انسان کی جبلت/انور مختار

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ایک پرتشدد مخلوق ہے۔ گھریلو تشدد سے لے کر بڑے پیمانے پر عالمی جنگیں، یوں لگتا ہے جیسے جارحیت ایک بنیادی انسانی رویہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پرتشدد رویہ ہماری جبلت ہے؟ یا ہم اسے سیکھتے ہیں؟ تشدد تمام ہی انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے جب کہ تشدد، حملوں اور جارحانہ رویوں کی کئی وجوہات ممکن ہیں، مگر ایک شے شاید بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ تشدد کسی نہ کسی صورت میں ‘اطمینان‘ سے جڑا ہوا ہے۔ جس جس معاشرے میں تشدد سے اطمینان کا عنصر کم کیا جاتا رہے گا، وہاں پرتشدد رویوں کی شرح بھی اسی نسبت سے کم ہوتی جائے گی برطانوی فلسفی اور ریاضی دان ایلن ٹورنگ نے کہا تھا، ”آپ جانتے ہیں کہ لوگ تشدد کیوں پسند کرتے ہیں؟ کیوں کہ تشدد کر کے لوگوں کو اچھا محسوس ہوتا ہے۔تشدد سے لوگوں کو اطمینان ملتا ہے۔ آپ تشدد سے اطمینان نکال دیں، تو یہ سارا عمل خالی پن میں بدل جائے گا۔‘‘
جدید عمرانیات میں انسان کو معاشرتی حیوان Social Animal
قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کی بنیاد پر دو قسم کے افراد وجود میں آئے ہیں۔علم البشریات anthropology کے مطابق بہترین انسانی اقدار کے لیئے کوشاں ہونا انسان کی جبلت میں شامل ہے ہر انسان چاہے وہ جس معاشرے کا بھی فرد ہو انسانیت کے جبلتی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور طبعی میلان بھی۔پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماے معاشرے میں یہ بہترین انسانی اقدار ناپید ہیں؟
انسانی زندگی کا آغاز غاروں اور جنگلوں سے ہوا ہے ننگے بدن اپنے زیست کی شروعات کرنے والے انسان نے اپنے بدن کو ڈھانپنے کیلئے درختوں اور جھاڑیوں کے بڑے بڑے پتوں کا استعمال جب شروع کیا تو یہ دنیا میں عقل کا پہلا آغا اور قدم تھا پھر اسی انسان نے جب اپنے شکم کی پیاس بجھانے کے لئے لیے اپنے سے تیز اور گھاتک مختلف جانوروں کا شکار اپنے بنائے ہوئے نوک دار ہتھیار سے شروع کیا تو یہ عقل کے استعمال کا دوسرا قدم تھا اس کے بعد اس عقل نے جب اسی شکار کیے گے جانور کو کاٹنے کے لئے پتھر کا چاقو(پتھر کے اوزاروں کا پہلا استعمال تقریباً 25 سے 27 لاکھ سال قبل ایتھوپیا میں ہوا اور اس کے بعد یہ تکنیک آہستہ آہستہ دنیا کے باقی حصوں میں بھی پھیل گئی) اور پکانے کے لیے پتھر سے پتھر کو رگڑ کر آگ جیسی نعمت کا سراغ لگایا تو یہ عقل کا تیسرا قدم تھا اس کے بعد شکار کے دوران جب پہلا جنگلی انسان گر کر زخمی ہوا تو اس جنگلی فرد نے اپنا زخم ٹھیک کرنے کے لیے جب جڑی بوٹیوں سے اپنے زخموں سے رستے خون کو روک کر درد سے راحت پائ تو یہ انسان کا چوتھا بڑا قدم تھا اس ڈارک ایج میں کسے معلوم تھا کہ غار سے نکلنے والے یہ چند ایک قدم مستقبل میں آسمان کی وسعتوں میں چہل قدمی کرنے والے ستاروں کے سر پر پہنچ جائیں گے اپنے اس شروعاتی دور میں انسانی عقل نے مزید قدم اٹھا کر ثابت کیا کہ عقل نے اپنی ارتقائی منازل طے کرنا شروع کر دیں ہیں اور اب راستے میں پڑھنے والی بڑی سے بڑی رکاوٹوں حادثات اور قدرتی آفات کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کر لیا ہے عقل تخلیق کار کی وہ دین اور نعمت ہے جس نے انسان کو دوسرے جانداروں اور دیگر مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات بنا کر ممتاز کر دیا ہے مگر اس قدیم ترین دور کی وہ یادگاریں اب تک کسی نہ کسی شکل و صورت میں اس کی مذہبی سوچ کی عملی تفسیر “شعائر” کی صورت میں موجود ہیں
ڈاکٹر خالد سہیل ہم سب بلاگ میں اس موضوع پر ایک آرٹیکل ”
کیا آپ انسانی جارحیت کی نفسیات سے واقف ہیں؟میں لکھتے ہیں کہ انسان ظلم کیوں کرتے ہیں؟
انسان جنگیں کیوں لڑتے ہیں؟
کیا جارحیت انسان کی فطرت کا حصہ ہے؟
کیا قتل کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے؟ انسانوں کی جارحیت ماہرین بشریات‘ نفسیات اور سماجیات کے لیے ایک سوال ہے، ایک معمہ ہے، ایک بجھارت ہے ، ایک پہیلی ہے اور ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اگرچہ جارحیت کے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب اور اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش حل ابھی تک نہیں ملا لیکن ایرک فرام نے، جو ماہر نفسیات بھی ہیں اور ماہر سماجیات بھی، اپنی کتاب THE ANATOMY OF HUMAN DESTRUCTIVENESS میں مختلف ماہرین کی پیچیدہ اور گنجلک آرا کو یکجا کیا ہے اور اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ چونکہ اس کتاب کا مطالعہ دشوار ہے اس لیے میں ان نظریات کو عام فہم اور آسان زبان میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا جارحیت کے موضوع پر بیسویں صدی میں پہلی اہم کتاب کونریڈ لورنز نے 1966 میں لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کا نام ON AGGRESSION تھا۔ جارحیت کے موضوع پر دوسری اہم کتاب ڈیزمنڈ مورس نے 1967 میں لکھی۔ یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی۔ اس کتاب کا نام THE NAKED APE تھا۔
Erich Fromm
ان دونوں ماہرین کاموقف تھا کہ جارحیت انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اسی جبلت کی وجہ سے انسان ظلم بھی کرتا ہے اور جنگیں بھی لڑتا ہے۔ لورنز اور مورس نے انسانی جارحیت کو اس کی فطرت اور جبلت سے جوڑا۔
ایرک فرام ان دونوں ماہرین کے نظریے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ لورنز اور مورس دونوں ماہرین بشریات ہیں۔ انہوں نے مچھلیوں ، پرندوں اور جانوروں پر تحقیق کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کیے انہیں انسانوں پر بھی لاگو کر دیا۔ ایرک فرام کا کہنا ہے کہ انسان کی فطرت کو سمجھنے کے لیے ہمیں جبلت کے علاوہ اور بھی بہت سے محرکات کو سمجھنا ہوگا۔
ایرک فرام نے جس تیسرے ماہر کا نظریہ پیش کیا ان کا نام بی ایف سکنر تھا جو ایک بیہیورسٹ تھے۔ سکنر کا کہنا تھا کہ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے اعمال پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ ہم اس کے اعمال کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔ سکنر نے انسانی نفسیات کی تحقیق میں جذبات، خیالات اور نظریات کو نظر انداز کیا کیونکہ ہم انہیں ٹیسٹ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا انسان کی داخلی زندگی سے تعلق ہے۔ ایرک فرام سکنر سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر انسان کا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے اور اس کردار کو سمجھے بغیر ہم اس کے اعمال کے محرکات کو پوری طرح پرکھ نہیں سکتے۔
ایرک فرام نے جس چوتھے ماہر کے خیالات اور تصورات پیش کیے ان کا نام سگمنڈ فرائڈ ہے۔ فرائڈ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آخری دور میں لکھا کہ انسان کی دو جبلتیں ہیں۔ زندگی کی جبلت اور موت کی جبلت اور انسان کی جارحیت کا تعلق اس کی موت کی جبلت سے ہے۔
Sigmund Freud
فرائڈ کا موقف تھا کہ انسان ساری عمر اپنی ذات کی شعوری اور لاشعوری جبلتوں اور خواہشوں میں تضاد محسوس کرتا ہے اور اپنی ذہنی صحت اور بلوغت کے حوالے سے فیصلے کرتا ہے۔ فرائڈ نے انسانوں کے شعوری فیصلوں کے ساتھ ساتھ اس کے لاشعوری محرکات کو بھی اہمیت دی اور انسانی جاحیت کی تفہیم میں گرانقدر اضافے کیے۔ اس کتاب میں پانچواں نظریہ خود ایرک فرام کا اپنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ انسان حیوان سے بہت مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں میں دو طرح کی جارحیت پائی جاتی ہے۔ پہلی قسم کی جارحیت بینائن جارحیت BENIGN AGGRESSION ہے اگر کسی انسان پر کوئی حملہ آور ہو تو وہ اپنی جان بچانے لیے جارحیت کا اظہار کر سکتا ہے۔ یہ جارحیت جانوروں کی جارحیت کی طرح ہے، جانور جب بھوکا ہو تو وہ شکار کرتا ہے اور اس پر حملہ ہو تو وہ بھی جوابی کارروائی کے طور پر اپنی جان بچانے کے لیے حملہ آور ہوتا ہے۔ لیکن شیر سیر ہو چکا ہو اور اسے جنگل میں کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بھی بہت پرسکون رہتا ہے اور بے وجہ خون نہیں بہاتا۔
انسان کی دوسری قسم کی جارحیت زیادہ خطرناک جارحیت ہے اس لیے ایرک فرام اسے میلگننٹ ایگریشن MALIGNANT AGGRESSION کا نام دیتے ہیں۔ اس جارحیت کا انسان کی بقا سےکوئی تعلق نہیں۔ اس جارحیت کا تعلق انسان کی طاقت سے شہوت سے ہے۔ اس جارحیت کی وجہ سے وہ تشدد کرتا ہے۔اس تشدد سے وہ دوسرے انسانوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی انا کی خاطر بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اپنے دشمن کو تباہ و برباد اور ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسے نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے. ایرک فرام کا کہنا ہے کہ انسان نے کچھ ایسے نظریات تخلیق کیے ہیں جو جارحیت کو ایک آئیڈیل کے حصول کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ انسان نے ایسے آدرش بنائے ہیں جن کی خاطر وہ بڑے فخر سے نہ صرف اپنی جان دیتا ہے بلکہ اوروں کی جان لیتا بھی ہے۔ ایرک فرام کی نگاہ میں ایسے مذہبی نظریات اور سیاسی آدرش انسانیت کےمستقبل کےلیے خطرناک ہیں کیونکہ وہ جارحیت اور تشدد کو محترم، معزز اور مقدس بنا دیتے ہیں۔ایرک فرام نے دو طرح کے انسانی کرداروں کا نظریہ پیش کیا۔ ایک کردار کو انہوں نے نیکرو فلس کردار NECRO-PHILOUS CHARACTER کا نام دیا۔ ایسا کردار موت سے محبت کرتا ہے۔ اسے ظلم جبر اور تخریب کاری سے خوشی ملتی ہے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں ظلم کرتا ہے اور سماجی زندگی میں ظالمانہ سوچ اور جابرانہ طرز زندگی کے مقناطیس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ وہ فاشسٹ نظام کا حصہ بن جاتا ہے اور اپنے ظالم ہونے پر فخر کرتا ہے۔
دوسرے کردار کو انہوں نے بایوفلس کردار BIO-PHILOUS CHARACTER کا نام دیا۔ ایسا کردار زندگی سے محبت کرتا ہے۔ وہ آشتی کے قریب جاتا ہے اور دوسرے پرامن انسانوں کے ساتھ مل کر پرامن معاشرے تعمیر کرنےکی کوشش کرتا ہے۔ ایرک فرام کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے گھروں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسا ماحول تعمیر کرنا چاہیے تا کہ ہمارے بچے جوان ہو کر نیکروفلس کردار اپنانے کی بجائے بایوفلس کردار اپنائیں تا کہ ہم سب اس کرہ ارض پر پرامن معاشرے قائم کر سکیں۔ انسانی ارتقا کا سفر ایک سست رو سفر ہے جس کے لیے ایک میراتھون رنر کی صبر و استقامت کی ضرورت ہے۔ انسانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے موت سے محبت کرنی ہے اور ظلم اور جبر و تشدد کو گلے لگانا ہے یا زندگی سے محبت کرنی ہے اور امن و آشتی سے بغلگیر ہونا ہے۔ اسی فیصلے پر انسانیت کے مستقبل کا دارومدار اور انحصار ہے۔
ایرک فرام کی کتاب میں انسانی نفسیات کا ایک قیمتی خزانہ چھپا ہے۔ اسے پڑھ کر قاری انسانی ذات کے نہاں خانوں میں چھپی بہت سی بصیرتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ یہ کتاب جارحیت کی نفسیات کے مطالعے کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply