کینسر (26) ۔ دغا/وہاراامباکر

چار طاقتور زہریلی ادویات کا کمبینیشن ویمپ تھا۔ اس کو 1961 میں زیادہ علیل بچوں پر لگایا گیا۔ پہلے ہفتے کے آخر میں بچوں کی حالت بگڑ چکی تھی۔ چار ادویات نے ان کے جسم میں تباہی مچا دی تھی اور ان کے نارمل خلیوں کو مار دیا تھا۔ کئی بچے کوما میں جا چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادویات دینا جاری رکھا گیا۔ تین انتہائی مشکل ہفتوں کے بعد کچھ واپس بحال ہونے لگے۔ غیرمتوقع طور پر ہڈی کا گودا جلد نارمل ہونے لگا تھا۔ ایک کے بعد دوسری بائیوپسی کا نتیجہ آ رہا تھا۔ لیوکیمیا باقی نہیں رہا تھا۔ سرخ اور سفید خلیے اور پلیٹلٹ دوبارہ بننے لگے تھے لیکن کینسر کے خلیے نہیں۔ لیوکیمیا کا کوئی ایک خلیہ بھی خوردبین کے نیچے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ نتیجہ ہر ایک کی توجہ سے بڑھ کر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ہفتوں بعد مریضوں کا ایک اور چھوٹا گروپ منتخب کیا گیا۔ ایک بار پھر ویسے ہی نتائج سامنے آئے۔ 1962 تک چھ مریضوں کو ویمپپ کی متعدد ڈوز دے کر ٹھیک کیا جا چکا تھا۔ اس تجربے کے نتائج دیکھتے ہوئے ناقدین اب خاموش ہو گئے تھے۔ امید اور ولولے کی آمد تھی۔ بچوں کے کینسر کے ماہرین کا موڈ بدل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید طاقتور تھی لیکن زیادہ عرصہ باقی نہیں رہی۔ ستمبر 1963 میں فرے اور فرائیرائیک کانفرنس میں فاتحانہ انداز میں ان نتائج کو شئیر کر کے آئے تھے۔ کہ کچھ بچے واپس کلینک پہنچ چکے تھے۔ شکایات معمولی تھیں۔ سردرد، چہرہ سن ہو جانا، دورہ پڑنا۔
انہیں دیکھنے والے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ معمولی علامات ہیں جو کہ جلد ٹھیک ہو جائیں گی لیکن فرائیرائیک زیادہ بہتر جانتے تھے۔ وہ دس سال سے لیوکیمیا کے خلیات کو سٹڈی کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سردرد واپس نہیں جائے گا۔ سُن ہونے اور سوئیاں چبھنے کی شکایت لئے کچھ مزید بچے اکتوبر میں کلینک میں آ گئے۔ فرے اور فرائیرائیک اب تشویش کا شکار تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی تاریخ بتاتے وقت دریافت کے لمحے کی کہانیاں بتائی جاتی ہیں۔ دل کی تیز ہوتی دھڑکن اور “پا لیا” کے واقعات۔ جب کسی ایک لمحے میں دریافت کرنے والے کے لئے کوئی بات یکایک منکشف ہو جاتی ہے۔ درخت سے گرتا سیب، ٹب سے نکل کر بھاگتا شخص، ایک مشکل مساوات کا حل ہو جانا۔
لیکن دریافت کا لمحہ صرف یہی نہیں۔ ایک اور طرح کا بھی ہوتا ہے، جس کی بات نہیں کی جاتی۔ جو تاریخ میں پڑھنے کو نہیں ملتا۔ یہ ناکام ہو جانے کی دریافت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جس کا سائنسدان کو اکیلے ہی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک مریض کا سی ٹی سکین۔ ایک خلیے کی واپسی جسے دوا نے مار دیا تھا۔ سردرد کی شکایت سے تحقیقاتی مرکز میں لوٹ آنے والا بچہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورچو نے 1880 میں مشاہدہ کیا تھا کہ لیوکیمیا کے خلیے کئی بار دماغ میں گھر بنا لیتے ہیں۔ فرے اور فرائیرائیک کو اب سپائنل فلوئیڈ دیکھنا تھا۔ ریڈھ کی ہڈی سے پتلی اور سیدھی سوئی کی مدد سے چند ملی لیٹر سیال لیا گیا۔ اعصابی نظام میں زیرِگردش یہ سیال دماغ کے بارے میں معلومات دے سکتا تھا۔
فرے اور فرائیرائیک نے جو دریافت کیا، وہ ان پر بجلی بن کر گرا۔ اس میں لیوکیمیا کے کئی ملین خلیے موجود تھے۔ کینسر کے اس موذی نے ادویات کے وار سے بچ کر دماغ میں پناہ لے لی تھی جہاں پر ادویات کا اثر نہیں پہنچتا تھا۔ دماغ کو بچانے کے لئے بنا بلڈ برین بیرئیر ان کی حفاظت کر رہا تھا۔ دماغ ان کی پناہ گاہ بن گیا تھا۔
سردرد اور سن ہونا آنے والی تباہی کی ابتدائی علامات تھیں۔ اگلے مہینوں میں ایک کے بعد اگلا، تمام بچے واپس آ چکے تھے۔ ہر ایک کا ہڈی کا گودا بالکل صاف تھا۔ پورے جسم میں کہیں پر کینسر کا نام و نشان نہیں تھا۔ لیکن لیوکیمیا نے اعصابی نظام پر قبضہ جما لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے دفاعی نظام میں سے ایک زبردست چیز یہ ہے کہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان بڑی مضبوط خلیاتی مہر ہے جو بلڈ برین بیرئیر ہے۔ یہ کسی بھی خارجی کیمیکل کو دماغ میں آسانی سے جانے سے روک دیتی ہے۔ یہ قدیم حیاتیاتی نظام ہے جو دماغ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور اسی نظام نے ویمپ کا اعصابی نظام میں داخلہ بند کر کے کینسر کو یہاں پر پناہ دی تھی۔ لیوکیمیا اس کو محسوس کر کے یہاں داخل ہو گیا تھا۔
اور کینسر کے اس کامیاب حربے کی وجہ سے ایک کے بعد اگلا بچہ لقمہ اجل کا شکار ہوتا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرے اور فرائیرائیک کو اس کا سخت صدمہ تھا۔ ویمپ کے سات ٹرائل ہوئے تھے۔ اس کی ناکامی کے بعد نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں مورال گر چکا تھا۔ فرے نے 1963 میں ادارہ چھوڑ دیا۔ ٹرائل اس وقت کے لئے روک دئے گئے (بعد میں یہ ٹیکساس میں دوبارہ کئے گئے)۔ چند مہینوں میں یہ ٹیم ٹوٹ گئی۔
ویمپ وہ سگندل حسینہ تھی جو امید بندھا کر دغا دے گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے کہانی محققین یا ڈاکٹروں کی نظر سے بتائی جاتی ہے لیکن یہ سے زیادہ مریضوں کی کہانی ہے۔
کسی پرسرار وجوہات کی بنا پر چند بچے ایسے تھے، جن میں کینسر واپس نہیں آیا۔ ویمپ کے علاج سے گزرنے والے پانچ فیصد بچوں نے ایک سال مکمل کیا۔ اور پھر اگلا اور پھر اگلا۔ وہ ہر سال واپس آ کر ٹیسٹ کرواتے۔ ان کے بال واپس آ گئے تھے۔ بائیوپسی صاف رہی تھی۔
ایلا کی جون 1964 میں لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی تھی، جب وہ گیارہ سال کی تھیں۔ انہیں ویمپ دیا گیا تھا۔ یہ سخت تکلیف دہ تھا۔ ان کے ہاتھ رسیوں کی مدد سے بستر سے باندھے گئے تھے۔ تکلیف کم کرنے کے لئے انہیں مارفین دی جاتی تھی جس کے نشے کی انہیں عادت ہو گئی تھی اور مضبوط قوتِ ارادی سے اس سے نکلنے میں کامیابی ہوئی تھی۔ علاج کے مہینوں میں درد کی حالت میں انہوں نے اپنا نچلا ہونٹ کاٹ کھایا تھا۔ لیکن انہوں نے کینسر کو پچھاڑ دیا تھی اور لمبی عمر پائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسے بچوں کی کہانیاں اور تصاویر فاربر نے اکٹھی کیں تھیں۔ کانگریس میں ان کی کہانیاں سنائی تھیں۔ یہ بچے اس بات کا زندہ ثبوت تھے کہ کیموتھراپی سے کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
کینسر کی تحقیق کے لئے اضافی تحقیق، فنڈ، پبلسٹی کی ضرورت تھی۔ فاربر اب لیوکیمیا سے آگے پھیھڑے، گردے، چھاتی، بچہ دانی، اووری، آنت، جلد کے کینسرز کو بھی نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ فاربر کو علم تھا کہ کسی ایک بھی طرح کے کینسر کا علاج اونکولوجی میں انقلاب ہو گا۔ وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply