قلم و قرطاس /سراجی تھلوی

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ قلم نہ ہوتے تو سینے میں موجود دل کی دنیا میں بہتے جذبات و احساسات کے بحر بیکراں کی موجیں سینے سے ٹکرا کر واپس دل کی دنیا میں ایک بھونچال کا سماں پیدا کرتا۔ اس بھونچال کے سبب دل کی تاریں ریزہ ریزہ ہو جاتیں یا شاید اس گھٹن کی وجہ سے سینے میں موجود دل ایک بوجھ بن جاتا یا ایسے جذبات و احساسات کا اظہار آنسووں کی روانی میں ہوتا۔لیکن قلم کا شکریہ! قلم نے دل کی دنیا میں موجود بحرِ جذبات و احساسات کو اپنے رگوں میں جگہ دی۔ یوں قلم کی رگوں میں یہ سب احساسات و جذبات انسانی رگوں میں خون کی مانند دوڑتے ہیں۔لیکن پھر خیال آتا ہے اگر قرطاس نہ ہوتا تو؟!!! کیا فقط قلم میرے جذبات و احساسات میرے افکار و خیالات کو سنبھالتا؟ ہرگز نہیں! اس لیے قرطاس کا بھی شکریہ۔ قرطاس نے تیز دھار نوک قلم کےلیے اپنا سینہ پیش کیا تاکہ قلم اپنی نوک کے چھبن کے ساتھ انسانی جذبات و احساسات ،افکار و خیالات کا دریا بہا سکے ۔یا ان جذبات و احساسات کو سینہِ قرطاس پر نقش کر دے تاکہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلیں ان احساسات و جذبات کو پڑھ کر، گا کر، سن کر، ایک قلبی اطمینان و سکوں کا ساماں پیدا کرے۔اگر قرطاس و قلم نہ ہوتے تو انسان ابدالابد جہل و تاریکی کی دنیا میں زندگی بسر کرتے اور ظلم و بربریت کا بادل سایہ فگن ہوتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply