قربانی کا مقصد کیا ہے؟/ثاقب انور میاں

مسلمان ہر سال 10 ذوالحجہ کو عیدالاضحیٰ یعنی عید قربان مناتے ہیں۔ پوری دنیا میں جتنے بھی مسلمان آباد ہیں سب اس فریضہ کو ادا کر رہے ہیں۔ یہ سب کو پتہ ہے معلوم ہے کہ ہم مسلمان ہر سال یہ قربانی کیوں کرتے ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے اس کی ضرورت کیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ تو الحمداللہ سب مسلمانوں کو یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک امتحان کیا کہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو اللہ کی خاطر ذبح کرو تو اس امتحان میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو کامیاب کیا اور آپ نے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ قربانی قبول فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک امتحان چاہا اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب کیا۔ تو اسی لئے اب ہر صاحب استطاعت مسلمان پر یہ قربانی واجب ہے، جو قربانی کی شرائط پر پورا ہو اس پر قربانی واجب ہے۔ اب آتے ہیں قربانی کی جانور کی طرف، قربانی کے جانور کی یہ شرائط ہیں کہ قربانی کا جانور بڑا ہو یعنی اس میں گوشت زیادہ ہو، جانور بیمار نہ ہو کمزور نہ ہو، عمر اس کی کم نہ ہو۔

لیکن ہم کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ہم تو بڑا جانور ڈھونڈتے ہیں لیکن صرف گوشت کھانے کیلئے۔ حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے قربانی کا اصل مقصد فریضہ ادا کرنا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم بڑا جانور ذبح کریں اور گوشت کو فریزر اور فریج وغیرہ میں رکھیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ آپ قربانی کریں جانور ذبح کریں کچھ گوشت خود کھائیں گھر والوں کو کھلائیں اور سب سے ضروری بات اس گوشت میں غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا حصہ رکھیں۔

اگر ہم اس میں غریبوں، بیواؤں کا حصہ نہیں رکھتے تو پھر بھی ہم گناہگار ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم محلے میں ضرور غریبوں میں گوشت بانٹیں۔ جب ہم یہ فرائض سرانجام دیں گے انشاءاللہ سب کی قربانی اللہ کی راہ میں قبول ہوگی۔ لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی گوشت تو ہم غریبوں میں تقسیم کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محلے میں غریبوں کے کپڑوں وغیرہ کا بھی خیال رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔ یہ ہر کسی کو پتہ ہے کہ ہر محلے میں غریب، مسکین، یتیم ہوتے ہیں تو اس عید میں گوشت کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں میں بھی ان کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔

قربانی اگر کوئی اکیلے کرنا چاہتا ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں اور اگر گروپ میں چاہتا ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہاں شرط یہ ہے کہ سب کی نیت صاف ہو، کسی کے دل میں کوئی بغض، حسد اور کینہ نہ ہو ورنہ ایک شخص کی وجہ سے تمام افراد یعنی گروپ والوں کی قربانی ضائع ہو جائے گی۔ ہم سب الحمداللہ قربانی کرتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے زیادہ کی دلوں میں دوسرے کیلئے محبت ختم ہوئی ہے۔ ایک گروپ میں ہونگے لیکن دل میں اس سے نفرت ہوگی چاہے وہ کسی بھی وجہ سے ہوں لیکن ہوتی ضرور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو سب سے پہلے ہمیں اپنے دلوں سے وہ نفرتیں ختم کرنی چاہیئے جو نفرتیں ہمارے اپنے ہی بھائیوں، رشتہ داروں کے لئے ہیں۔ یقین کریں جب تک ہم اپنے دلوں سے یہ نفرتیں ختم نہیں کریں گے کوئی بھی کام جو اللہ کی رضا کیلئے ہو قبول نہیں ہوگا۔ اللہ کی رضا کیلئے کوئی کام کرنا دکھاوا نہیں بلکہ لازمی ہوتا ہے اور اس لئے ہوتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مغفرت فرمائیں۔ ہم قربانی تو کرتے ہیں لیکن ہمیں کیا پتہ کہ ہماری قربانی اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ ہمیں چاہیئے کہ ہر وقت بس یہی دعائیں مانگیں اللہ تعالیٰ سے کہ ہماری جو بھی عبادت ہو یا اللہ اسے قبول فرما آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply