انٹلیکچوئل خودکشی ” بلاگ لکھ چکا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ ہندوستان کے سماج میں ریاستی اور عوامی سطح پر سیکولر بیانیہ کو درپیش چیلنج اور ہندوتوا کی عوامی اور ریاستی سطح پر پذیرائی کے بارے میں ادبیوں نے جس طرح سے ردعمل دیا ، اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت ہے تو اس سلسلے میں مرا کام نیو کیسل یونیورسٹی میں پوسٹ کالونیل لٹریچر کی استاد نیلم سری واستو کی کتاب
Secularism in post colonial Indian Novel
نے آسان کردیا -اور اس کا جو دیباچہ ہے وہ خود اس قدر جامع ہے کہ بہت سے ایشوز نکھر کر سامنے آجاتے ہیں – نیلم سری واستو نے اس دیباچے میں ایک تو ہندوستان میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے انگریزی ناولوں کے بیانیہ اور ہندوستان میں ریاست اور پبلک پالیٹکس کے اندر آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے اور اس جائزہ کے دوران انہوں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ
پوسٹ کالونیل دور میں سیکولر ازم ریاستی اور عوامی سطح پر کیسے متعارف ہوا ؟ یہ کن ارتقائی منازل سے گزرا اور پھر کیسے یہ ہندوستانی عوام کی پرتوں میں ایک مقبول آئیڈیالوجی بننے کی بجائے ہندوستانی اپر مڈل کلاس ، کاسمو پولٹن سیکشنز ہی کے اندر محدود ہوکر رہ گیا ؟
نیلم سری واستو ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے خود ہندوستان کے اندر پوسٹ کالونیل دور میں انگریزی ناول کے ارتقاء ، اس کے قاری اور اس کے دائرہ کار اور اس کے بیانیہ میں بدلاؤ کا جائزہ بھی لیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ
ہندوستانی انگریزی ناول ٹرانس نیشنل ناظرین کے لئے ایک ” نیشن ” تخلیق کرتا ہے جبکہ عوامی بھاشا ہندی اس کے مقابلے میں خصوصی طور پر بس نیشنل ناظرین کے لئے ہی ایک خاص ” تصور نیشن ” تحلیق کرتا ہے اور اگر اسے اور زیادہ خاص کیا جائے تو یہ ایک تصوراتی کمیونٹی کی پیدائش کرتا ہے جس کی نمائندگی ہندوستانی نیشنل اور ٹرانس نیشنل انگریزی بولنے والی مڈل کلاس کرتی ہے
نیلم سری واستو کا خیال ہے کہ ہندوستانی ویوژل کلچر جو ہے جیسے فلم اور ٹیلی ویژن جس کا ابلاغ کا میڈیم ہندی بھاشا ہے اس سے ” مذھب پر قوم کی بنیاد ” کا تصور گہرائی تک گیا اور اسے ہم نیشنل انڈین نیشن اور جو انگريزی ناول نے پیدا کیا اسے ہم ٹرانس انڈین نیشن کا نام دیے سکتے ہیں اور ان دونوں تصورات کی جن سماجی گروپوں میں جڑیں ہیں ان کے درمیان امتیاز ہم ان کی واضح سماجی ، معاشی اربن یا دیہی لوکیشن کی شناخت سے کرسکتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ دو واضح سماجی گروہ ایک دوسرے سے گھل مل بھی جاتے ہیں جیسے آج کل ہم ہندوستانی مڈل کلاس کے اندر ” ہندؤتوا ” کی مضبوط حمائت دیکھتے ہیں تو نیلم سری واستو کے نزدیک یہ جو انگریزی میں ہندوستانی ناول لکھنا ہے یہ صرف و صرف ہندوستانی مڈل کلاس کے لئے لکھنا ہے اور اسی طبقے کے اندر اس کی ریڈر شپ زیادہ ہے
نیلم سری واستو ” ہندوستانی انگریزی ناول ” کے پوسٹ کالونیل دور میں ارتقاء کو زیر بحث لاتے اور اس کے قاری کی انگریزی بولنے والی ہندوستانی مڈل کلاس میں ہی پائے جانے کو ڈسکس کرتے ہوئے ” سیکولر ازم کی اشرافیائی وصف ” کو بھی زیر بحث لاتی ہے اور کہتی ہے کہ ” سیکولر ازم ” ہندوستان میں ایلیٹ کلاس کی عیاشی رہا تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور وہ اس بحث میں سب سے اہم دانشورانہ کردار ادا کرنے کا سہرا اشیش نندی معروف ہندوستانی ماہر تاریخ کے سر پر رکھتی ہے -اشیش نندی کے مطابق سیکولر ازم کے ہندوستانی انگریزی بولنے والی اپر مڈل کلاس نوعیت نے اسے بڑے پیمانے پر عوامی حلقوں میں ایک ” سیاسی آئیڈیل ” کے طور پر پھیلنے سے روک دیا اور اس کو مغرب سے درآمد کردہ ایک آئیڈیالوجی خیال کیا گیا جس کا عوام کے شعور پر بہت کم اثر پڑا اور اس کی نظریاتی سمت بھی عوام کی طرف بہت کم تھی
نیلم سری واستو یہاں پر اشیش آنندی کے اس مقدمے کو جو سیکولر ازم کو پاپولر نیشنل آئیڈیالوجی نہ بننے کے عمل کو ہندوستانی ایلیٹ کی ناکامی بتاتا ہے اطالوی مارکسی دانشور انیتنو گرامچی کی ” کاسمو پولٹن انٹلیکچوئل یا شہری دانشوروں ” پر تنقید سے ملاکر دیکھتی ہے اور اس تنقید کو درست بتلاتی ہے – انتینو گرامچی نے اٹلی کے اندر کتیھولک چرچ کے عوامی فکر پر تسلط کے جاری رہنے کی وجہ اطالوی شہروں کے دانشوروں کی سیکولر کلچر کے خیال کو عوام تک آسان طریقے سے ابلاغ کرنے میں ناکامی بتلائی تھی – نیلم سری واستو کے نزدیک ہندی میں ٹی وی سیریل ” رامائن ” کی مقبولیت اور پذیرائی انگریزی میں لکھے گئے ہندوستانی ناولوں تک ایک چھوٹے سے اربن مڈل کلاس طبقے تک رسائی میں فرق وہی ” ابلاغ ” کے میڈیم کا ہے – اشیش نندی کا اینٹی سیکولر ایلیٹ موقف فکر ونظر کے بہت سے گوشے وا کرتا ہے
نیلم سری واستو اس مرحلے پر پوسٹ کالونیل دور میں ریاستی سطح پر سیکولر بیانیہ کی تشکیل اور ہندوستانی ریاست کی سیکولر بنیادوں پر بھی بہت فکر انگیز روشنی ڈالتی ہے اور وہ اس حوالے سے یہ کہتی ہے کہ پوسٹ کالونیل دور میں سیکولر بیانیہ اصل میں ” نہروین سیکولر ازم ” کی تشکیل کا زمانہ کہا جاسکتا ہے اور یہ بیانیہ ایک جانب تو سیکولر تھا تو ساتھ ہی ساتھ یہ ” کاسمو پولٹن ” بھی تھا – یعنی اس بیانیہ کی جڑیں ہندوستان میں ریاستی سرمایہ داری سے جنم لینے والی اور ابھرنے والی بڑے کاسمو پولٹن شہروں کی اپر مڈل کلاس اور سیٹھوں کے اندر تھی جس کا لکھنا اور پڑھنا سب انگریزی میں تھا اور یہی وجہ ہے کہ نہروین سیکولر ازم ہندوستان کے اندر کاسموپولٹن ایلیٹ سماجی مظہر کے طور پر سامنے آیا
نہرو کا سیکولر ریاست کا وژن غیر مذھبی یا مذھبی مخالف ریاست کا نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر فرقہ وارانہ ریاست کا تصور تھا جس میں مذھبکی جگہ پبلک کی بجائے ” زاتی ” تھی – اروند گوپال نے ” نہروین سیکولر ازم ” کے تاریخی ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پوسٹ کالونیل دور میں نہرو نے ایک ایسی نیشن سٹیٹ کی تشکیل کرنے کی کوشش کی جس کی بنیاد کاسمو پولٹن سیکولر اپروچ پر تھی اور اس کو کامیاب کرنے کے لئے نہرو نے ریاستی سرمایہ داریت جس کی بنیاد منصوبہ بند ڈویلپمنٹل آئيڈیالوجی پر تھی اور یہ جو ریاستی منصوبہ بند معاشی ترقی تھی اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستانی اپر مڈل کلاس ، سول افسر شاہی ، سائنس دان ، انگریزی جرنلسٹس ، صنعت کاروں نے اٹھایا اور ان سب کا ابلاغ کا میڈیم اور زریعہ انگریزی زبان تھی اور اگر اسے ” متن ” کی روشنی ميں دیکھا جائے تو نہرو کی کتاب
ڈسکوری آف انڈیا اور ہندوستان کا آئین دونوں انگریزی میں تھے اور اسی نے پھر ہندوستانی سیکولر ازم کی اپیل اور کشش کو انگریزی پڑھنے ، بولنے والے غالب مگر اقلیتی گروپوں تک محدود رکھا
سیٹھ وکرم کا ناول
The suitable Boy
اس کاسموپولٹن کلاس اور ہندوستانی منصوبہ بند ریاستی سرمایہ داری کے درمیان جو رشتہ داری ہے کے ارتقاء پر روشنی ڈالتا ہے اور دکھاتا ہے کہ کیسے نہرو نے ” جاگیرداری ” کے خاتمے کے لئے زرعی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا لیکن سیٹھ وکرم اپنے ناول میں یہ دکھاتا ہے کہ کیسے ان اصلاحات کی روشنی ميں فائدہ صرف ہندوستانی میڈیم لینڈ ہولڈر کلاس کو ہوتا ہے اور الٹا اس اصلاحات کے میکنزم سے نچلی ذاتوں کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس کہانی میں چمار زات سے تعلق رکھنے والا لڑکا کیچرن کیسے زمین سے بے دخل کردیا جاتا ہے اس کا بیان بہت واضح ہے اور اسی ناول میں آگے چل اندرا گاندھی کی ایمرجنسی اور اس کے بعد کی کانگریس کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کی نشاندھہی کرتا ہے – یہ ناول ایسے دور میں شایع ہوا جب ایک طرف تو سیاسی منظر نامے پر بھارتیہ جنتا پارٹی چھائی ہوئی تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے ” رام مندر تعمیر تحریک ” شروع کی تھی اور یہ وہی دور ہے جب ایک طرف تو معشیت کی لبرلائزیشن کا عمل شروع ہوا تو دوسری طرف ہندوستانی مڈل کلاس اور بڑے کاروبار سے وابستہ سیٹھوں کی ہندؤتوا کی ائیڈیالوجی سے رومانس شروع ہوگیا اور اس زمانے میں خود کانگریس کے مقامی لیڈر تھے وہ بھی اسی ہندؤتوا کے اصل چمپئن بننے چل نکلے اور نیلم سری واستو کا کہنا ہے کہ سیاسی منظر نامے پر نہروین سیکولر ازم کا آؤٹ ہونا اور ہندؤتوا کا ان ہونا ، مقامی ریستوں میں بھی سیکولر سیاست کے مقابلے میں ” زات پات ” کی بنیاد پر سیاست کی مقبولیت سے پیدا ہونے والی سماجی صورت حال کی عکاسی ہندوستانی انگریزی ناولوں میں ہوتی ہے ، اس سلسلے میں نیلم سری واستو جہآں وکرم سیٹھ کے ناول ” دی سیوٹ ایبل بوائے ” کا حوالہ دیتی ہے وہیں یہ ” مڈنائٹ ز چلڈرن ” ” اے فائن بیلنس ” ” ڈی شیڈو لائنز ” وغیرہ کا حوالہ بھی دیتی ہے اور ان کا تفصیلی جائزہ لیکر یہ بتاتی ہے کہ ہندوستانی انگریوی ناول پوسٹ ایمرجنسی دور میں نہروین سیکولر ازم اور اس کے اجزائے ترکیبی ہندوستانی سماج کی تکثیریت ، جمہوریت ، انسانی حقوق کو ایک آدرش اور آئیڈیل کے طور پر پروجیکٹ کرکے اس کی واپسی کی خواہش کرتی نظر آتی ہے – نیلم سری واستو کہتی ہیں کہ پوسٹ کالونیل دور کا انگریزی ہندوستانی ناول اصل میں ” ریڈیکل انقلابی ” ڈسکورس کی بجائے ” ریفارمسٹ ڈسکورس ” کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے
ہندوستانی کاسموپولٹن انگریزیت کا حامل اشرافیائی نہروین سیکولر ازم جس قسمت کا شکار ہوا کہیں اسی قسمت کا شکار بنگلہ دیشی سیکولر ازم تو نہیں ہونے جارہا کیونکہ جس طرح سے ہندوستان ميں تین اہم ترین سیکولر انٹلیکچوئل مارے گئے اور بنگلہ دیش میں چار بلاگر سیکولر ازم کے حق میں لکھنے کی بنا پر مارے گئے اور ان کے قاتلوں کے خلاف ہندوستانی اور بنگلہ دیشی عام جنتا کے اندر وہ احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا جتنا اشتعال اور احتجاج ہمیں ہندؤتوا اور مسلم بنیاد پرستوں کی مذھبی جنونیت پر مبنی مہم کے دوران ملتا ہے – پاکستان میں سلمان تاثیر کا قتل ہو کہ جمشید نایاب کا قتل اور اس پر سوائے اپر مڈل کلاس کی ایک چھوٹی سی کاسموپولٹن دانشور پرت کے کہیں اور احتجاج اور تحریک نظر نہیں آئی اس کی ایک وجہ سیکولر ازم کا
Elitist nature
سے لتھڑا ہوا ہونا بھی ہے – پاکستان کے اندر پوسٹ کالونیل دور اور 80ء کی دھائی کے آخر سے انگریزی ميں ناول لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی ہے اور بجا طور پر پاکستانی انگریزی ناول نگاروں کی تخلیقات تک رسائی زیادہ تر اپر مڈل کلاس تک ہی ہے اور ” پبلک ” یا عام آدمی جو مقامی بھاشاؤں میں بولتا ہے اس تک ان ناولوں کی سیکولر فضا پہنچی ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاں تو اردو کا قاری سیکولر فضا میں گندھے ہوئے اردو ناولوں سے بھی بہت دور ہوگیا ہے اور آج اس پر سحر اردو میں بنیاد پرستانہ مذھبیت زدہ رومانویت میں گندھے ناولوں کا طاری ہے اور اس فہرست میں ہم ” عمیرہ احمد ، ندیم ہاشم ” اور دیگر کو رکھ سکتے ہیں اور زیادہ اگر کوئی اوپر جائے تو وہ اشفاق احمد ، بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی کی مرتاض مذھبیت تک ٹھہر جاتا ہے
ہندوستانی سماج پر تاریخ طور پر ایک فرضی قسم کے پوتر آریائی کلچر کی دریافت اور اس کے تسلط کا بخار چڑھا ہوا ہے تو بنگلہ دیش و پاکستان میں مذھب کے صاف و شفاف سرچشمے کی تلاش کا جنون ہے ایسے میں روشن خیالی ، خردافروزی ، سیکولر ازم ابھی تک خود کو ” اشرافیائی ابلاغ ” سے الگ نہیں کرپارہا ، پاپولر کمیونیکشن کی ضرورت ہے جس کے آثار فی الحال تو نظر نہیں آتے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں