آبدوز، کشتی اور ہماری سوچ/ڈاکٹر راؤ کامران

گزشتہ چند دنوں میں جو دل دہلا دینے والے واقعات ہوئے ہیں ان میں تین سو کے لگ بھگ پاکستانی یونان جاتے ہوئے جاں بحق ہوئے؛ وہی یونان جو حالیہ تاریخ میں دو بار ڈیفالٹ ہوچکا ہے؛ ایک بار 1932 میں اور دوسری بار 2015 میں  لیکن جانے والوں کو تیس لاکھ سے پچاس لاکھ دیکر وہاں زندگی پاکستان سے بہتر کا گمان تھا۔ اللہ غریق ِ رحمت کرے۔

شہزادہ داؤد ہمارے شہر بوریوالہ کی مشہور مل بی ٹی ایم کے مالک سیٹھ احمد داؤد کا پوتا تھا۔ سیٹھ داؤد پر ایک الگ کالم بنتا ہے لیکن یہ جان لیں جس سال دھیرو بھائی امبانی پیدا ہوا تھا اس سال احمد داؤد کو برصغیر کا سب سے بڑا ٹیکسٹائل انڈسٹریلسٹ ہونے کا ایوارڈ ملا تھا۔ یعنی اگر وہ ہجرت کرکے پاکستان نہ آتا تو آج مکیش امبانی کا نام تک نہ ہوتا۔ لیکن پاکستان سے محبت ہو اور سزا نہ ملے یہ تو پاک وطن کے محافظوں نما لٹیروں کی شان میں گستاخی ہو گی۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو سیٹھ داؤد کی ساٹھ فیصد انڈسٹری بنگلہ دیش ہڑپ کرگیا اور باقی کو بھٹو نے قومیانے کے نام پر ہتھیا لیا! واپس ملی تو لیبر یونین کے جانوروں نے اپنی بوٹی کے لئے ہزاروں ایکٹر پر موجود بی ٹی ایم ہی بند کروا دی اور آج وہ ویرانی کی نشانی ہے۔غریب سے بڑا سفاک کرپٹ کوئی نہیں؛ بس یہ کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

واپس شہزادہ داؤد کی طرف آتے ہیں جو کہ اپنے بچے کے ساتھ آبدوز کی سیر کو گیا۔ پچیس ہزار یورو کا بڑا چرچا ہے حالانکہ اتنا مہنگا پرس امریکہ میں ہر دوسرے ڈاکٹر کی بیوی کے پاس ہوتا ہے اور اس سے زیادہ مہنگی گھڑی کلائی پر  یوں سمجھ لیں کہ سب سے سستی رولیکس بلیک میں آ ج کل اتنے کی ہے۔ اس آبدوز کی سیر سے زیادہ خرچہ پانچ بندوں کی افریقہ سفاری یا اٹلی فرانس کے ٹرپ پر لگ جاتا ہے، تو پانچ پشتوں سے کھرب پتی کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے پیسے سے ایڈونچر کرسکے؟

پھر آجاتی ہے سیفٹی کی بات،موت برحق ہے، ایسی آبدوزیں اور کروز مکمل سیفٹی چیک کے بعد اتارے جاتے ہیں اور اس آبدوز کمپنی کا سی ای او بھی خود ساتھ ہو تو چانسز کم ہوتے ہیں لیکن بہرحال ہوتے تو ہیں۔ جیسے امریکہ میں ہر صبح کروڑوں لوگ گھر سے نکلتے ہیں اور بیسیوں کبھی واپس نہیں آتے ہیں اور یہ روز ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہر انسان ہر روز یہی سوچ کر نکلتا ہے کہ وہ واپس آئے گا اور آکر فلاں فلاں کام  کرے گا۔

اب کشتی اور آبدوز کے حادثوں کو آپ مماثلت دے سکتے ہیں لیکن اصل میں ہے نہیں۔ ایک طرف بھوک لاقانونیت سے فرار، قرضے لیکر سفر اور مر کر پیچھے رہنے والوں پر مزید بوجھ اور دوسرا ایک بھرپور زندگی گزارنے والوں کا حادثہ جن کا دکھ تو ہوگا لیکن اس سے معاملات زندگی پر فرق نہیں پڑے گا۔

ہمارے ہاں دولت اور دولتمندوں سے نفرت کا ایک ایسا ذہن بنایا گیا کہ کئی نسلوں کا دماغ آلودہ کردیا گیا۔ جب احمد داؤد، حسین داؤد کو اور حسین داؤد شہزادہ داؤد کو امیر بننے کے طریقے بتا رہا ہو گا؛ بشیر عرف بشیرے کو مولوی مشتاق بتا رہا ہوگا؛ “دولت ہاتھ کا میل ہے”؛ “پیسہ کنجروں کے پاس بھی ہوتا ہے” وغیرہ وغیرہ یا پھر ہمارے سو کالڈ دانشور؛ اشفاق احمد سے لیکر ممتاز مفتی اور قدرت اللہ  شہاب سے لیکر ریٹائرڈ نکمے کالم نگار جنھوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی اوقات اور اپنے اپنے وسائل کے مطابق فل عیاشی کی؛ آخر میں لوگوں کو “دنیا کتے کا گھر ہے” بتا کر کتے کی زندگی جینے کی تلقین کرتے رہے اور وہ بیچارے اس چنگل سے نکلنا چاہے تو کبھی بند ٹرک تو کبھی بند کیبن کی حبس میں ایک دوسرے کے جسم چاٹتے کتے کی موت مر گئے۔ افسوس!

ذہنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی، دولت اور دولتمندوں سے حسد اور نفرت ختم کرنا  ہوگا ۔ سوچیں اگر آپکا امیر جاننے والا ہے اور وہ امیر رہے تو مشکل وقت میں آپکی مدد کا کم از کم دس پرسینٹ چانس تو ہوگا، اور اگر آپکے حسد کی وجہ سے غریب ہوگیا تو دس پرسینٹ چانس بھی گیا۔ یہ سوچنا بند کردیں کہ ہر امیر آدمی حرام طریقے سے بنا ہے، اس سے دولت سے نفرت ہوگی یا حرام دولت سے محبت اور دونوں راستے تباہی کے ہیں ۔ ہر انسان میں یا تو کوئی ہنر ہوتا ہے اور یا کوئی ہنر سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے؛ جب دماغ حسد سے نکلے کا،شریکوں کا سوچنے سے نکلے گا تو خود کی خوبی دیکھے گا۔ تیس لاکھ دیکر مرنے والا چھ بھینسیں یا بقر عید کے لئے بکرے خرید سکتا تھا اور کاروبار شروع کرسکتا تھا۔ یہ کتابی بات نہیں ہمارا یہ بھی بزنس ہے تو پتا ہے کہ کتنی بچت ہے۔ بی اے پاس لڑکے سفارشیں کرواتے ہیں کہیں چپڑاسی لگوا دیں، یہی بے اے پاس کوئی ہنر سیکھ کر لاکھ،ڈیڑھ لاھ تک بھی تنخواہ لے رہےہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ زندگی بہت لمبی ہے بہت حسین ہے، لمبی اس لئے کہ آپ اپنے بچوں بھتیجیوں پوتوں کے جینز میں زندہ رہیں گے۔ اپنے لئے زندگی بنائیں اور انکے لئے بہترین زندگی اور دنیا چھوڑیں۔ آخرت میں ایک سو تیس فٹ حور کے متلاشی بھی دس کروڑ کی لینڈ کروزر میں پھرتے ہیں تو دنیا انکے لئے تو کتے کا گھر نہیں۔ ان کو ہی فالو کرلیں اس زندگی کے لئے اور آخرت کی فکر اس پر چھوڑیں جس نے بنائی ہے اور جسے اسکا پتا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply