حرام اِن حرام آؤٹ۔روبینہ فیصل

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پہلے مغربی پاکستان کے عوامی سیاسی لیڈر بھٹو نے سکندر مرزا (آرمی پلس بیورکریسی) اور ایوب خان(آرمی) کو بالترتیب قائد اعظم سے بڑا لیڈر اور ڈیڈی کہہ کرسیاست کا آغاز کیا (بھٹوزمانہ اور نبض شناس تھے، آتے ہی سمجھ گئے تھے کہ ا ن دو حلقوں نے پاکستان کی سیاست کا حلقہ سیاستدانوں کے گرد تنگ اور اپنے لئے کھول رکھا ہے) ۔  بعد میں جن سوشلسٹس کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی یعنی عوام کی پارٹی بنائی انہی کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا بھی اور ان سے راہیں بھی جدا کر لیں۔
پھر عوامی لیڈر تھیں محترمہ بے نظیر بھٹو، جو باپ کی پھانسی کی رسی جواُسی اسٹبلشمنٹ نے اُس کے باپ کی گردن میں تنگ کی تھی، کو تھام کر، عوام کے دلوں کی ملکہ بنیں،انہوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا،اپنے دور ِ حکومت میں اپنے بھائی کے قتل کو بڑی جوانمردی سے پی گئیں۔ اسی دوران ان کے شوہر آصف علی زرداری دونوں ہاتھوں سے ملک کی دولت کو لوٹتے اور لوٹاتے رہے۔اور بالاخر بے نظیر کو زلفی بابا کے پاس بھیج کر زرداری جس کو عوام ایک ووٹ نہ دیتی ایک پر چی کے سہارے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا بن گئے اور آج سینہ تان کر فرماتے ہیں  “جب میں چاہوں گا تب ہی الیکشن ہو ں گے۔”
ہماری عدالتیں جو کبھی نظریہ ضرورت کے لئے مشہور تھیں، آج نظریہ تاخیر کا استعمال کر کے پاکستان کی تاریخ کا منہ مزید تاریک کر رہی ہیں۔عوام کو اپنی رائے رکھنے کے جر م میں ننگی ریاستی دہشت گردی کے آگے پھینک کر آئین آئین کھیل رہی ہیں۔
 پھر آجائیں نواز شریف کی طرف۔۔میاں شریف کے کاروبار میں نکمے بچے کو جب جنرل غلام جیلانی جو اس وقت کے گورنر پنجاب تھے، کے حوالے کیاجو کہ اس سے پہلے کر کٹ اور ایکٹنگ کے شعبوں سے بھی ناکام ہوچکا تھا۔ مگر جنرل نے اس نکمے کو اچک لیا کہ انہیں ایسے ہی نہلے نونہالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی شریف خاندان نے  لنگوٹیں کس کر جنرل کی مدد سے  پاکستان کی” فوجی سیاست “میں چھلانگ لگا دی اور صرف ایک نواز نے ہی نہیں سارے شریفوں نے پاکستان کے سیاسی تالاب میں تیراکی سیکھنی شروع کردی۔
 سارا  شریف ٹبر تو تیراکی سیکھ گیا مگر اس چکر میں تالاب، جوہڑ بن گیا۔ اب اس جوہڑ میں جو بھی اجلا چہرہ لے کر آنے کی کوشش کرتا ہے اسے یہ سب(بھٹو کے وارثین اور شریفوں کے تارکین۔) مل جُل کر وہاں سے بھگانے میں لگ جاتے ہیں۔
 اس اپاہج جمہوریت میں نواز شریف تیسرا عوامی لیڈر بنا جو تین دفعہ حکومتوں میں آیا اور تین دفعہ بھاگا مگر وہ اس سارے عمل سے یہ سیکھ نا پایا کہ جس طاقتور بلا نے بھٹو اور بے نظیر کو زندہ نہیں رہنےدیا،حکومتوں کو اپنی منشا سے کبھی گرایا کبھی اٹھایا، وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو ان کا آلہ کار نہ بنے۔۔ مگر نالائق لوگ کب حادثات کے تھپیڑوں سے کچھ سیکھتے ہیں؟ بلکہ مل جُل کر ان حادثات کا باعث بننے لگتے ہیں۔
 ایک اور عوامی لیڈر عمران خان پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ابھرتا ہے۔ وہ کسی فیوڈل، کسی صنعتکار کسی سرمایہ کار کا بیٹا نہیں۔ نہ اس کا باپ ذوالفقار علی بھٹو ہے جس کی پھانسی، اس کی آنے والی نسلوں کو پاکستان پر مسلط کر دے، نہ اس کا باپ میاں شریف ہے جس کی فیلتھی دولت پورے نظام کو کسی مافیا کی طرح خریدسکے۔ وہ عمران خان ہے ایک عام سے خاندان کا چشم و چراغ، جس نے کھیل، سوشل ورک، سیاست سب میں اپنی ذاتی محنت سے اپنے آپ کو بونوں کی بستی میں گولیور بنایا۔
پچھتر سالہ نظام، جس میں پاکستانی سیاست میں ملٹری اور بیورکریسی اسٹیبلشمنٹ ہی اپنا کھیل کھیلتی اور مہرے چلا تی ہے،جس کو ہمارے ہی پرانے سیاستدانوں (بھٹو سے لے کربلاول تک)  نے مضبوط کیا ہے۔ اس سارے گھناؤنے اور گنجلک کھیل میں جب پچیس سال تک انفرادی جد و جہد کر نے والے عمران خان کو فقط ایک دفعہ، عوام کی حقیقی سپورٹ سے حکومت میں آنے کا موقع ملا تو یقین مانیے پہلے دن سے ہی اس پر نہ صرف سیاسی مخالفین نے بلکہ ان سب صحافیوں اور دانشوروں نے بھی اپنی اپنی بندو قیں تان لیں جو، بظاہر عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے شاہی جمہوریت ( دو شاہی خاندانوں اور ملٹری بیوروکریسی اسٹبلشمنٹ کی وجہ سے، پاکستان کی جمہوریت شاہی ہی تو ہے) کی بجائے عوامی جمہوریت کی بات کر تے تھے، انسانی حقوق کی بات کرتے تھے، فیمینزم کا پرچار کرتے تھے۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان سلیکٹڈ تھا تو بتا نا یہ ہے کہ ایک سیلف میڈ انسان کے بغض اورحسد میں ان سب عالم فاضلوں کی میموری سلیکٹڈ ہو چکی ہے۔ یہ بھول گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں اس قدر کنڑول کس وجہ سے ہے۔ کو ن کون سے سیاستدان ان کی یو ٹرس سے نکل کر جنمے ہیں۔ کیا دو دن میں عمران خان جیسا انسان جس کے پاس اپنی قابلیت، شہرت، نیک نامی اور ذہانت کے علاوہ کسی باپ کی کوئی سیاسی وراثت یا گندی دولت نہیں تھی، اس نظام کو بدل سکتا تھا؟۔ مگر نہیں اس حقیقت کو سمجھنے کی بجائے اور اس کا ساتھ دینے کی بجائے، پہلے دن سے ہی اس پر یلغار کر دی گئی۔
 وہ پھر بھی، اپنے ملک، اپنے لوگوں کے لئے بے غرضی سے لگا رہا۔ عوام کی صحت، تعلیم، روزگار اور روٹی پر، فوکس رکھا۔ ساڑھے تین سالہ دور ِ حکومت میں دو سال کر ونا  رہا جس  میں ساری دنیا الٹ پلٹ ہو چکی تھی۔ ایسے مشکل وقت میں بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی عوام کو بھوکوں نہیں مر نے دیا۔ مگر تُف ہے ان صحافیوں پر، ان دانشوروں پر جو زر خرید ہیں، دو خاندانوں اوراداروں کے، انہوں نے صرف اپنی نسل کو خوشحالی دینے کے لئے کروڑوں پاکستانی بچوں کے مستقبل سے اور پاکستان کی معشیت سے تاریخ کا بدترین کھلواڑ کیا۔ کوے کو سفید کر کے دکھاتے رہے اور شاہین کو چڑیا بناتے رہے۔ وہ شاہین لوگوں کے دلوں پر راج کر نے لگا ہے۔ سوچیئے آج تک کس  پاکستانی لیڈر کی خاطر عام لوگ یوں جانوں پر کھیل گئے؟ قید و بند میں صعوبتیں سہہ کر بھی اپنے لیڈر سے پیار کرتے رہے۔ خوف سے انہیں وقتی طور پر دبایا تو جا رہا ہے مگر صدیوں پر پھیلی اپنے لیڈر سے یہ محبت آپ سے ختم نہیں ہو سکتی۔۔۔ مان جائیے۔
اسٹیبلشمنٹ تو خریدار ہے، آقا ہے۔۔ اس پر تو  دو حرف بنتے ہی ہیں مگر میرے نزدیک ان سے بھی بڑا مجرم ہمارا دانشور، ہمارا صحافی ہے۔ یہ طبقہ کسی بھی معاشرے کا واچ ڈاگ ہو تے ہیں۔ اگر یہ راتب کھا کرغافل رہیں اور اٹھ کر وہی بھونکنا شروع کر دیں جو ان کے آقا اشارہ کریں تو معاشرے اسی تنزل کا شکار ہو تے ہیں جو ہم اس وقت پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔
صحافیوں کے جتھوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حرام کھا کھا کر ان میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ کسی بھی قوم کی دانش زندہ رہے تو معاشرے مردہ نہیں ہو تے۔ ہمارا مردہ معاشرے اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ مکمل مردہ ہوچکا ہے۔
آپ سیاسی، نظریاتی، معاشی، معاشرتی  سطح پر کسی سے بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں مگر کسی ایک انسان پر جتھے بنا کر حملے کرنا،اور جب اس پر اور اس کے کارکنوں پر ریاستی جبر کی، تشدد کی بدترین مثالیں قائم ہو رہی ہوں، چادر اور چار دیواری کو روندا جا رہا ہو، عورتوں کو ناجائز قید خانوں میں بند رکھا جا رہا ہو، اس کا ساتھ دینے والے لکھاریوں کو، کارکنوں کو، بلکہ عام شہریوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہو یہاں تک کے، خان کے حامیوں کو قتل اور اغوا  کر کے غائب کیا جا رہا  ہو۔۔ایسے میں ہمارا تمام کا تمام دانشور طبقہ جبر کی سہولت کاری کر نے میں مصروف ہے اور یہ لوگ ایسے کڑے وقت میں گدھے گھوڑے بر ابر کر نے پر لگے ہو ئے ہیں۔
میں نے انقلابوں کی تاریخ پڑھی ہے، میں نے پاکستان کی تاریخ پڑھی ہے، میں نے دانشور طبقے میں اتنی گراوٹ، اتنی بے ضمیری کہیں نہیں پڑھی۔ بلکہ یہ وہ طبقہ ہو تا ہے جو  معاشروں میں تبدیلی لانے کا باعث بنتا ہے، جو سٹیٹس کو کے خلاف انقلاب کی طرفداری کرتا ہے کیونکہ کوئی بھی خالص پڑھا لکھا انسان ہمیشہ معاشرتی نا انصافی  اور ریاستی جبر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اوراس کوللکارے بغیر دانشور تو کیا انسان بھی نہیں ہو سکتا، کجا ہمارے دانشور تبدیلی اور انصاف کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
عام مرد و حضرات بلکہ بچوں پر جو ریاستی جبر اور تشدد ہو رہا ہے اس پر ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ ظالم کی مذمت کر نے کی بجائے اس کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ لوگوں کو ظالم کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور مظلوم کی مسلسل مذمت کر رہے ہیں۔
عمران خان ایک درد ِ دل رکھنے والا نیک انسان ہے۔ اس نے پاکستان کی عوام کے ساتھ کیا بُرا کیا ہے؟ اس نے پاکستان کا سر دنیا میں بُلند کیا ہے، کئی مقامات پر اس کے نام کی وجہ سے پاکستان کی پہچان بنی ہے۔ آپ سب مل کر اسے توڑ رہے ہیں؟ کس کے لئے؟
ایک انسان جتنا بھی بِک جائے، کیا وہ اتنا بِک سکتا ہے؟ یہ بات میرے لئے انتہائی حیرت اور صدمے کا باعث ہے۔ آپ سیاست میں، سوشل ورک میں، جمہوری مزاج میں، انسانی حقوق کے تحفظ میں، عورتوں کو صحیح معنوں میں حقوق دینے میں۔۔کسی جگہ عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکے تو اس کو اوچھے ہتھکنڈوں سے تباہ کر نا چاہتے ہیں۔۔ آپ اس کی کردار کشی کی بجائے ملکی حالات تو دیکھئے اور ایک لمحے کے لئے اپنے اندر یہ تخم تو پیدا کیجئے کہ غلط کو غلط کہہ سکیں۔۔۔
 یاد رکھئیے حرام اِن حرام آؤٹ۔
میری یہ بات یاد رکھئے!تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان مظلوم اور بے بس لوگوں کی بددعائیں آپ کے بچوں کو بھی تباہ کر دیں گی جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے سوچنے کا گناہ کر رہے ہیں،اپنے ملک میں آزاد شہری کی طرح جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔انہیں ریاست غلام بنا رہی ہے اور آ پ جیسے دانشوراس کی جے جے کار میں مصروف ہیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply