باعث بنتی ہے، کیا کوئی صورت من کو بھا جاتی ہے، کسی کی کوئی ادا دیوانہ کر دیتی ہے، کسی کا کوئی کارنامہ، کوئی صلاحیت اس طرف مائل کرتی ہے۔ یا کوئی علاقائی، مذہبی، لسانی تعلق۔

یہ سب شاید کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تعلق کسی نہ کسی صورت ضرور ہوتا ہے۔ بنا کسی تعلق کے پسندیدگی تو ہوتی ہے محبت نہیں ہوتی۔ اور شاید اس طرح بھی محبت ہوتی ہو لیکن کیا ایسا بھی کوئی ہے جس سے سارا عالم بغیر کسی تعلق کے محبت کرتا ہو۔ آپ کہیں گے ایسے بہت سے ہیں جنہیں غیر بھی چاہتے ہیں، جیسے نیلسن منڈیلا، مہاتما گاندھی، گوتم بدھ، مدَر ٹریسا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ حوالے بہت ہی محدود اور کسی خاص شعبے کے حوالے سے ہیں۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن میرا دعویٰ  ہے کہ موجودہ دنیا میں ایک ہی شخص ایسا ہے جس سے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے بلکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ پیار کرتے ہیں ، جسے ہر کوئی اپنا جانتا ہے۔ جس کیلئے کبھی ایک عالم دعاگو رہتا تھا۔ اور اس سے نہ تو کوئی علاقائی تعلق تھا، نہ وہ ہماری زبان بولتا تھا، کچھ لوگ شاید مذہب کی بات کریں، تو اس کے چاہنے والے افریقہ، لاطینی امریکہ، مشرق بعید اور دنیا بھر کے وہ لوگ بھی ہیں جن کا مذہب و مسلک بھی مختلف ہے۔ نہ ہی اس شعبے کی وجہ سے وہ محبوب تھا جو اس کی وجہ شہرت ہے، کہ میں نے اپنے گھر کی بڑی بوڑھیوں کو اس کیلئے دعائیں کرتے دیکھا ہے جنہیں یہ تک خبر نہ تھی کہ وہ کرتا کیا ہے۔ پچھلے سو سال میں محبوبیت اور مقبولیت میں کوئی اس کے پا سنگ بھی نہیں۔

جی ہاں میں بات کر رہا ہوں اس کی جو اپنے آپ کو عظیم ترین کہتا تھا، جو تتلی کی طرح رقص کرتا تھا لیکن مقابل کیلئے اس کا ڈنک بھڑ سے  بھی زیادہ تند ہوتا تھا۔ جو بڑبولا مشہور تھا لیکن دنیا اس کی گلفشانیوں پر مرتی تھی۔ جو مخالف کو اپنی زبان درازی سے ہی زیر کر لیتا تھا اور سننے والے اس کی بات سے کبھی بے مزہ نہ ہوتے کہ وہ تو اس کی ایک ایک ادا پر مر مٹتے تھے۔

جی ، یہ اسی محمد علی کی بات ہے،

وہ جو چہرے پر ایک بچے کی سی معصومیت لئے ہوتا لیکن مسکراہٹ جس کی شرارت سے بھرپور ہوتی اور جب وہ اپنے حریف کے مقابل ہوتا تو بجلی کی سی تیزی سے مخالف پر ٹوٹ پڑتا۔ اس کے مقابل روایتی انداز میں، ایک ہاتھ سے چہرے کا دفاع کرتے اور دوسرے ہاتھ سے اسے ضرب لگانے کی کوشش کرتے لیکن یہ ہمیشہ دونوں ہاتھ نیچے لٹکائے، ایک ایسے خوبصورت انداز میں رقص کرتا ہوا رنگ کے چاروں طرف چکر لگاتا کہ دیکھنے والے جھوم جھوم جاتے۔ جو مخالف کے وار کو ہاتھوں پر روکنے کی بجائے اس پھرتی سے جھکائی دیتا کہ حریف اپنی ہی جھونک میں لڑکھڑا جاتا اور اسی دوران یہ اس کے چہرے پر زوردار ضرب لگا چکا ہوتا۔

محمد علی، باکسنگ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ، جس سے پہلے اور جس کے بعد دنیا نے باکسنگ جیسے وحشی کھیل میں دلچسپی نہیں لی سوائے ان کے جو اس کھیل کو پسند کرتے ہیں یا حصہ لیتے ہیں۔ علی کے کیریر کے دنوں میں تو کیا بچےبوڑھے، مرد وزن، امیر غریب، عربی عجمی، اور کیا کافر اور کیا مسلم سب اسی کے گن گاتے اور اسی پر مرتے۔ وہ رنگ میں اترتا تو فضا “علی، علی!!” کے نعروں سے گونج رہی ہوتی۔

اور کیوں نہ ہوتی۔ ایسا مبارک نام جس کا ہو وہ ناکام کیونکر ہو۔ ازل سے ابد تک کائنات کی محبوب ترین ہستی اور ان کے محبوب عم زاد کے ناموں کے امتزاج سے زیادہ مبارک نام اور کیا ہوسکتا ہے۔ مجھے بچپن سے حیرانگی ہوتی تھی کہ اس نام کے لوگوں کو میں نے ہمیشہ نمایاں دیکھا۔

ہوش سنبھالتے ہی اللہ اور اس کے پیارے رسول کے بعد جس نام سے عقیدت ہوئی وہ ہمارے قائد اعظم کا نام تھا۔ لیکن بچپن میں ہم صرف انہیں قائد اعظم ہی کے نام سے جانتے تھے۔ دو تین جماعت پڑھنے کے بعد ان کے پورے نام یعنی ‘محمد علی جناح ‘ کا علم ہوا۔ لیکن اس دوران ایک اور محمد علی کا نام جا بجا نظر آتا تھا وہ تھے ‘محمد علی چاولہ’ جو قسطوں پر پنکھے، سلائی مشین اور ریڈیو دیتے تھے اور ان کے نام کے بورڈ اور اخبارات میں اشتہارات نظر آتے۔ پھر تیسری جماعت میں آئے تو ایک دن اسکول پہنچ کر پتہ چلا کہ ملک کے وزیر خارجہ ‘محمد علی’ بوگرہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس خبر سے ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ اس دن اسکول ان کے انتقال کے سوگ میں بند رہا۔ پھر دو سال بعد فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن ہوئے تو ایک اور محمد علی کا نام بہت نمایاں تھا یعنی نظام اسلام پارٹی کے سربراہ چوہدری محمد علی، جو شاید وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ انہی دنوں ایک خوبرو اداکار کی تصویریں فلموں کے اشتہاروں اور اخبارات کے فلمی صفحوں پر چھائی ہوئی تھیں اور یہ تھے اداکار محمد علی۔ اور میرا یہ یقین راسخ ہوگیا تھا کہ اس نام کے لوگ زندگی میں ہمیشہ نمایاں رہتے ہیں کہ یہ دو مبارک ترین ناموں کا امتزاج ہے۔

لیکن اس محمد علی سے ہمارا تعارف محمد علی کی نام سے نہیں بلکہ “کاسئیس کلے” کے نام سے ہوا اور اسکے بعد بھی ہم اسے محمد علی کلے ہی پکارتے رہے۔

اور یہ کہانی شروع ہوتی ہے 1964 سے جب ایک دن اخبار میں پڑھا کہ روم اولمپک کے ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئین کاسئیس کلے نے عالمی چمپئین ‘سونی لسٹن’ کو شکست دے دی۔ (یہ روم اولمپک وہی تھے جس میں پاکستان نے بھارت کوہرا کر پہلی مرتبہ اولمپک ہاکی میں سونے کا تمغہ جیتا اور ہاکی کی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان باآواز بلند کیا۔) اور سچ تو یہ ہے کہ یہ خبر ہم نے اس وقت تو پڑھی بھی نہیں تھی کہ باکسنگ کا کھیل کوئی ایسا مقبول عام نہ تھا۔ کرکٹ ہاکی اور فٹبال عوام النِاس کی دلچسپی کے مرکز تھے۔کھیلوں کا ایک انگریزی ماہنامہ اسپورٹائمز (Sportimes) البتہ دنیا بھر کے کھیلوں کی خبریں دیتا۔ اس جیسا معیاری کھیلوں کا رسالہ پھر کبھی شائع نہ ہوا۔ بہت بعد میں شائع ہونیوالے رسالے، دی کرکٹر اور اخبار وطن صرف کرکٹ تک محدود تھے۔

خبر تو اس وقت بنی جب اس کاسئیس کلے نے اعلان کیا کہ اس نے “نیشن آف اسلام'” میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اب اسے ” محمد علی” کے نام سے پکارا جائے۔ کلے کا یہ اعلان کرنا تھا کہ دنیا میں روشن خیالی اور آزادی کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ میں گویا کہ تھرتھری سی مچ گئی۔( اس نیشن آف اسلام کا اسلام سے کیا تعلق تھا اور بعد میں ۱۹۷۱ محمد علی نے باقاعدہ سنی اسلام قبول کیا اس کا اس داستان سے کوئی تعلق نہیں، یہ صرف برسبیل تذکرہ اور ریکارڈ کی درستگی کیلئے یاد رکھیے۔ )

سونی لسٹن جو ایک خونخوار اور مجرمانہ ماضی کا حامل باکسر تھا اپںنی اس شکست پر شدید تلملایا ہوا تھا اور اس نے کلے کو جوابی مقابلے کی دعوت دی۔ جوابی مقابلہ اب دو ہیوی ویٹ باکسرز کے درمیان نہیں بلکہ دو نظریات کے درمیان تھا اور ساری دنیا کہ نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ علی نے لسٹن کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ اسے بدبودار ریچھ کا خطاب دیا اور ایک دن ایک بڑا سا رسہ لیکر لسٹن کے کیمپ کے سامنے پہنچ گیا کہ مجھے ریچھ کا شکار کرنا ہے۔ یہ ابتدا تھی اس کردار کی جس کی ان لن ترانیوں اور لا ابالی پن ہر ایک دنیا واری واری جانے والی تھی۔

دنیا اس مقابلے کیلئے بے تاب تھی لیکن مقابلہ شروع ہوا، بہت سے لوگ ہال میں داخل ہوکر اپنی نشستیں تلاش کر رہے تھے اور بہت سے کرسیوں پر بیٹھنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ سونی لسٹن زمین پر چت نظر آیا۔ تین منٹ سے بھی کم وقت میں علی نے اسے دھول چٹادی تھی ۔ بڑبولے (Big Mouth) کاسئیس کلے جسے اسکی جائے پیدائش کے حوالے سے Louisville Lip بھی کہا جاتا تھا، نے اعلان کردیا کہ میں عظیم ترین ( the greatest) ہوں۔ اور پھر وقت نے اسک بات کو سچ ثابت بھی کیا۔1968 تک علی نے اپنی مہارت، پھرتی اور طاقت کی دھاک بٹھا دی، وہ پیش گوئی کرتا کہ میں فلاں کو اس راؤنڈ میں زیر کروں گا اور اکثر وبیشتر اسکی پیشگوئی پوری ہوتی۔ فلائیڈ پیٹرسن نے، جسے شکست دے کر سونی لسٹن چیمپئین بنا تھا،
نے علی کو مقابلے کی دعوت دی لیکن مقابلے سے پہلے علی کے مذہبی خیالات کے بارے میں کچھ اشتعال انگیز باتیں کیں۔ علی نے اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا اور مقابلے کے دوران اسے فورا” ناک آؤٹ کرنے کے بجائے بارہویں راؤنڈ تک اس کی پٹائی کرتا رہا۔ آخر ریفری نے مقابلہ روک کر پیٹرسن کی جان چھڑوائی۔ یہی حشر برطانوی چیمپئین ہنری کوپر کا کیا، جس کی حالت دیکھ کر اس کی بیوی رو پڑی اور ریفری سے کہہ کر مقابلہ رکوایا۔

لیکن علی کی یہ عظمت ، آزادی اور رواداری کے سب سے بڑے مبلغ ، امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائی اور علی کے لئے یکے بعد دیگرے مشکلات کھڑی کی گئیں جس میں سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اسے ویتنام میں جنگ کیلئے فوج میں بھرتی ہونے کا حکم دیا گیا۔ علی نے اولاً  اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے فوج میں جانے سے انکار کیا۔ دوسرے وہ اس جنگ کے خلاف تھا، جس کی عالمی رائے عامہ بھی مخالف تھی۔وہ ایک چھوٹے سے کمزور سے ملک پر لشکر کشی کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے اعلان کیا “I got no quarrel with those Congs” میرا ان ویت کانگ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس حرف انکار کا صلہ علی کو اپنا باکسنگ لائسنس اور عالمی اعزاز گنوار کر ملا۔

علی اب باکسر سے بڑھ کر عالمی ضمیر کا استعارہ بن گیا تھا۔ ہمارے وقت کے عظیم فلسفی برٹرینڈ رسل نے اسے لکھا کہ دنیا میں جب کوئی ایک بھی تمہارا دوست نہ ہو تو برطانیہ چلے آنا، ایک شخص برٹرینڈ دسل نام کا تمہارا دوست ضرور ہوگا۔
امریکی حکام نے جس سے اس کا اعزاز واکرام چھینا، دنیا نے اسے عزت دی اور اپنی پلکوں پر بٹھایا۔ نہ صرف امریکہ کے باضمیر عناصر، بلکہ ایشیا، افریقہ ، مشرق وسطی، لاطینی امریکہ اور یوروپ کے کے ملک اس کی مہمان نوازی کو اپنے لیئے اعزاز جانتے اور اس کے راستوں میں دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتے۔

قانوناً  تو لازمی فوجی خدمات سے انکار کی سزا قید ہوتی ہے لیکن چونکہ علی نے اپنے خلاف فیصلے کو چیلنج کرر کھاتھا اور مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا، چنانچہ اسے قید کی سزا نہ دی جا سکی۔ علی کے عزم وہمت کے سامنے بالآخر حکام کو ہار ماننا ہی پڑی اور 1971میں اس کا باکسنگ لائسنس بحال کردیا گیا اور اسے پیشہ ور مقابلوں کی اجازت دے دی گئی۔

اسی1971  میں اس کا جو فریزئر سے مقابلہ ہوا جو اس کی غیر موجودگی میں اب عالمی ہیوی ویٹ چمپئین تھا۔ اس مقابلے کو صدی کا سب سے بڑا مقابلہ Fight of the Century قرار دیا گیا۔
علی نے اپنے آپ کو عظیم ترین قرار دیا لیکن وہ بہر حال انسان ہی تھا اور عظیم ترین ذات صرف خدا کی ہے۔ اس مقابلے میں اسے پوائنٹس پر شکست ہوئی لیکن وہ اپنی دھن میں لگا رہا اور بالآخر جنوری1974 کو اس نے نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں جو فریزئر کو شکست دے کر اپنے آپ کو اس وقت کے چمپئین ” جورج فورمین” کے مقابلے کا اہل ثابت کیا۔ فورمین ، جو فریزئر کو شکست دے کر چمپئین بنا تھا۔

فورمین اب تک تمام مقابلوں میں ناقابل شکست رہا تھا اور اس نے اپنے تمام حریفوں کو ناک آؤٹ کی ذلت سے دو چار کیا تھا۔ علی سے اس کے مقابلے کو Rumble in the Jungle کا نام دیا گیا کہ یہ افریقہ کے ملک زائریے کے شہر “کنساشا” میں تھا۔
علی جسے اپنے مقابل کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر آتا تھا، نے مقابلے سے پہلے فورمین سے کچھ سرگوشی کی۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی فورمین نے علی پر تابڑ توڑ حملے شروع کئے لیکن کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکا۔ علی نے آج اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور اپنے عمومی “اوپن چیسٹ” انداز کے بجائے رنگ کی رسیوں کا سہارا لئے رہا جسے علی نے بعد میں Rope a dope کا نام دیا۔ وہ مستقل کمر سے نیچے ور پیٹھ پر فورمین کے مکے کھاتا رہا۔ ساتویں راؤنڈ تک فورمین بری طرح تھک گیا تھا۔ یہ وہ فورمیں تھا جس کے مکے کی طاقت سے دیوار ڈھہ سکتی تھی۔ آج وہ سات راؤنڈ تک ایک بھی کاری ضرب اپنے مقابل کو نہ لگا سکا تھا۔ آٹھویں راؤنڈ کے درمیان یکایک علی نے دفاع کی بجائے دائیں ، بائیں اور دائیں سے تین مکے بجلی کی سی تیزی سے لگائے اور فورمین لڑکھڑا کر زمین پر آرہا۔ فورمین جس نے کبھی زمین کا منہ نہ دیکھا تھا، اسے یہ بھی تجربہ نہیں تھا کہ ریفری کی گنتی پر کب کھڑا ہوجانا چاہئیے۔ ریفری نے علی کا ہاتھ بلند کرکے اس کی فتح کا اعلان کردیا۔ وہ علی جسے 1967 سے رنگ سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی، آج پھر دوسری مرتبہ عالمی چیمپئن تھا۔

علی نے فورمین کے کان میں کیا سرگوشی کی تھی یہ دلچسپ داستان ہے، اسے پھر کبھی سناؤں گا کہ پہلے ہی یہ کہانی بہت طویل ہوگئی ہے۔

اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، علی بھی انسان ہی ہے، اور ہر عروج کو زوال بھی ہے اور یہ کہ تمام تر بزرگی اور عظمت صرف اللہ سبحانہ وتعالی کیلئے ہے۔ 1978 میں وہ دن آگیا کہ ایک نوجوان باکسر لیون اسپنکس کے ہاتھوں علی شکست کھا گیا۔ دو ماہ بعد جوابی مقابلے میں اسپنکس کو شکست دے کر تیسری مرتبہ عالمی ہیوی ویٹ کا اعزاز اپنے نام کیا اور ساتھ ہی کھیل کو خدا حافظ کہہ دیا۔

پھر مجھے یاد نہیں کس وجہ سے ریٹائرمنٹ سے واپس آکر اس وقت کے ایک بہت ہی مشاق اور طاقتور چیمپئن لیری ہومز کو مقابلے کی دعوت دے ڈالی۔ علی اب بوڑھا ہورہا تھا، اس کا وزن بڑھ رہا تھا اور کمر اور پیٹ کے گرد گوشت بڑھتا جارہا تھا۔ مقابلے سے پہلے طبی معائنے میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب علی کے بطور ہیوی ویٹ باکسر دن پورے ہو کے ہیں اور اتنا بڑا مقابلہ اس کیلئے ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر اس کا مینیجر لیری ہومز سے ملا اور اس سے رندھی ہوئی آواز میں درخواست کی کہ لڑتے ہوئے خیال رکھے کہ کوئی ضرب ایسی نہ ہو جو، جان لیوا ثابت ہو۔

علی جس سے اس کے اپنے ہی نہیں مخالف بھی محبت کرتے تھے۔ ایک نسل اس دوران اس کی عاشق ہو چکی تھی، سچے اور بڑے کھلاڑی تو اور بھی بڑے دل کے ہوتے ہیں۔ لیری ہومز نے علی کے مینیجر کے دونوں ہاتھ تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔I love the champ

علی اب رعشہ کی بیماری کا شکار ہے۔ اب شاید چوہتر سال عمر ہوگئی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ میرے اپنے زمانے میں کسی اور کو اتنا، مقبول، مشہور اور محبوب دیکھا ہو۔ آپ میری بات سے اتفاق کریں نہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

But I still love the Champ.

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply