صہیونی شاطر کی مشرق وسطٰی میں اگلی چال۔ اسد عباس تقوی

بوڑھا برطانوی سامراج آج سے بہت عرصہ قبل ایشیاء کے مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے، تاہم اس کی چلی ہوئی چالیں آج دہائیاں گزرنے کے بعد ایک ایک کرکے منصہ شہود پر آرہی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کیا تو یہاں مسئلہ کشمیر کی صورت میں ایک وجہ نزاع چھوڑ گیا، تاکہ اگلی دہائیاں حتٰی کہ صدیاں یہ آزاد ریاستیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں رہیں۔ اپنے وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں، جنگ کا میدان ہمیشہ گرم رہے۔ اسی طرح مشرق وسطٰی میں بھی اس نے ایسے ہی تنازعات قائم رکھے۔ سب سے بڑا تنازع غدہ سرطانی یعنی اسرائیل کا وجود تھا۔ مشرق وسطٰی میں کردوں کا مسئلہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے۔ کرد قوم کو برطانوی سامراج نے چار ریاستوں میں تقسیم کیا۔ اس وقت کرد ترکی، عراق، ایران اور شام میں آباد ہیں۔ عراق میں کردوں کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔ کردوں کی اپنی پارلیمان ہے، اپنا صدر ہے، وزارتیں اور مسلح افواج ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا سکہ بھی عراقی سکے سے مختلف ہے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے کرائے گئے ایک امن معاہدہ کے تحت وہ صدام کی تیل سے حاصل ہونے والی  آمدنی سے 17 فیصدحاصل کرتے رہے۔ اس کے باوجود آج اچانک سے ان کا احساس محرومی بیدار ہوچکا ہے، جبکہ انہیں معلوم ہے کہ عراق میں قائم ہونے والی نئی حکومت اس وقت داعش کے خطرے  سے نمٹ رہی ہے، ایسے میں کردوں کی جانب سے آزادی کا نعرہ بلند کرنا معاشرتی محرومی نہیں بلکہ عالمی سازش کا عندیہ دیتا ہے۔

عراق میں کرد کل آبادی کا قریباً دس سے بیس فیصد ہیں، ایران میں کرد قریباً دس فیصد، ترکی میں قریباً پچیس فیصد اور شام میں کرد کل آبادی کا تقریباً نو فیصد ہیں۔ اپنی کل آبادی جو تقریباً تیس ملین بتائی جاتی ہے، کے تناسب سے اڑتالیس فیصد کرد ترکی میں، اٹھارہ فیصد عراق میں، چوبیس فیصد ایران میں اور چار فیصد شام میں آباد ہیں۔ اس نسل کے حقیقی ماخذ کے بارے وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے، تاہم جن علاقوں میں یہ قوم آباد ہے، وہاں کے مقامی افراد سے مختلف نسل کے حامل ہیں۔ خود کردوں کی اپنی روایات کے مطابق وہ ایرانی الاصل ہیں۔ اس نسل کی شکل و صورت، عادات و اطوار، رنگ و زبان اپنے رہائشی ممالک کے لوگوں سے مختلف ہے۔ تقریباً سبھی کرد، کردش زبان بولتے ہیں، جس کے مختلف لہجے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے کرد مسلمان، علوی، یزدی، یہودی اور عیسائی مذاہب کے پیروکار ہیں۔ اس قوم کا اپنے اپنے علاقوں کی حکومتوں سے ہمیشہ تنازع رہا۔ ترکی میں کرد ترک حکومت کے خلاف ایک عرصہ تک برسر پیکار رہے، اب بھی الگ سیاسی شناخت کے حامل ہیں۔ ایرانی کرد بھی صدام دور میں اپنی حکومت کے خلاف عراقی افواج کا ساتھ دیتے رہے۔ عراقی کردوں نے اس کے برعکس ایرانی حکومت کا ساتھ دیا۔ علویوں کے زیر تسلط کرد بھی اسی طرح اپنی حکومت کے لئے درد سر بنے رہے۔

کردوں اور ان کی علاقائی حکومتوں کے معاملات گذشتہ دہائیوں میں جیسے تیسے چلتے رہے، تاہم اپنے مخصوص کلچر، زبان، عادات و اطوار اور فکری ساخت کے سبب یہ لوگ کبھی بھی ریاستی ڈھانچے میں مدغم نہ ہوسکے بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنی انفرادی شناخت کو برقرار رکھا۔ کردوں کا علاقہ مختلف ممالک کا حصہ ہونے کے باجود باہم متصل ہے۔ جس کے بارے میں عظیم کردستان کی اصطلاح مستعمل ہے۔ کردستان میں بعض تنظیمیں اپنی قومیت، زبان اور نسلی انفرادیت کی بنا پر ایک آزاد ریاست کے قیام کی بات بھی کرتی ہیں۔ دہائیوں پر محیط عراق و کرد تنازع کے بعد 1970ء میں عراقی کردوں کو خود مختار علاقے کا درجہ دیا گیا، جس کی 2005ء میں دوبارہ توثیق کی گئی۔ عراقی حکومت اور افواج کی داعش کے خلاف مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مسعود بارزانی نے موقع کو غنیمت جانا اور کرد علاقوں کی مکمل آزادی اور ایک مستقل ریاست کے قیام کی بات کر دی۔ مسعود بارزانی کا کہنا ہے کہ ہمارے حقوق کا تحفظ آزادی سے ہی ممکن ہے، اگرچہ اس وقت وہ جنگ کے حق میں نہیں ہیں اور مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، تاہم ان کا یہ اقدام عراق میں ملکی وحدت کے خلاف اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے اعلان، انعقاد کے حوالے سے نہایت سخت موقف اختیار کیا ہے اور عراقی وزیراعظم سے درخواست کی کہ وہ ان علاقوں میں فوجی کارروائی کریں۔ عراق میں جاری داعش کے خلاف جنگ کے دوران میں کردوں نے تیل سے مالا مال علاقے کرکوک پر قبضہ کیا اور مالی مشکلات کے حل کے لئے تیل کو ترکی کے راستے برآمد کرتا رہا۔

خطے کے اہم ممالک اور عراقی حکومت کی جانب سے مخالفت کے باجود گذشتہ ماہ کردستان میں رائے شماری کروائی گئی اور نتائج کے مطابق عراقی کردوں کی 92 فیصد آبادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ مسعود بارزانی کے مطابق اس رائے شماری سے مراد آزادی نہیں بلکہ حکومت کے اس مینڈیٹ کا اعلان ہے کہ وہ مکمل آزادی کے لئے عراق کی حکومت سے بات کرسکتی ہے۔ عراق میں ہونے والے اس ریفرنڈم پر عراق سمیت ترکی، شام اور ایران میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ،کیونکہ عراق میں کامیابی کی صورت میں آزادی کا شعلہ دیگر کرد علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ترک صدر طیب اردغان نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ عراقی کرد یا تو آزادی کی بات چھوڑ دیں یا پھر بھوکے رہنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ انہوں نے مسعود بارزانی کے اقدام کو غداری کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ انہیں اپنی مہم جوئی کو ترک کر دینا چاہیے۔ عراقی وزیراعظم نے بھی تین روز قبل کرد حکومت کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ کرد علاقوں میں قائم ہوائی اڈوں کا انتظام اور سرحدی چوکیاں عراق انتظامیہ کے حوالے کر دیں، نیز یہ کہ تین روز کے اندر اندر پیشمرگہ کو کرکوک اور تیل کے ذخائر سے مالا مال عراقی علاقوں سے واپس بلایا جائے۔ طیب اردوغان نے کہا کہ ترکی بارزانی کی حکومت پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ختم ہو جائے گا، اگر ہم تیل کے نلکے بند کر دیں تو ان کی آمدن غائب ہو جائے گی اور اگر ہمارے ٹرک شمالی عراق جانا بند کر دیں تو انہیں خوراک نہیں ملے گی۔ کرد حکام کے مطابق 2017ء کے پہلے چھ ماہ میں کے آر جی اور ترکی کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا ہے اور عراق سے بذریعہ ترکی روزانہ لاکھوں بیرل تیل بحیرہ روم پہنچ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہتے ہیں کہ شر میں بھی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ داعش کے خلاف جنگ جس نے خطے کے اہم ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر دیا تھا، کے خاتمے پر اور کرد آزادی کے نعرے نیز ریفرنڈم کے سبب یہ ممالک ایک مرتبہ پھر یک جان ہونے لگ پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں ترکی کی اعلٰی سطحی قیادت کے ایران و عراق کے دورے اسی امر کی غمازی کرتے ہیں۔ ایسے میں خطے کے امن کے حقیقی دشمن اسرائیل اور مغربی طاقتیں داعش کے بعد اپنے اگلے مہرے یعنی کردوں کی ہلہ شیری کر رہی ہیں، تاکہ ایک مرتبہ پھر علاقے میں ایک داخلی جنگ کا آغاز کیا جاسکے۔ اسرائیلی قیادت نے کردستان میں ریفرنڈم کی حمایت کی، یقیناً وہ اس سلسلے میں عملی مدد بھی جاری رکھے گا۔ بہرحال اس وقت کرکوک کے علاقے میں پیشمرگہ اور عراقی فورسز کے مابین ہلکی ہلکی جھڑپوں کا آغاز ہوچکا ہے، جو کسی بھی وقت کرکوک کی آزادی کی جنگ میں بدل سکتا ہے۔ طیب اردوغان نے درست کہا کہ مسعود بارزانی کو مہم جوئی سے باز آجانا چاہیے، ورنہ یہ خطہ ایک نئی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جس میں نقصان بہرحال خطے کے عوام کا ہی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply