کشتی حادثہ:روٹی بندہ کھا جاندی اے/نذر حافی

یونان کے ساحل سے کچھ دور بحیرہ ایونی سوگوار ہے۔ یہ بحیرہ ایڈریاٹک کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کے گرد اطالیہ سالنتو، البانیہ اور یونان کے جزائر ہیں۔ جنہیں آیونین جزائر اور یا پھر ایونی جزائر کہا جاتا ہے۔ یہیں پر خلیج پطرس، آبنائے مسینا، خلیج ٹارانٹو اور خلیج قطانیہ واقع ہیں۔ 14 جون کو اینڈریانا نامی کشتی یہاں ڈوب گئی۔ سات گھنٹوں تک یہ خراب کشتی سمندر میں رُکی رہی۔ بیس سے تیس میٹر لمبی کشتی میں شدّت پیاس اور گرمی سے بھی کچھ افراد فوت ہوگئے۔ اس کے بعد کشتی اُلٹی اور مزید سات سو پچاس مسافر ڈوب گئے۔ مرنے والوں کا تعلق شام، مصر، پاکستان، فلسطین اور افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔ یہ سارے ڈوبنے والے دنیا کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ لہذا ساری دنیا کے اوپر والے طبقے نے نچلے طبقے سے اظہارِ یکجہتی کیلئے سوگ منایا۔ پاکستان میں تو ویسے بھی ہر جگہ دو طبقے ہیں۔فوج، پولیس، واپڈا، نادرا، پروفیسر، صحافی، سیاستدان، مولوی، مسٹر، پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، سنی، شیعہ۔۔۔ ہر جگہ دو طبقے نہ ہوں تو بتائیے گا۔ اوپر والا طبقہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا ہے اور نچلا طبقہ دو وقت کی روٹی کیلئے ذلیل ہوتا ہے۔

اوپر والا طبقہ الیکشن، حُب الوطنی، قانونی کارروائی، تعمیر و ترقی، سائنسی انقلاب اور سی پیک کی باتیں کرتا ہے جبکہ نچلا طبقہ اپنا پیٹ پالنے کیلئے نسل درنسل ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ مذکورہ بالا حادثے پر اوپر والا طبقہ معترض ہے کہ نچلے طبقے کے لوگ روزگار کیلئے غیر قانونی طور پر اٹلی اور برطانیہ کیوں جاتے ہیں۔ اب اس طبقے سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس ملک کے عوام کی سکیورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اتنے بڑے بڑے سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں اسمگلر حضرات کیسے لوگوں کو روٹی کا جھانسہ دے کر لے جاتے ہیں؟ ملک میں انسانی اسمگلنگ کو روکنے کا بجٹ کون ہڑپ کر جاتا ہے؟ یہ جگہ جگہ ایف سی، پولیس اور فوج کے ناکے کس کے لئے ہیں؟ ہمیشہ ایسے سوالات پوچھنے والوں کا منہ بند کرنے کیلئے نئی نئی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ نئی کہانیاں کسے پسند نہیں؟ تو ملاحظہ فرمایئے اب نئی کہانیاں۔۔۔!

پہلی کہانی۔۔۔ سارے اسمگلروں کا تعلق یونان سے تھا، یعنی پاکستان کے سارے اسمگلر بری الذّمہ ہیں۔ دوسری کہانی۔۔۔ یونان میں مسافروں سے بھری کشتی ڈوبی نہیں ڈبوئی گئی، یعنی ڈبونے والے یونانی کوسٹ گارڈ تھے، اب پاکستانی سمگلروں کا تو کوئی قصور نہیں۔ تیسری کہانی۔۔۔ اقوام متحدہ نے تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے، یعنی اب اقوامِ متحدہ جانے اور اس کے کام۔ چوتھی کہانی۔۔۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کمال کر دیا۔ پاکستانی نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ بھیجنے والا ساجد محمود نامی ایجنٹ کراچی ائیرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ یعنی پورے ملک میں یہی ایک بندہ یہ دہندہ کرتا تھا اور چند بندے مزید اس کی نشاندہی پر پکڑے جائیں گے۔ اس دہندے میں اوپر والے طبقے کا تو کوئی آدمی ملوث ہی نہیں ہے۔ لہذا اسمگلروں سے بھتہ وغیرہ لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کمشنر میرپور آزاد کشمیر چوہدری شوکت علی فرماتے ہیں کہ نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجنے والے ایجنٹس کا تعلق گجرات، منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے ہے۔ یعنی یہ بیان دے کر ہماری ذمہ داری تو ادا ہوگئی۔ اب آزاد کشمیر کے لوگ جانیں اور گجرات، منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ کے اسمگلر جانیں۔ یاد رہے کہ کوٹلی آزاد کشمیر کے تقریباً پچاس افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ ہمارے ہاں بے روزگاری کا خاتمہ، عوام کو روٹی، کپڑے اور مکان کی فراہمی، رشوت خوروں، حرام خوروں اور اسمگلروں سے عوام کی حفاظت تو کسی ادارے کی ذمہ داری ہی نہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان جیسے سرسبز و شاداب اور زرخیز، جنت نظیر منطقے میں بھی مقامی انڈسٹری کسی کی ترجیح میں نہیں۔ یاد رہے کہ صرف سڑکوں کے غلط نقشوں اور گاڑیوں کی خستہ حالت کی وجہ سے ہی سالانہ سینکڑوں لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں، جو یونان کے سمندروں سے لے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کی سڑکوں تک لاشیں تو اٹھاتے ہیں، لیکن آواز نہیں اٹھاتے۔

لاشیں اٹھانے سے اوپر والے طبقے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ طبقہ کہانیاں سُنا سُنا کر ہی لوگوں کی ہمدردیاں خریدنے کا ماہر ہے۔ ویسے بھی اگر کہانی میں کچھ اعداد و شمار بھی شامل ہو جائیں تو کہانی کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ کہانیوں کا مزہ لیجئے اور یہ جان لیجئے کہ تارکین وطن کے ساتھ یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہوا۔ آئے روز ایسے حادثات میں پاکستانی مارے جاتے ہیں۔ بہت سارے پاکستانیوں کو اسمگلر حضرات ڈاکووں کے ساتھ مل کر لوٹ لیتے ہیں، بعض کو اغوا برائے تاوان والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور بعض کئی کئی سال کیلئے لاپتہ ہو جاتے ہیں، بعض سے دوسرے ممالک میں بیگار لی جاتی ہے۔ اینڈرونا کے ڈوبنے پر سمندر اداس ہے۔ نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ بھی سمندر کی طرح گہرے ہوتے ہیں۔ ڈوبتے وقت ڈوبنے والوں کی خواتین اور بچے ان سے الگ اسمگلروں کی قید میں تھے۔ خدا جانے ان خواتین اور بچوں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی، آہ!

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی مسافر نے بھی لائف جیکٹ نہیں پہن رکھی تھی۔۔۔ ابھی تک سینکڑوں لوگ لاپتہ ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں ایک نوجوان ستائیس سالہ کاشف بٹ بھی ہے۔ سیالکوٹ کے رہائشی کاشف بٹ کے والد کے مطابق انہوں نے نوشہرہ ورکاں کے ایک ایجنٹ کو تئیس لاکھ روپے دیئے تھے اور اس ایجنٹ کا پارٹنر ایف آئی اے کا ایک اہلکار ہے۔ پس پتہ یہ چلا کہ یہ سارے غیر قانونی دھندے یونہی نہیں ہوتے۔ یہ ایک کشتی نہیں ڈوبی بلکہ کتنے ہی خاندانوں کے چراغ گُل ہوگئے، کتنے ہی کنبوں کے چولہے بُجھ گئے۔ انہی غیر قانونی دھندوں کے باعث اوپر والے طبقے کے لوگوں کے گھوڑے بھی مربّہ کھاتے ہیں، ان کے بچے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور وہ پیٹ بھر کر مرغن غذائیں اور روٹی کھاتے ہیں، لیکن نچلے طبقے میں “روٹی بندہ کھا جاندی اے۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply