• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معاذ اللہ ، کیا ججوں اور جرنیلوں کی توقیر سیدۃ النساؓ سے زیادہ ہے؟

معاذ اللہ ، کیا ججوں اور جرنیلوں کی توقیر سیدۃ النساؓ سے زیادہ ہے؟

تاریخ اسلام میں ایک کربلا اور آن پہنچی، کوفیوں کا کردار مگر اب کے پاکستانی پارلیمنٹ کے سر ہے ۔ توقع کے عین مطابق ہماری سیاسی جماعتوں نے بےمثال   بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجوزہ احتساب کمیشن کی تشکیل کے لئے بنائے  جانے  والے قانون میں سے عدلیہ اور فوج کو مستثنیٰ کردینے پہ اتفاق رائے کرلیا ہے اور آج کے تمام ملکی اخبارات اس خبر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ یقینناّ ایک سیاہ دن ہے اور کلمہٗ کے نام پہ بننے والی ریاست کا ڈیتھ وارنٹ بھی کیونکہ یہ استثنیٰ درحقیقت آئین اور قانون کو پھانسی چڑھانے کے مترادف ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک سے اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے کیونکہ اس شرمناک قانون کی منظوری کا مطلب یہ ہوگا کہ  یہ دونوں ادارے کتاب اللہ کے احکامات و فرامین سے بھی اوپر کردیے گئے ہیں کہ جس کی رو سے قانون کی گرفت سے کوئی باہر نہیں ۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے شرمناک استثناء کے لئے، دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ذرا بھی گنجائش موجود نہیں اور کوئی جمہوری معاشرہ ایسی لغویات کو برداشت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ  جہاں کوئی فرد یا ادارہ باضابطہ طور پہ یوں بےلگام چھوڑ دیا جائے اور جہاں انسانوں میں تفریق کا ایسا کوئی گھناؤنا نظریہ ضابطے و قانون کا حصہ بنادیا جائے یہ عمل تو درحقیقت شرف انسانی کی تذلیل اور حرمت قانون سے کھلواڑ سے کسی طور کم نہیں ہے ، جنہیں ہم کافر معاشرے کہتے ہیں وہاں تو یہ عالم ہے کہ فقیر تا وزیر سبھی ایک ہی طرح کے قانون کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں کسی بھی معاملے پہ کوئی عام آدمی بھی اپنے وزیراعظم اور صدر کا کھلے عام مواخذہ کرنا شروع ہوجاتا ہے جس کے باعث وہاں کوئی بھی ذمہ دار منصبدار خود کو قانون سے باہر کرکے چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ،

لیکن یہاں یہ صورتحال پیدا کی جارہی ہے کہ جنرل کیانی کی چھڑی سے طاقت پاکے ان کے بھائی اس ملک کو لوٹ کھائیں یا مبینہ طور پہ جنرل رضوان اختر کی ایسی ہی مبینہ کہانیاں فضاؤں میں گردش کریں لیکن انہیں اس لئے کچھ نہ کہا جائے کہ وہ طاقتور ترین ادارے کے اہم عہدیداران ہیں ،ایک عجیب و غریب مثال تو جنرل راحیل شریف بھی پیدا کرگئے ہیں کہ جس کے تحت انہوں نے کرپشن کا الزام ثابت ہونے پہ کچھ سینیئر فوجی افسران کو پکڑا تو ضرور لیکن بہت معمولی سی سزائیں دے کر مکت کردیا اور یہ صورتحال ان تمام لوگوں کے لئے بہت دلشکن تھی کہ جوازروئے آئین مساوات پہ یقین رکھتے ہیں ۔

میں یہاں دو ٹوک کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں اس طرح کی بیہودہ قانون سازی سے کتاب اللہ کی تکذیب بھی ہورہی ہے اور توہین رسالت بھی ۔، کیونکہ اللہ کی آخری و دائمی کتاب کا موضوع انسان ہے اور  اس میں ان سے متعلق واضح طور پہ احکامات درج کردیے گئے ہیں اور کہیں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے کہ جس میں کسی بھی فرد کو اس سے چھوٹ دی گئی ہو حتیٰ کہ اس ہستی کو بھی جو کہ وجہ تخلیق کائنات ہے اور جسنے فرد کی مساوات کے تصور کو اس قدر بلند ترین سطح پہ پہنچا دیا کہ ایک بااثر و طاقتور قبیلے سے تعلق رکھنے والی چوری کی ایک مجرمہ کے حق میں ہر سفارش یہ کہتے ہوئے ( مفہوم کے مطابق ) مسترد کردی تھی کہ  تم سے پچھلی قومیں اس لئے تباہ ہوئی تھیں کہ  وہ قانون کے نفاذ میں امتیاز برتتی تھیں اور خدا کی قسم اگر اس کی جگہ محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں ان کو بھی یہی سزا دیتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہاں ہیں بار کونسلیں اور کہاں ہے ایکس سروس مین سوسائٹی ، وہ خود کیوں سڑکوں پہ نہیں آتیں اور یہ کہتیں کہ نہیں ہمیں یہ استثناٗ ہرگز ہرگز منظور نہیں ۔اور کوئی یہ بتائے کہ  یہ اہل علم ودانش کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے اور قلم کے مزار کے مجاوروں اور صحافتی نعرہ بازوں کی علمیت و طراری کدھر گئی ؟ میں یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہوں کہ  اور کوئی نہیں تو خود محترم چیف جسٹس اور آرمی چیف اپنے اپنے اداروں کے لئے اس چھوٹ کو قبول کرنے سے انکارکردیں گے کیونکہ اگر یہ قانون اسی شکل میں منظور ہوگیا تو پھریہ ملک ہی اپنے قیام کا جواز کھوبیٹھے گا، پھر کہاں کے ادارے اور کیسے ادارے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply