اسلام میں نکاح کا تصور اور فوائد و ثمرات/عدیل ایزد

نکاح کا لغوی معنی :

نکاح کا لغوی معنی ہے۔  جمع کرنا ، مل جانا، “ضم” ہو جانا ، جذب ہو جانا اور عقد و وطی پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

مسلم شریف کی شرح منہاج میں ہے:

هُوَ فِي اللُّغَةِ الضَّمُّ وَيُطْلَقُ عَلَى الْعَقْدِ وَعَلَى الْوَطْءِ

اصطلاحی معنی : اس کی اصطلاحی تعریف اس طرح ہوئی ہے۔ البدائع الصنائع میں ہے۔

” وَمِنْهَا الْمُتْعَةِ، وَهُوَ اخْتِصَاصُ الزَّوْجِ بِمَنَافِعِ بُضْعِهَا وَسَائِرِ أَعْضَائِهَا اسْتِمْتَاعًا أَوْ مِلْكُ الذَّاتِ وَالنَّفْسِ فِي حَقِّ التَّمَتُّعِ ”

ترجمہ :  اور اسی میں سے ایک ملک متعہ مالک ہونا ہے اور وہ شوہر کا عورت کے ملک بضعہ اور تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانا ہے ۔

چونکہ نکاح کا معنی ضم ہوتا ہے یعنی جذب ہو جانا اور یہ معنى بدرجہ اتم وطی میں بھی پایا جاتا ہے اس لیے نکاح کو وطی کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ “عقد”  یا نکاح وطی پر قدرت رکھتا ہے اسی لیے مجاراََََ  “عقد ” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شریعت اسلامی نے انسان کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھا  ہے جبکہ باقی مذاہب میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی۔ اسلام   نے نکاح کے ذریعے مرد پر عورت کو حلال کیا ، اس کے. علاوہ اور کوئی دوسری صورت نہیں جس سے عورت مرد پر حلال ہو باقی تمام راستے اور طریقے اسلام میں ناجائز اور حرام قرار دیئے گئے ہیں۔

اسلام نے نکاح کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ابتدائے  آفرینش سے ہی نکاح کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اسی لیے الله تعالٰی نے حضرت آدم کا جوڑا حضرت حوا کی صورت میں بنایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :

 هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا

ترجمہ : وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے۔

اللہ تعالٰی نے انسان کی ضرورت کا سامان اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مہیا کر دیا ۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا

ترجمہ:  اور تمہیں جوڑے بنایا

مذکورہ بالا آیات اس بات پر دلیل ہیں کہ زوجیت قدرت   الہیہ کا شاہکار ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اول ابشر کا جوڑا بنایا   اور انہیں زوجیت کےبندھن میں باندھ دیا۔  اسلام نے رشتہ نکاح کو بہت اہمیت دی ہے ۔ نکاح کی  بدولت ایک اجنبی اپنا اور بیگانہ  یگا نہ ہو جاتا ہے۔ نکاح کے بندھن میں جڑنے سے مرد اور عورت بہت سے رشتوں کی لڑی میں سما جاتے ہیں۔ جیسے ایک مرد شوہر،  داماد،  بہنوئی، باپ ،  نانا ،  دادا جیسے خوبصورت رشتوں کا مالک ہو جاتا ہے۔ عورت کے لیے بھی نکاح ایک محفوظ قلعے کی مانند ہے۔ جس میں وہ بے حد محفوظ اور عزت و تکریم کے ساتھ زندگی گزار تی ہے ۔ مرد کی طرح عورت بھی بیوی،  بہو،  بھابھی،  ماں، نانی  اور دادی جیسی صداؤں سے خود کو مسرور کرتی ہے۔ نکاح کی ہی بدولت ایک آدمی اپنے بزرگوں کا احترام کرنا ،  چھوٹوں سے شفقت ،  محبت و الفت ، پاس ولحاظ، شرم وحیا، عفت و پاکبازی جیسے جذبوں سے آشنا ہوتا ہے۔

اسلام نکاح کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور مجرد زندگی گزارنے  سے منع فرماتا ہے ۔ بلاشبہ اسلام کا یہ شیوہ رہا اور نبیوں اور رسولوں نے بھی نکاح کے ساتھ پاکیزہ زندگی بسر کی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

” وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَٰجًا وَذُرِّيَّةً

ترجمہ : اور بلاشبہ یقیناً ہم نے کئی رسول تجھ سے پہلے بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے  ۔

اسلام نے نکاح کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ابتدائے  آفرینش سے ہی نکاح کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اسی لیے الله تعالٰی نے حضرت آدم کا جوڑا حضرت حوا کی صورت میں بنایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :

 هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا

ترجمہ : وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے۔

اللہ تعالٰی نے انسان کی ضرورت کا سامان اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مہیا کر دیا ۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا

ترجمہ:  اور تمہیں جوڑے بنایا

مذکورہ بالا آیات اس بات پر دلیل ہیں کہ زوجیت قدرت   الہیہ کا شاہکار ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اول ابشر کا جوڑا بنایا   اور انہیں زوجیت کےبندھن میں باندھ دیا۔  اسلام نے رشتہ نکاح کو بہت اہمیت دی ہے ۔ نکاح کی  بدولت ایک اجنبی اپنا اور بیگانہ  یگا نہ ہو جاتا ہے۔ نکاح کے بندھن میں جڑنے سے مرد اور عورت بہت سے رشتوں کی لڑی میں سما جاتے ہیں۔ جیسے ایک مرد شوہر،  داماد،  بہنوئی، باپ ،  نانا ،  دادا جیسے خوبصورت رشتوں کا مالک ہو جاتا ہے۔ عورت کے لیے بھی نکاح ایک محفوظ قلعے کی مانند ہے۔ جس میں وہ بے حد محفوظ اور عزت و تکریم کے ساتھ زندگی گزار تی ہے ۔ مرد کی طرح عورت بھی بیوی،  بہو،  بھابھی،  ماں، نانی  اور دادی جیسی صداؤں سے خود کو مسرور کرتی ہے۔ نکاح کی ہی بدولت ایک آدمی اپنے بزرگوں کا احترام کرنا ،  چھوٹوں سے شفقت ،  محبت و الفت ، پاس ولحاظ، شرم وحیا، عفت و پاکبازی جیسے جذبوں سے آشنا ہوتا ہے۔

اسلام نکاح کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور مجرد زندگی گزارنے  سے منع فرماتا ہے ۔ بلاشبہ اسلام کا یہ شیوہ رہا اور نبیوں اور رسولوں نے بھی نکاح کے ساتھ پاکیزہ زندگی بسر کی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

” وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَٰجًا وَذُرِّيَّةً

ترجمہ : اور بلاشبہ یقیناً ہم نے کئی رسول تجھ سے پہلے بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے  ۔

قرآن وسنت کی روشنی سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام پاکیزہ رشتوں کی بنیاد نکاح کو قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس رشتہ نکاح اور رشتہ دارانہ تعلقات کو قائم رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

  يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللَّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

ترجمہ: لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ذات سے پیدا کیا  اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا  پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا،  اس الله سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگے ہو  اور  رشتوں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھو بے شک  اللہ تمھارا حال دیکھتا اور اس پر نظر رکھتا ہے ۔

نبی اکرم  ﷺ ان آیات کو خطبہ نکاح کے موقع پر تلاوت فرمایاکرتے تھے تاکہ ایک مومن مرد کے اندر نکاح کی ضرورت واہمیت اور رشتوں کو جوڑے رکھنا اور ان کے حقوق ادا کرنا  جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوں ۔ یہ اللہ کی عظیم نشانیوں اور نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اس نے انسان کی راحت اور چین کے حصول کے لیے اس کا جوڑا بنایا۔

ارشاد باری تعالی ہے :

” وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ”

ترجمہ: یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھاری جنس سے تمھاری بیویاں پیدا کیں۔

سورۃ  النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 ” وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَحَفَدَةً ”

ترجمہ:  الله ہی ہے جس نے تمھاری جنس سے تمھارے جوڑے پیدا کیے اور ان سے تمھارے لڑکے اور پوتے بنائے۔

مذکورہ آیات میں اللہ نے اپنی ان نشانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے جوڑوں کی صورت میں مرد اور عورت پیدا کیے پھر ان میں نکاح کا پاکیزہ رشتہ قائم کیا  تاکہ وہ اپنی نسل کو بڑھا سکیں پھر انہیں لڑکے اور پوتے نوازے۔ یہ تمام نکاح کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں مجرد زندگی اور رہبانیت کا تصور پایا جاتا تھا۔مگر اسلام نے مجرد زندگی سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ  کا ارشاد ہے:

” لا رهبانية في الاسلام ”

ترجمہ:  اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے ۔

نکاح کے فوائد و ثمرات

۱۔ نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ

مرد و عورت میں ایک دوسرے کی طرف طبعی کشش ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی خرابی نہ آئے  اس کے لیے نکاح مفیدہے۔ اس سے نسل انسانی کی بقا مشروط ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

” وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ-وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا ”

ترجمہ:  اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا۔ پھر اس کو نسبی اور سسرالی رشتے عطا کئے ،  اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے ۔

بقائے انسانی اور افزائش نسل نکاح کا اہم مقصدہے۔  اس بارے میں آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا :

” تناكحوا تناسلوا تكثروا، فإِني مباه بكم الأمم “

ترجمہ :  نکاح کرو نسل بڑھاؤ  امت میں اضافہ کرو پس بے شک میں تمہاری کثرت کو دیکھ کر دوسری امتوں   پر فخر کرنے والا ہوں گا۔

نکاح ایک ضروری امر ہے اور اس کے فوائد و ثمرات بے شمار ہیں۔

۲۔  حسب نسب کی حفاظت

اسلام نے نکاح کی بدولت حسب نسب کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔  اسلام سے قبل عربوں میں اولاد کے حصول کے شرمناک طریقے رائج تھے مگر اسلام نے صرف نکاح کو پسند کیا۔ حسب نسب کی حفاظت سے  لوگوں کی پہچان اور شرافت و کرامت کی بھی حفاظت ہو جاتی ہے۔  انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ اپنے حسب و نسب میں کسی   قسم کی ملاوٹ برداشت نہیں کرتا ۔  اسی لیے اسے تمام جاندار مخلوق پر فوقیت و برتری حاصل ہے۔

اولاد کی خواہش رکھنا ہر انسان کی طبعی ضرورت بھی ہے اور خواہش بھی تاکہ اس کی پشت سے اس کی نسل کا سلسلہ چلتا رہے۔  اولاد کے لیے نبیوں نے بھی اللہ سے فریاد کی۔ قرآن حکیم میں حضرت زکریاؑ کی فریاد کا ذکر موجود ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

” وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ ”

ترجمہ:  اور زکریا کو دیکھو !  جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا یا رب مجھے اکیلا نہ چھوڑئیے اور آپ سب بہترین وارث ہیں۔

تشریح:  حضرت زکریاؑ  کی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السّلام  جیسا بیٹا عطا فرمایا ۔  ( توضح القرآن)

۳۔ راحت وسکون کا ذریعہ

جنسی میلان میں راحت و سکون کا اصل راستہ نکاح سے ہی طے کیا جا سکتا ہے ۔ جدید دور میں جو راستے اختیار کیے جاتے ہیں وہ محض فحش،  گناہ  اور اضطراب میں مبتلا کرتے ہیں۔  اور انسان ذہنی سکون سے محروم ہو جاتا ہے۔

نکاح کی برکت سے انسان ذہنی امراض و تکالیف سے نجات پالیتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

  وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ ”

ترجمہ :  اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں ،  تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو،  اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیئے۔

تشریح :  میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ اور دونوں کی تربیت اور مزاج مختلف ہوتے ہیں مگر نکاح میں اتنی طاقت ہے کہ دونوں محبت والفت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور ساری عمر کی رفاقت کو بھر پور طریقے سے گزارتے ہیں۔

۴۔ ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے

شریعت مطہرہ میں نکاح باہمی الفت و محبت اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے مشروع ہے۔  قرآن و حدیث میں زوجین کے حقوق متعین کر دیئے گئے ۔  ان حقوق کی ادائیگی سے طرفین یقیناًخوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں  اور ایمان کی حلاوت کو بھی پوری یکسوئی سے محسوس کر پاتے ہیں ۔

“نکاح کے بعد ان میں ایسا گہرا رشتہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرز زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان ایسی محبت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک دوسرنے کے بغیر رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔”

حدیث نبوی ﷺ  ہے :

” عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَابٌ لَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ عَلَيْكُمْ بِالْبَاءَةِ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ “

ترجمہ: حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ، اور ہم  جوان تھے ، کسی چیز پر ہماری قدرت نہ تھی  (شادی کے لیے مہر، نان و نفقہ وغیرہ )  پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے نوجوانوں کے گروه تم شادی ضرور کرو، پس وہ نظروں کے پست رکھنے کا باعث ہے،  اور پاکدامنی کا محافظ ہے ۔  اور جو کوئی تم میں سے شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزہ لازم پکڑے پس روزہ اس کے لیے قاطع شہوت ہے  ۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح نو جوانوں کے لیے بہت ضروری ہے اس سے ایک تو ایمان پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل و دماغ مطمئن ہو تو عبادت کا سرور بڑھ جاتا ہے۔حضرت ابن عباس ؓ سے حدیث مروی ہے :

” قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ ”

ترجمہ :  دو محبت کرنے والوں میں نکاح کی بنیاد پر ہونے والی محبت کی مثال نہیں دیکھی گئی۔

۵۔ نکاح کرنا سنت نبوی ہے

آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا :

” انِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی “

ترجمہ: نکاح میری سنت ہے اور جو میرے طریقے پر عمل نہ کرے وہ مجھ میں سے نہیں ۔

ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ  ارشاد فرماتے ہیں:

” فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی ”

ترجمہ:  جو میری سنت سے اعراض کرے  وہ میرے طریقے پر نہیں

نکاح کرنا نبیوں کی سنت رہا ہے ۔ تمام انبیاء اور رسولوں نے نکاح اور بیوی بچوں والی زندگی کو پسند کیا۔

حدیث نبوی  ﷺ ہے :

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ المُرْسَلِينَ : الحَيَاءُ ، وَالتَّعَطُّرُ ، وَالسِّوَاكُ ، وَالنِّكَاحُ ”

ترجمہ:  ابی ایوب سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: چار چیزیں رسولوں کی سنت میں سے ہیں شرو حیاء ،  خوشبو ،  مسواک استعمال کرنا  اور نکاح کرنا ۔

۶۔ تحفظ عفت و عصمت کا ذریعہ

آپ  ﷺ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

حضرت جابر ؓ  سے روایت ہے کہ

” أيُّما شابٍّ تزوَّجَ في حَداثةِ سِنِّه عَجَّ شَيطانُه: يا وَيلَه! عَصَم مِنِّي دينَه ”

ترجمہ : جس نوجوان نے اپنی نو عمری میں شادی کی تو شیطان اس پر چیخ و پکار کرتا ہے اور کہتا ہے ہائے ہلاکت اس شخص نے مجھ سے اپنے دین کو محفوظ کرلیا

اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :

” يا زيد تزوج تزدد عفة إلى عفتك ”

ترجمہ :  اے زید شادی کرلے تیری پاکدامنی میں اضافہ ہوگا۔

نکاح کا فائدہ یہ ہے کہ جب نکاح ہو جاتا ہے تو پھر فطری  طور پر انسان کی توجہ اور دھیان گناہ کی طرف کم مائل ہوتا  ہے۔ اسی لیے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تجھے کوئی پسند آجائے تو اپنی بیوی کے پاس چلا جا کیونکہ اس کے پاس بھی وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔

۷۔ مہلک بیماریوں سے نجات کا ذریعہ

نکاح انسان کو پاک وصاف کر دیتا ہے ۔ ذہنی طور پر بھی اور باطنی لحاظ سے بھی ۔ نکاح کی پاکیزگی اسے کئی بیماریوں سے بچائے  رکھتی ہے۔  دور جدید میں جہاں نوجوانوں نے مغربی کلچر کو اپنا لیا ہے وہیں یہ کلچر بے نکاحی کی زندگی انسان کو متعدد بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ”

ترجمہ:  اے ایمان والو حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمھارے لیے حلال کیں اور حد سے تجاوز نہ کرو بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

نکاح کو اللہ نے حلال کیا ہے اور اس کے علاوہ مرد وزن کا کسی  اور تعلق اور واسطے سے اختلاط و ملاپ حرام قرار دیا  اور اس کی قباحتیں آجکل جدید امراض کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔

۸۔  نکاح آدھا دین ہے

آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا :

“إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الدِّينِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي”

ترجمہ:  بندے نے جب نکاح کر لیا تو آدھا دین مکمل ہو جاتا ہے ۔ اب باقی آدھے کے لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔

امام طبرانی نے اس حدیث کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

 “فقدِ استَكْملَ نصفَ الإيمانِ فليتَّقِ اللَّهَ في النِّصفِ الثاني”

ترجمہ :  جس نے شادی کی اس نے آدھا دین مکمل کر لیا۔ پس اسے چاہیے دوسرے نصف میں اللہ سے ڈرے۔

۹۔ نکاج رزق میں اضافے کا باعث ہے

اس وجہ سے نکاح نہ کرنا کہ غربت سے اور بد حالی سے  حالات مزید تنگ ہو جائیں گے یہ ہمارے معاشرے کی  خام خیالی ہے ۔ اس پر واضح حکم موجود ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

” وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ وَالصّٰلِحِيۡنَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَاِمَآئِكُمۡ‌ اِنۡ يَّكُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ يُغۡنِهِمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ”

ترجمہ: اور نکاح کر دو  اپنوں میں ان کا جو  بے نکاح  ہوں  اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو الله انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ تعالٰی وسعت والا علم والا ہے۔

۱۰۔ نکاح ذاتی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتا ہے

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا کی ہوتی ہیں جن کا پہچاننا اور ان کو نکھارنا ایک انسان کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث ہو جاتا ہے۔

اسی بنا پر آپ ﷺ نے فرمایا:

مفہوم حدیث :

“شادی ایسی عورت سے کی جائے جو اپنے اندر کمال درجہ کا ایمان رکھتی ہو اور آخرت کے لیے معین اور مدد گار ثابت   ہو ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی عورت مرد کو نکھارنے اور اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔ جب عورت مرد کے ایمان،  اس کے رزق ،  اولاد،  گھر بار  اور اس کی عزت کی محافظ ہوگی تو وہ اپنی پوری توجہ اپنی ذاتی صلاحیتوں کی کارکردگی پر لگا سکے گا۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply