• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مینٹل ہیلتھ/‘ٹراما’ کلچر، موٹیویشنل سپیکر اور ہم (قسط دوم)۔۔۔ڈاکٹر عزیر سرویہ

مینٹل ہیلتھ/‘ٹراما’ کلچر، موٹیویشنل سپیکر اور ہم (قسط دوم)۔۔۔ڈاکٹر عزیر سرویہ

اب دلچسپ چیز یہ ہے کہ یہ سب مندرجہ بالا لوازمات کہ جن کے بغیر انسان ترقی نہ کر پائے، بچے ڈھنگ کے نہ پال پائے، رشتے نہ نباہ پائے، کام نہ کر سکے، یہ تو چند دہائیاں بھی بمشکل ہوئیں کہ نظر آنے لگے ہیں۔ تو اس سے پہلے کاروبار زندگی کیونکر چلے جا رہا تھا؟ پچھلی صدی میں دو عظیم جنگیں، اس میں ہونے والی قتل و غارت، آدھی دنیا پر آہنی پردہ اور پوری دنیا پر سرد جنگ، اس میں بھی انسانوں نے بچے پیدا کر کے نہ صرف پالے بلکہ گلوبل انسانی معاشرہ متواتر ترقی بھی کرتا رہا اور یہ سب ذرائع جو آج موجود ہیں یہ بھی ایجاد کر لیے گیے اور موجودہ نسل کو جنم بھی دے دیا گیا! تو اگر اجداد نے بھوک، ننگ، قتل و غارت گری بچپن سے دیکھ کر ٹراما ذہن پہ  یوں ہی طاری کیا، جیسے آپ آج بتاتے ہیں کہ ہو جاتا ہے، اور پھر ان کے بچوں پہ  بھی وہ ایسے ہی ٹرانسفر ہوا ،جیسے آپ بتاتے ہیں، اور پھر ان بچوں سے موجودہ نسل (یعنی ہم) بھی برآمد ہو گئے۔۔۔

تو سوال یہ ہے کہ یہ پچھلی دو نسلیں کیسے چل گئیں ان سب “ٹراماز” کے ساتھ؟ یہ چل گئیں تو ہم کیوں نہیں چل سکتے بغیر آپ سے علاج کروائے؟ اور اگر یہ جو پچھلی نسلیں چلی ہیں اس کو چلنا نہیں کہتے تو پھر “چلنا” کہتے کس کو ہیں؟

اوپر پوچھے گئے اس اہم ترین سوال کے جواب کے جملہ حقوق جو اپنے حق میں محفوظ کروا لے گا، پراڈکٹ سب اسی کی بکے گی! جو کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں:

کسی کو لگتا ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ کامیابی دراصل ایک “state of mind” ہے اس لیے وہ اپنی سٹیٹ  آف مائنڈ بدلنے قاسم علی شاہ صاب کے لیکچر سن رہا ہے، کسی کو لگتا ہے بچپن میں اس کی اماں نے اس کی ایک آدھ دفعہ مرمت کی تھی تو اب وہ “چائلڈ ہُڈ ٹراما” کے باعث بچہ پیدا کر کے پالنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے سو اسکا اب نفسیاتی کونسلنگ کے بغیر چارہ نہیں، کسی کو انسانی سہاروں کی کمی کے باعث شدید اداسی ہے تو اسے نشہ آور دواؤں پہ  ڈال کر سلایا جا رہا ہے! یعنی ایسے بیماروں کی ایک پوری فوج پیدا کر دی گئی جن پر بیماری گھر بیٹھے شعوری کوشش سے مسلط کی گئی ہو؛ اور یہ “چھوئی موئی” قسم کے بیمار زندگی کے ہر ہر فطری جھٹکے اور قدم پر لڑکھڑا کر “ٹراما ٹراما” کی صدا دیتے ہوئے بالکل انجینئرڈ طرز پر ویسے ہی واقعتاً ناکام ہوتے جائیں جیسے ناکامی کی پیشین گوئیاں ان کے ذہنوں پہ  پروگرام کی گئی تھیں اور اخیر میں علاج کے یہ تمام حاجت مند اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے لگیں جس کے سبب یہ بیمار/ناکام ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اس سب میں سب سے مزے کی بات کیا ہے: وہی جو ہر لٹیرا سیاست دان جیتنے سے قبل کہتا ہے، کہ میں ٹھیک ہوں باقی سب برے ہیں! یعنی کہ جو تمام پراڈکٹس اوپر ڈسکس کی ہیں یہ سب آپ کو بتائیں گے کہ تہذیب جدید ہی نے آپ عوام کو بگاڑا اور بیمار کیا ہے، ہم تو اس کا رد کرنے والے اور متبادل پیش کرنے والے آپ کے معالج ہیں (جبکہ دراصل یہ سب بھی اسی تہذیب جدید کے اتنے ہی کل پرزے ہیں جتنے باقی سب، ان کے میتھڈ اور علوم بھی سب اسی تہذیب کی دین، ان کی اپنی پرورش بھی اسی تہذیب کے تحت)! اور (بیاد علامہ ضمیر نقوی) یہی تو قیامت ہے!

Facebook Comments