خوش فہمیوں کا علاج۔۔محمد علی افضل

ہمارے دماغ کے کئی پیچیدہ عوامل میں سے ایک ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا رکھنا بھی ہے۔ نفسیات کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب آپ شیشہ دیکھتے ہیں یا اپنی تصویر دیکھتے ہیں تو آپ کا دماغ اسے حقیقت سے کئی گنا زیادہ مبالغہ آرائی کے ساتھ خوب صورت کرکے آپ کو دکھاتا ہے۔
بولے تو فلٹر لگا دیتا ہے ۔آپ کو یقین نہ آئے تو کبھی اپنی ریکارڈ شدہ آواز سن کر دیکھیے گا، لگ پتہ جائے گا۔

اسی طرح جو ہمارے مشاہدات ہوتے ہیں ان کے متعلق ہمارا دماغ سو فی صد سے بھی زیادہ مضبوط دلائل گھڑ گھڑ کر ہمیں یہ باور کرا دیتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیکھا ،سنا اور بھگتایا ہے بس یہی حقیقت ہے باقی سب چھولے بیچ رہے ہیں۔ جیسے ہم پاکستانی سمجھتے ہیں کہ گوریاں براؤن دیسی پاکستانی مردوں کو دیکھ دیکھ کر لیک ہوئی جارہی ہیں ۔ہمارے دیہات کے ڈھابوں پر اکثر کئی گھسی پٹی الف لیلاؤں کے ساتھ ایک یہ بھی سنائی جاتی ہے کہ
فلاں دوست جب ماسکو گیا تو روسی لڑکیاں اس سے منت ترلہ کرکے گولڈ لیف کے سگریٹ مانگتی تھیں کہ دنیا میں اس سے بہتر سگریٹ نہیں بن سکتا۔ بلے وئی بلے!
اصل میں دماغ کی جبلی اور حیوانی وائرنگ ہی ایسی ہے۔ مگر ایموشنل اینٹیلیجنس ، آئی کیو اور دیگر سکِلز پر کام کرکے آپ اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
ہم میں سے کوئی بھی عقل کُل نہیں ہے۔ شعور کا اکھوا پھوٹ جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ علم کا سمندر اس کائنات سے بھی زیادہ وسیع و لامتناہی ہے۔ اور ہم اس میں سے صفر فی صد بھی نہیں جانتے۔
میں آپ لوگوں کی بات نہیں کررہا کہ آپ سب مجھ سے کہیں زیادہ ذہین اور عقل مند ہیں۔ میں تو اپنی بات کررہا ہوں کہ کوئی مجھے عقل کی بات بتائے بھی تو مجھے غصہ آجاتا ہے۔ اور بجائے اس پر دھیان دینے کے میں اسی کے درپے ہوجاتا ہوں۔ میں اپنی اصلاح کے واسطے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
مثلاً کچھ دن قبل مجھے پتہ چلا کہ یہ شعر

عمر دراز مانگ کر لائے تھے  چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے موسوم ہے اور اس حد تک غلط العام ہے کہ اردو کی درسی کتابوں میں بھی بہادر شاہ ظفر کے نام سے سکولوں کالجوں میں پڑھایا جارہا ہے ، درحقیقت سیماب اکبر آبادی کا ہے۔

مجھے پہلے تو ٹوکنے والے پر حیوانی جبلت کے تقاضے کے تحت بے حد غصہ آیا مگر جب میں نے ٹھنڈے دماغ سے کراس چیک کیا تو واقعی اس بندہ خدا کی بات درست نکلی۔

اسی طرح آج ایک لڑکی نے توجہ دلائی کہ ڈاکٹر صاحب

تنگدستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے

یہ شعر مرزا نوشہ کا نہیں ہے بلکہ ایک اور شاعر قربان علی سالک بیگ کا ہے۔

تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے۔

تصدیق کی تو اس کی بات کی تصدیق ہوگئی۔

محمدعلی نے اس لڑکی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے غلطی کی نشان دہی کی اور علم میں اضافہ فرمایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہور باقی ٹھیک ٹھاک؟
آج گرمی بہت تھی یار۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply