بجٹ اور عام آدمی/مظہر اقبال کھوکھر

پوچھا بجٹ آیا ہے۔ ہم جیسے عام لوگوں کے لیے اس میں کیا خاص ہے؟ میں نے کہا حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تیس سے پینتیس فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس نے پھر پوچھا جو لاکھوں لوگ پرائیویٹ ملازمتیں کرتے ہیں یا جو عام مزدور اور دیہاڑی دار لوگ ہیں ان کا کیا ہوا۔ میں نے کہا حکومت نے کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کر دی ہے۔ وہ بولا گزشتہ سال جو کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے کی گئی تھی۔ اس پر کتنا عمل درآمد ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس میں کوئی شک نہیں اعلان کرنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ہماری حکومتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعلانات کی بھوک نہیں دیتیں۔ لیکن اگر محض اعلانات سے بھوک ، غربت ، بے روزگاری کا خاتمہ ہو جاتا، مہنگائی ، گرانی اور لوٹ مار مافیا سے نجات مل جاتی اور اعلانات سے اگر معیشت مضبوط ہوسکتی تو آج ہم دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط ، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک ہوتے۔ مگر کیونکہ اعلانات محض اعلانات ہی ہوتے ہیں اس لیے ہر دور میں پیش کئے جانے والا عوام دوست بجٹ کبھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا۔ حکومت کے تمام تر دعوے اپنی جگہ مگر عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں ، آئی ایم ایف سے کتنی امداد ملنی ہے ، بیرونی قرض کتنا ہے ، نہ اسے بجٹ کے حجم سے غرض ہے نہ وہ بجٹ خسارہ جاننا چاہتا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ تو دو وقت کی روٹی ہے وہ جاننا چاہتا ہے آٹا ، گھی اور چینی کی قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی وہ جاننا چاہتا ہے بھوک غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ اس بجٹ کے بعد کیا ہسپتال میں اس کا مفت علاج ہو پائے گا اور کیا ادویات خریدنے کے لیے کپڑے تو نہیں بیچنے پڑیں گے۔ مگر اس کا جواب کبھی بھی کسی بھی حکومت نے نہیں دیا کیونکہ اس کا جواب اگر ہوتا تو دو جمع دو چار ہوتا مگر یہاں اعداد و شمار کا ایسا ہیر پھیر ہے کہ چنگا بھلا بندہ بھی چکرا جاتا ہے۔
جہاں تک حکومت کے بجٹ ریلیف کا تعلق ہے۔ اس کی حالت اس شخص جیسی ہے۔ موسم خوشگوار ہوا تو وہ اپنے دوست سے بولا۔۔ یار آج دل کر رہا ہے کہ باسمتی چاول ہوں ، شکر یا چینی ہو اور خالص دیسی دودھ ہو اور ان سب کو مکس کر کے كهیر پکائی جائے اور اسے رات کو فریج میں رکھ دیا جائے اور صبح اٹھ کر انگلی سے کھیر کھائی جائے۔ دوست نے پوچھا ان سب چیزیوں میں سے تیرے پاس کیا ہے۔ تو اس نے جواب دیا میرے پاس صرف انگلی ہے۔ اس وقت ہماری حکومت کے پاس بھی صرف آئی ایم ایف کی انگلی ہے۔ حکومت نے تنخواہیں بھی بڑھا دیں ، پنشن میں بھی اضافہ کر دیا ، ممبران پارلیمنٹ کی ترقیاتی سكیموں کے لیے 90 ارب بھی رکھ دئے ، لیپ ٹاپ سكیم کے لیے 10 ارب اور یوٹیلٹی سٹور کے لیے 35 ارب کا اعلان بھی کر دیا اور بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے 450 ارب کا اعلان ہوگیا مگر ہر دعوی ہر اعلان بلکہ پورے کا پورا بجٹ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا جو کہ پچھلے 10 ماہ سے التواء کا شکار ہے۔ تو پورے بجٹ کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا کیونکہ بیرونی ادائیگیاں صرف اسی صورت ممکن ہیں جب آئی ایم ایف سے اڑھائی ارب ڈالر کی قسط مل جائے۔ یہی وجہ ہے وزیر اعظم نے گزشتہ روز کہا تھا امید کرتے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ رواں ماہ معاہدہ ہوجائے گا۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا تو وہ قوم سے خطاب کریں گے۔ یقینی طور پر وہ قوم سے قربانی مانگیں گے۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے۔ کبھی یہ ہوتا تھا کہ اپوزیشن حکومت پر تنقید کیا کرتی تھی۔ کہ بجٹ آئی ایم ایف کی خواہش کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جبکہ حکومت اس کی تردید کیا کرتی تھی بہت حد تک آئی ایم ایف کے معاملات کو چھپایا جاتا تھا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ اعلانیہ طور پر کہا جاتا ہے آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔ تمام اعداد و شمار عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ شیئر کئے گئے ہیں۔ امید کرتے ہیں آئی ایم ایف معاہدہ کرنے کے لیے راضی ہوجائے گا۔ اور قرض کی قسط جاری کر دے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قرض اتارنے کے لیے بھی ہمیں قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اور ہم آئی ایم ایف کے بغیر چند قدم بھی نہیں چل سکتے مگر سوال یہ ہے کہ اس میں عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ معاشی بد حالی کی سزا عام آدمی کو کیوں دی جارہی ہے۔ حکمرانوں کی نظر میں بھلے متوازن بجٹ ہے مگر عام آدمی کی زندگی غیر متوازن ہو چکی ہے۔ وہ کھانے پینے کی اشیا پوری کرتا ہے تو دوائی کے پیسے پورے نہیں ہوتے، ادویات خریدتا ہے تو بچوں کی فیس کے پیسے نہیں بچتے ، فیس دیتا ہے تو گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل چیخیں نكلوا دیتا ہے کاش! کوئی بجٹ عام آدمی صرف عام آدمی کو مد نظر رکھ کر بھی بنایا جائے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply