پشتون تحفظ موومنٹ کا ظہور ایک ایسا سماجی مظہر ہے جو سماجی علوم کے ماہرین اور ریسرچرز کی تحقیق اور مطالعے کیلئے ایک بہترین موضوع بن سکتی ہے ۔ پی ٹی ایم جیسی عوامی تحریکیں نہ تو کسی سازش کے نتیجے میں اور نہ کسی کے خلاف ابھرتی ہے ۔ یہ تحریکیں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں ، ریاستی ظلم و جبر اور بے انصافیوں کے نتیجے میں ابھرتی ہے ۔ پشتون معاشرے کے ٹھوس موضوعی اور معروضی حالات نے پی ٹی ایم کو جنم دیا ہے ۔
قبائلی علاقوں کی سٹرٹیجک اہمیت کو کیش کرتے ھوئے پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے عالمی قوتوں کی خوشنودی اور فوجی ، اقتصادی اور حتی کہ فوجی آمروں نے سیاسی حمایت کے حصول کیلئے ملک کو فرنٹ لائن قرار دینے کا بیانیہ پیش کیا ۔ اس طرح سرد جنگ کے عروج اور بعد میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران قبائلی علاقے عالمی تنازعات کے گرم نکتے بن گئے۔ اور داخلی اور عالمی قوتوں کی سازشوں کے گڑھ۔ سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں علاقے میں جنگی معیشت وجود میں آگئی اور ہر سال اربوں ڈالر اس معیشت میں آئے ۔ اس معیشت سے ھر کسی نے فائدہ اٹھایا ۔ خواص نے فائدہ اٹھایا جبکہ عوام بدحالی ، نقل مکانی اور مفلسی آئی اور شورشوں کی وجہ سے تباہ حال ھوئے۔
پہلے افغان جہاد اور پھر طالبان کی حمایت کیلئے قبائلی علاقوں میں ایک وسیع جہادی انفراسٹرکچر بنایا گیا ۔ افغان جہاد کے دوران پاکستان کے بنیاد پرست حلقوں جبکہ طالبان کے دور میں دیوبندی مکتبہ فکر کو آگے لایا گیا۔ وہابیت اور سلفیت کی بدترین شکل متعارف کرائی گئی ۔ طالبان کے دور میں پاکستانی طالبان کو منظم کیا گیا اور عملاًًً قبائلی علاقوں کی عملداری ان کے سپرد کی گئی ۔ قبائلی علاقوں میں طالبان کے مکمل کنٹرول اور عملداری کیلئے سینکڑوں قبائلی عمائدین کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا ۔ ریاست کے پروردہ طالبان کی عملداری اور پھر فوجی آپریشنوں کے دوران وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی۔ قبائلی علاقوں کے ساتھ ملحقہ بندوبستی علاقے یعنی جنوبی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن بھی متاثر ھوا ۔
شورش زدہ علاقوں کے مخصوص تناظر میں پشتون تحفظ موومنٹ جن ایشیوز کو لے کر نکلی ہے اس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ریاستی اداروں سے ہے ۔ پی ٹی ایم کی جہدوجہد کے نتیجے میں عوام میں ڈر اور خوف ختم ھورہا ہے اور لوگ کھل کر نہ صرف روا رکھے جانے والے ظلم اور زیادتیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھا رہے ھیں ۔ جوں جوں ظلم وستم اور زیادتیوں کی داستانیں سامنے آرہی ہیں ریاستی اداروں کی بدحواسی اور بوکھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے اور پی ٹی ایم کے خلاف سازشیں زور پکڑتی جارہی ہے اور انتقامی کاروائیوں میں اضافہ ھورہا ہے ۔ اور نت نئی سازشی تھیوریاں گھڑی جارہی ھیں ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں سازشی تھیوری گھڑنا کوئی انہونی بات نہیں ۔ ریاست کے علاوہ دیگر مفادی حلقے بھی اس کام میں ماہر ھیں۔ ریاست دا نستہ طور پر سازشی تھیوریاں پیش کرتی ہے ۔ پاکستانی ریاست کا جمہوری اور سیاسی قوتوں کو زک پہنچانے اور انتقامی کاروائیوں کو جواز مہیا کرنے کا یہ ایک دیرینہ اور محبوب نسخہ ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حریفوں سے حساب برابر کرنے ان کو نیچا دکھانے اور عوام کو ان سے متنفر کرنے کیلئے یہ کارڈ استعمال کرتی ہیں ۔
حقوق اور انصاف کیلئے سرگرم عمل پی ٹی ایم کے حوالے سے بھی کئی سازشی تھیوریاں زیر گردش ہیں۔۔ ان سازشی تھیوریوں کی حقیقت یہ ہے کہ ان کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ابھی تک کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا۔۔
ایک سازشی تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم بیرونی قوتوں کی ایجنٹ ہے ۔ اور اس کو باھر سے امداد اور حمایت مل رہی ہے ۔ پی ٹی ایم کے راھنماوں کی سادہ اور بے سرو مانی کی زندگی اور عوامی چندے سے کی جانے والی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ھوجاتا ہے کہ وہ کس کے ایجنٹ ھیں ۔ یقیناً وہ اپنے عوام کے ایجنٹ ھیں ۔ ویسے پاکستان کا کونسا عوامی لیڈر ایسا ہے جس پر یہ الزام نہ لگا ھو۔
دوسری تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم کیسے اچانک ابھری اور پھیل گئی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں محلاتی سازشیں اور سازشی تھیوریز عام ھو ں اور عوامی تحریکوں کی حرکیات اور جدلیات کا بھرپور مطالعہ نہ ھو تو تحریکوں کے اچانک ابھرنے اور چھانے کے پیچھے بھی لوگ سازش ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ھیں ۔ جس معاشرے میں مسائل اور مشکلات کی بھرمار ھو ، ریاستی ظلم وستم عام ھو اور بےانصافی کا دور دورہ ھو اور حکمرانوں یا طاقتور حلقوں کی عوام کو دبانے اور خاموش کرانے کی کوششیں زور وشور سے جاری ھو وہاں عوامی تحریکیں اچانک ابھرتی ھیں اور چھا جاتی ہیں۔۔ یہی عمل پی ٹی ایم کے ساتھ بھی ھوا ۔
تیسری تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم فوج یا ریاست کے خلاف ہے ۔ اور اکثر یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے والے نعرے کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ نعرہ پی ٹی ایم سے پہلے وجود میں آیا ہے ۔ البتہ پی ٹی ایم نے اسے مقبول عام بنایا ۔ پی ٹی ایم کی کور مطلب اس کے زیادہ تر قائدین اور سرگرم کارکنوں کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے اور وہ ریاست کے پروردہ طالبان کی عملداری اور پھر فوجی آپریشنوں کے دوران ظلم اور زیادتیوں اور وسیع پیمانے پر پھیلی تباہی و بربادی کے براہِ راست متاثرین میں سے ھیں اور ھر قسم کی مشکلات ، مصییبتیں اور صوبتیں برداشت کی ہے ۔ پی ٹی ایم کے صفوں میں پشتون تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ بھی علاقے میں جاری سٹرٹیجک گیموں کا ادراک رکھتے ھیں اور جاری کنفلیکٹ کے عوامل اور محرکات کی سوجھ بوجھ رکھتے ھیں ۔
اس میں شک نہیں کہ پی ٹی ایم قبائلی علاقوں اور بندو بستی علاقوں میں طالبان کی عملداری اور فوجی آپریشنوں کے دوران پھیلی تباہی اور بربادی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ذمہ دار ریاست اور ریاست کی ناعاقبت اندیش داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو سمجھتی ہے ۔ اور کھلے عام ان پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے ۔ اور ان کی لہجے کی تلخی اور جذباتیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے کی جانے والی سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کو نزدیک سے دیکھا ہے سہا ہے اور محسوس کیا ہے ۔ پی ٹی ایم سے ریاست کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی ایم پشتون بیلٹ میں تباہی اور بربادی کے ذمہ دار عاملین کا کھلے عام نام لیتی ہے اور ان کی زیادتیوں اور مظالم کی نشاندہی اور ان کو بے نقاب کرتی ہے۔
چوتھی سازشی تھیوری یہ ہے کہ شایداسٹبلشمنٹ نے پی ٹی ایم کو کچھ مخصوص سیاسی قوتوں یا جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے بنایا ہے ۔ سب سے پہلے تو اگر واقعی پی ٹی ایم اسٹبلشمنٹ کی ایجنٹ ہے تو پھر اسٹبلشمنٹ کی پی ٹی ایم کے خلاف سازشیں زوروں پر کیوں ہے اور ان پر وار کرنے کیلئے ماحول کیوں بنایا جارہا ہے اور کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کیوں ھورہی ہے ۔ شروع دن سے اسٹبلشمنٹ نے پی ٹی ایم کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا نہ ختم ھونے والہ سلسلہ شروع کیوں کیا ہے اور دھڑا دھڑا بے بنیاد مقدمات کیوں قائم کررہی ہے۔ منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم نقل وحرکت پر پابندیاں لگ رہی ہے سندھ اور بلوچستان میں داخلہ بند ھورہا ہے۔ ڈیفنس کا زیر کنٹرول سوشل کے راھنماوں کی میڈیا پر دن رات کردار کشی کیوں ھورہی ہے اور ان کے خلاف بھرپور ڈس انفارمیشن مہم کیوں چلائی جارہی ہے ۔ اھم ریاستی افراد کے پی ٹی ایم کے خلاف بیانات اور کھلے عام یا دبے دبے الفاظ میں سنگین نتائج کی دھمکیاں جو پی ٹی ایم کوگزشتہ دس ماہ کے دوران دی گئی ہے ایجنٹ تو چھوڑئیے ابھی تک کس اسٹبلشمنٹ مخالف راھنما یا جماعت کو ملی ہے ۔
جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ پی ٹی ایم کو اسٹبلشمنٹ نے کسی پارٹی کی مخالفت اور کمزور کرنے کیلئے بنایا ہے تو پھر پی ٹی ایم کی تنقید کا نشانہ ریاست اور ریاستی پالیسیاں کیوں ہے وہ تحریک یا جماعت کیوں نہیں جس کو کمزور کرنے کیلئے اس کو بنایا گیاہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے قائدین اور ذمہ داران نے ھمیشہ قوم پرست سیاسی راھنماوں کا نام عزت اور احترام سے لیا ہے اور ان پر تنقید سے اجتناب کیا ہے ۔ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں سے ابھی تک یہ تاثر نہیں ملا کہ قوم پرست سیاسی جماعتیں تو ایک طرف دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی کبھی مخالفت کی ھو۔ ھاں تحریک کے حامی یا ھمدرد بن کر ایجنسیوں کے پلانٹیٹڈ عناصر نے اگر تنقید کی ہے تو وہ الگ بات ہے ۔
پانچویں سازشی تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے دو راھنماوں کو اسٹبلشمنٹ نے جتوایا ہے ۔ وزیرستان کے عوام گواہ ھیں کہ یہ دونوں امیدوار اسٹبلشمنٹ کے چہیتے یا پسندیدہ امیدوار نہیں تھے۔ اور دونوں نے پی ٹی ایم بننے سے پہلے ہی الیکشن میں حصہ لینے کا عندیا دیا تھا اور تیاریاں شروع کی تھیں ۔ دونوں کے خلاف بنیاد مقدمات کی بھرمار ہے اور پچھلے دنوں دونوں کو انتہائی غلط اور ناروا طریقے سے بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ۔ اب پارلیمان جیسے فورم پر ان دونوں کی موجودگی ان کیلئے وبال جان بن رہی ہے ۔ اسلئے ان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمات قائم کرنے کی افواہیں ھیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں