نظریہ پاکستان کے علمبردار ہیں ہم/طیبہ ضیا

9 مئی کے بعد سے کافی دل گرفتہ تھے سوچا کیوں نا نیویارک اپنی رہائشگاہ پر تمام شعبہ ہائے زندگی کے نمائندگان کو مدعو کیا جائے اور یکجہتی نظریہ پاکستان کے عزم کو دہرایا جائے، لہذا کل شام نیویارک میں مقیم چند سیاسی اور سماجی حلقوں کی متحرک شخصیات کے علاوہ ڈاکٹرز ریٹائر فوجی افسران میڈیا اور کاروباری حضرات کو مدعو کیا۔

پاکستان سے آئے ہوئے سینیٹر کیپٹن شاہین بٹ نے بھی اوورسیز پاکستانیوں کی اس خصوصی نشست میں شرکت کی۔ سب نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اختلاف رائے بھی کیا لیکن وطن عزیز اور فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کھل کر اظہار کیا۔ میزبان ڈاکٹر محمد اختر چیمہ جو مقامی تین ہسپتالوں کے چئیر مین اور سابق ڈائریکٹر آف شوکت خانم کینسر ہسپتال ہیں، نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں اور میری اہلیہ طیبہ ضیا کسی سیاسی پارٹی کے نہ رکن ہیں نہ ووٹر، ذاتی پسند و ناپسند سے بالابانی پاکستان محمد علی جناح کے مسلم لیگی ہونے کی حیثیت سے ھم دو قومی نظریہ اور پاک فوج کو نظریہ پاکستان سمجھتے ہیں۔

سانحہ 9 مئی نے ہر محب وطن کا دل چھلنی کیا ہے۔ ھم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سینیٹر شاہین بٹ نے کہا کہ وہ اوورسیز پنجاب کمیشن میں وائس پریذیڈنٹ کی خدمات انجام دے چکے ہیں اور خود بھی پچاس برس سے امریکہ میں مقیم ہیں، ھم اوورسیز پاکستانی وطن عزیز کی ریڑھ کی ھڈی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ دیگر مہمانان گرامی کا بھی یہی موقف تھا کہ قطع نظرکس کا کس پارٹی سے تعلق ہے ہم فقط اوورسیز پاکستانی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں اوراس نازک صورتحال میں ھم اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔

میں خود بھی قائد اعظم کی یوتھ اور نظریاتی ورکر کی بیٹی ہونے کے ناطے فوج سے محبت کرتی ہوں مگر اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں بے جا مداخلت کے خلاف ہمیشہ کھل کرلکھا ہے۔ کوءمانے نہ مانے حقیقت انتہائی کڑوی ہے کہ پاکستان 9مئی کے بعد بدل چکا ہے۔ پہلے پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کا کھیل رچایا گیا۔ لیکن 9 مئی کے بعد جس پاکستان نے جنم لیا ہے وہی اب حقیقت ہے۔ اس ملک کو رب نے نئی زندگی بخشی ہے، بال بال بچا ہے ورنہ دشمن کا منصوبہ کامیاب ہو جانا تھا، دشمنوں کے ارادوں کو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ دشمن ایٹمی اثاثوں پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔

پاکستان کی ایٹمی طاقت کو قبضے میں کرنا چاہتا اور یہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک فوج کی کمر نہ توڑ دی جائے۔ اس ناپاک مقصد کے لئے پی ٹی آئی چیئرمین کو لایا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید صاحب نے تو تیس برس پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی، ھم جیسوں نے 2014ڈی چوک دھرنے پر سازش بھانپ لی تھی اور کالموں سے بہت کچھ بتایا سمجھایا کہ نظام کی تبدیلی کسی کے کاندھوں پر سوار ہو کر نہیں آسکتی، ماضی سے سبق سیکھو مگر خان صاحب پر وزیر اعظم بننے کا بھوت سوار تھا چاہے اسٹبلشمنٹ بنائے یا کوئی جادو ٹونہ مدد کرے۔

ہمیں برین واش دیوانوں سے غلیظ گالیاں کھاتے دس سال ہو رہے ہیں۔ ھم نے خان صاحب کو لکھا تھا آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لوٹے ہیں آپ خودفریبی ہی نہیں بلکہ ایک فریبی خاتون کے شکنجے کابھی شکار ہیں آپ پرانی شراب سے وضو کرکے نماز پڑھنے کو تبدیلی کا نام دینا چاہتے ہیں؟ پرانے نظام سے اقتدار میں آکر آپ نظام کی تبدیلی کی بات کس منہ سے کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔

مگر تمام کالم اور گفتگو بے سود ثابت ہو ئی، اسٹبلشمنٹ نے فتنہ کو گود لے لیا اور 2018 میں موصوف کو گود سے اٹھا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ نواز شریف چور کہلایا گیا اور عمران لاڈلا اور صادق و امین۔ بس پھر کیا تھا دو پاکستان وجود میں آئے، ایک پاکستان میں یوتھیا بستے تھے اور دوسرے پاکستان میں پٹواری۔ نفرتوں نے وہ عروج دیکھا کہ بھارت سے بھی شاید کبھی اتنی نفرت نہ کی گئی ہوگی۔ ہر طرف عمرانی تکبر زعم رعونت کا راج تھا۔ نیوٹرل طبقہ جس کا کسی پارٹی سے تعلق نہ تھا اگر عمران کا حمایتی نہیں تو وہ پٹوارن اور پٹواری ہی کہلائے جاتے تھے۔

نوے روز میں تبدیلی لانے کا داعی جب ساڑھے تین برس میں کسی کے اشاروں پر ناچتا رہا تو عوام کی آنکھیں کھلنا شروع ہوگئیں لیکن پھر اسٹبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا کہ اس احسان فراموش اور آستین کے سانپ کو مزید سپورٹ نہیں کیا جائے گا اور اسباب اندرون و بیرون ملک بغاوت کا آلہ کار بننا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ کھینچ لیا لاڈلا دھڑام سے کرسی سے نیچے آن گرا، پی ڈی ایم اقتدار میں آگئی اور برین واش عاشقوں نے سوشل میڈیا کی طاقت سے عمران کا مظلوم کارڈ وائرل کرنا شروع کر دیا، گرتی ہوئی مقبولیت کو کاندھا مل گیا اور خان کی مقبولیت دوگنا ہوگئی۔ البتہ بیساکھیوں کی قبولیت سے محروم ہوگیا۔

ڈیڑھ برس سے مقبولیت اور قبولیت کے بیچ جنگ جاری تھی کہ وہ گھڑی آن پہنچی جس سے ٹکر لینے کے لئے ٹائگر فورس تیار تھی کہ جس روز بھی پی ٹی آئی کی ریڈ لائن مرشد گرفتار ہوا، اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ رب نے ہاتھ رکھ کر اس ملک کو ایک ہولناک انتشار سے بچایا ہے۔ جن لوگوں کو یقین نہیں آرہا ان کے لئے ریڈ لائن خان کی لمحوں میں تنزلی اور بغاوت کا ایکسپوز ہونا کھلی نشانیاں ہیں۔ کہاں گئے ٹکرکے لوگ؟ وہ جو کہتے تھے جیل بھرو اب کہتے ہیں” سانوں نہ پھڑو “؟

Advertisements
julia rana solicitors

سوشل میڈیا جو دس برس سے خان کا جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا تھا، لوگوں کی پگڑیاں اچھال رہا تھا، گھروں کے گھر میدان جنگ بن چکے تھے، اب سب کو سانپ سونگھ گیا ہے؟ عمرانی سوشل میڈیا پر ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ برگر اولاد اور چند باہر بیٹھے غدار یو ٹیوبر وں کو فوج سمجھنے والوں کو ہوش تو آگئی ہوگی کہ اللہ تعالی کے بعد پاکستان کی طاقت کون ہے؟ پاک فوج اور وطن عزیز لازم ملزوم ہیں جس طرح پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply