جوتے ۔۔مظہر حسین سید

آج    کیفے  کی نشست بہت  گرم تھی ۔۔ایک سیاستدان کو جوتا کیا پڑ گیا تھا  ،   لگتا  تھا کہ بھونچال آ گیا ہے  ۔

ایک دوست نے “جوتا کلب”  میں نئے رُکن کی شمولیت پر  مبارکباد دی   اوریوں  اس ہنگامہ خیز نشست  کا باقاعدہ آغاز ہو گیا  ۔

حیرت اس بات پر تھی کہ وہ لوگ بھی اس   “جوتازنی”   کی مخالفت کر رہے تھے   ، جن کی ساری زندگی جوتے کھاتے گذری تھی  ۔     وہ شاید یہ سمجھتے تھے کہ اُن کے پاس کھانے کے لیے صرف جوتے ہی بچے ہیں اگر یہ بھی حکمران  کھا لیں گے تو وہ کیا کھائیں گے  ۔

دوسری طرف   ” حامیانِ جوتا”   کا مؤقف بھی بہت جاندار تھا  کہ جب  “جوتا بازی”  کا کھیل عالمی سطح پر  مقبولیت  حاصل کر چکا ہے تو اسے  قومی سطح پر کیوں نہ فروغ دیا جائے  ۔

گفتگو کے اس تسلسل کو قلم بیچنے والے  ایک نوجوان نے توڑ دیا   ۔ وہ پھٹے گریبان  اور بکھرے بالوں کے ساتھ نہ جانے کب سے کھڑا  گفتگو سُن رہا تھا   ۔

بابو صیب یہ لوگ سیاستدانوں کو جوتے کیوں مارتے ہیں   ؟  اُس نے  دانشور بننے کی کوشش کی  ۔

ارے بھئی لوگ تنگ آئے ہوئے ہیں  جوتے نہیں ماریں گے تو اور کیا کریں گے    ۔ تُم کیا کرو گے اگر تمہارے سامنے کوئی   حکمران آ جائے تو  ؟   انصاری نے اُسے غصے سے جواب دیا   ۔

نہیں صیب میں جوتا نہیں ماروں گا  ؟   اُس کی آواز میں ایک گمبھیرتا تھی   ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دفعتاََ میری نظر اُس کے پاؤں کی جانب اُٹھ گئی اُس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے  ۔

Facebook Comments

مظہر حسین سیّد
شاعر نثر نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جوتے ۔۔مظہر حسین سید

Leave a Reply