مذہب اور باطنی علوم /انور مختار

روحانیت سے تعلق رکھنے والے لوگ صدیوں سے انسانی جسم میں موجود مختلف قوتوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کا استعمال بھی بتاتے آئے ہیں لیکن ہم ان کو غیر حقیقی قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ روحانیت جن باتوں کی نشاندہی صدیوں پہلے کر آئی آج کی سائنس اسے ہی ثابت کر رہی ہے۔ آج دنیا میں ہر طرف مراقبہ یا میڈیٹیشن پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ آج طب یہ ثابت کر رہی ہے کہ جو لوگ باقاعدہ میڈٹیشن کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر زندگی گذارتے ہیں اور کئی بیماریوں سے محفوظ بھی رہتے ہیں۔

میڈیٹیشن روحانی دنیا میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور صدیوں سے کی جا رہی ہے۔ چند سال قبل ماہرین طب نے اس کی افادیت بیان کی تو دنیا دیوانوں کی طرح اس کی طرف راغب ہو گئی۔ روحانی دنیا میں انسان صرف ہڈیوں اور گوشت کا ٹکڑا نہیں بلکہ کائنات کو تسخیر کرنے والی مخلوق ہے جب ہم آسمانی صحائف اور آخری کتاب قرآن پاک کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو اللہ کی کتاب تفکر کا حکم دیتی ہے۔ تفکر سے مراد یہ ہے کہ تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کیا جائے۔ مذہب کا دوسرا اہم ترین رکن صلوٰۃ ہے اور لفظ صلوٰۃ ایک جامع اصطلاح ہے۔ صلوٰۃ کا ترجمہ ہے ربط قائم کرنا۔ ربط قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ذہنی تفکر کے ساتھ بندہ کا تعلق قائم ہو جائے۔ ذہنی تفکر (Concentrations) مراقبہ ہے۔

مراقبہ کو کسی نشست یا طریقہ کار سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ مراقبہ ایک ذہنی کیفیت یا ذہنی فعل ہے۔ دین نے اعمال و ارکان کا جو نظام ترتیب دیا ہے۔ اس میں ظاہری اور باطنی دونوں واردات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ہر رکن اور ہر عمل کی ایک ظاہری شکل و صورت ہے اور دوسری باطنی یا معنوی کیفیت ہے ان دونوں اجزاء کا ایک ساتھ موجود ہونا ضروری ہے مذہبی ارکان و فرائض کے ذریعے جس باطنی کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی انتہا مرتبہ احسان (مراقبہ) ہے۔ محمد الرسول اللہ نے باطنی کیفیت کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی ہے۔ “جب تم صلوٰۃ میں مشغول ہو تو یہ تصور کرو کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔” ارکان مذہب کے باطنی وصف (تفکر) کے ذریعے کوئی شخص بالآخر’’صفت احسان‘‘ کو حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی اسے ذات باری تعالیٰ کا عرفان نصیب ہو جاتا ہے (اسلامی تصوف کا خلاصہ )
دنیا میں تمام علوم، فلسفہ اور سائنس کی بنیاد عقل وخرد پر ہے اور یہ سب عقل کی بنیاد پر ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام علوم کثرت کے دائرہ میں آتے ہیں اور انسانی عقل بھی صرف کثرت میں رہ کرہی کام کرسکتی ہے۔ اسکے برعکس مالکِ کل کثرت سے مبرّا ہے، وہ وحدت، احد کی صورت ہے لہٰذا اس سے متعلقہ علم یا روحانیت کی بھی وہی صورت ہے۔ کثرت کی دنیا میں محیط انسانی علم اور عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی مذاہب روحانیت یا ماورائی علوم کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں روبینہ نازلی صاحبہ اپنی کتاب “علم الانسان” میں لکھتی ہیں کہ “سائنسدان عرصہ دراز تک مادی جسم کو ہی ً انسان ً قرار دیتے رہے۔ وہ صدیوں سے یہی کہتے چلے آ رہے تھے کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے۔

لہذا برسوں جدید سائنسی تحقیقات کا مرکز مادی جسم ہی رہا اور سائنسدان برسوں مادی جسم پر تحقیق کر کے مادی جسم کے راز افشاں کرتے رہے جس کے نتیجے میں آج مادی جسم کا ہم کافی زیادہ سائنسی علم رکھتے ہیں۔ جب کہ انسان کے باطنی پہلو کو جانتے ہی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدان برسوں مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دے کر انسان کے باطنی پہلو کو جھٹلاتے رہے اور انسان کی روح کو غیر مرئی اور غیر تجرباتی کہہ کر رد کرتے رہے۔ اور برسوں بعد بلآخر سائنسدانوں نے ہی انسان کے باطنی رُخ کا تجرباتی ثبوت فراہم کیا اور آج انسان پر سب سے زیادہ تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی کام اسی باطنی رخ پر ہو رہا ہے۔ اور یہ کام کر رہے ہیں یورپ کے ڈاکٹر اور سائنسدان (وہم پرست یا مذہبی روحانی شخصیات نہیں جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے ) کر رہے ہیں ”
عالمی شہرت یافتہ مصنف ڈیوڈ وی بیریٹ(David V Barrett) کی کتاب
A Brief History Of Secret Societies
جس کا اردو ترجمہ “خفیہ مذہبی تحریکیں” کے نام سے “یاسر جواد” نے کیا ہے
A Brief History of Secret Societies (Brief Histories
This title deals with the hidden powers of clandestine organisations from the Ancient World to the present day. Throughout history Man’s search for knowledge has revealed strange truths. A Brief History of Secret Societies explores the allure and the hidden history of the esoteric religious beliefs and investigates how these societies have come to gain a powerful hold upon the popular imagination. David Barrett brilliantly presents an unbiased and balanced history of our desire for secret knowledge and of the societies that preserve it.
اسی روحانیت یا ماورائی علوم کے حصول کے لیے مذہب نے بہت سے طریقے بتائے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ ماورائی علوم ایک الگ تنظیم یا سلسلے میں شامل ہو گے ہیں خفیہ تنظیموں کی تاریخ باطنی مذہب کی تاریخ ہے۔اور جادو کی تاریخ بھی۔ اس وقت خفیہ تنظیموں کے دساتیر اور تعلیمات‘ ظاہری صورتیں اور ترجیحات کچھ بھی ہوں۔ مگر وہ مذہبی جڑیں رکھتی ہیں۔مذہب انسان جتنا ہی پرانا ہے‘اور کاہن دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں فاحشہ اور جاسوس کا حریف ہے۔ اس بات میں ابتدئی ترین دور سے لے کر قرون وسطیٰ کے اواخر تک موجودہ خفیہ تنظیموں پر پڑنے والے مذہبی اثرات کا جائزہ لیا گیاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مصنف نے اس کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ خفیہ پن کی ضرورت کے تحت بنائی جانے والی سرکردہ مذہبی تنظیموں کی ساخت اور مقاصد کیا تھے‘انہیں کیوں اور کیسے دبایاگیا‘وہ اب بھی کن صورتوں میں موجود ہیں؟ نائٹس ٹمپلر‘کیتھاری‘فری میسنز‘روزی کروزی‘ہرمی سلسلہ, یوگا KKK، P2 ،تصوف،قبالہ وغیرہ کی رازداری اور ترقی پر بھی مختصراً بحث کی گئی ہے مختصراً یہ کتاب مختلف مذاہب کی باطنی اور خفیہ انجمنوں کا تجزیاتی و تاریخی مطالعہ ھے خفیہ مذہبی تحریکیں ایک مختصر تاریخ قدیم زمانے سے لے کر آج کل تک خفیہ تنظیموں کے ذریعہ اس قابل قدر چھپی ہوئی طاقت کاجائزہ لیتی ہے۔ پوری تاریخ میں ، انسانیت کی علم کی تلاش نے عجیب و غریب سچائیوں کا انکشاف کیا ہے۔ بیریٹ نے باطنی مذہبی عقائد کی طاقتور کشش کی کھوج کی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے معاشروں نے عوامی تخیل کو کس حد تک طاقتور گرفت حاصل کرلی ہے۔ وہ خفیہ علم سے پردہ اٹھانے کی انسانیت کی خواہش اور ان معاشروں کی ایک غیر جانبدارانہ اور متوازن تاریخ پیش کرتا ہے جو اس طرح کے علم کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply