• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے مابین بیک چینل مذاکرات کا ٹوٹتا جڑتا سلسلہ/غیور ترمذی

پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے مابین بیک چینل مذاکرات کا ٹوٹتا جڑتا سلسلہ/غیور ترمذی

کچھ عرصہ پہلے شروع ہونے والے ان مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا رہتا ہے لیکن ابھی تک پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے بیک چینل مذاکرات میں صرف یہی طے ہو سکا ہے کہ یہ مذاکرات چلتے رہنے چاہئیں۔یہ مذاکرات بہت پہلے کامیاب ہو جانے چاہئیں تھے لیکن بدقسمتی سے سابق وزیراعظم عمران خاں نیازی کے مطالبات ہر آئے دن تبدیل ہوتے رہتے   ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے انہیں مان لینے میں تذبذب کا پہلو نمایاں رہا ہے۔ اپنی بھرپور احتجاجی مہم کی وجہ سے عمران خاں اور پی ٹی آئی کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ ان بیک چینل مذاکرات میں حکومت کو دیتے بہت کم اور حاصل زیادہ کر لیتے۔ تب حکومت بھی شدید دباؤ میں تھی اور اسٹیبلشمنٹ بھی کسی حدتک لچک کا رویہ رکھے ہوئے تھی- ان بیک چینل مذاکرات کے پس منظر میں پی ٹی آئی کی طرف سے پورے ملک میں جلد از جلد الیکشن کروائے جانے کا مطالبہ ہی شامل نہیں تھا بلکہ وہ پی ٹی آئی چیئرمین، اُن کی اہلیہ اور چند قریبی ساتھیوں کے خلاف تیزی سے جاری انکوائریوں اور مقدمات میں ریلیف کے مطالبات بھی کر رہے تھے۔ ان سب کے باوجود سب سے اہم معاملہ ملکی سیاسی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء کے اس خطہ میں تیزی سے تبدیل ہو رہی سیاسی،معاشی جغرافیائی (جیو پولیٹیکل) صورتحال بھی ہے۔یہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں رہ سکا ہے کہ اسے پاکستان میں جلد از جلد الیکشن کروا کر نمٹا دیا جائے کیونکہ اب بات سینکڑوں ارب ڈالرز کی انویسٹمنٹ اور اُس کی حفاظت پر پہنچ چکی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم جماعتیں بھی اب یہ اعتراف کرتی ہیں کہ اگر فی الفور انتخابات کروا دئیے جائیں تو پی ٹی ّآئی ان میں اکثریت سے کامیابی حاصل کر لے گی۔اس کے بعد لیکن کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پاکستان، چین، روس اور ایران پر مشتمل ون روڈ ون بیلٹ (عرف عام میں سی پیک کا extended ورژن سمجھ لیں) پراجیکٹ کو پہلے کی طرح روک دے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم پی ڈی ایم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مسلسل یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ ماضی جیسی غلطیاں نہیں دہرائے گی اور سی پیک کے اس نئے extended ورژن میں کسی قسم کا کوئی رخنہ نہیں ڈالے گی لیکن دوسری طرف پی ڈی ایم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے غالب دھڑوں کو یقین ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت میں کھڑی امریکی و یورپی لابیاں کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریں گی کہ پاکستان امریکہ و یورپ کی بجائے چین، روس اور ایران کے بلاک میں شامل ہو۔سی پیک کے اس نئے extended ورژن کو نافذ کرنے اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لئے چین نے علاقائی ممالک کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے خاموش ڈپلومیسی کی اور اسے نافذ کرنے کے تقریباً نزدیک پہنچا ہے تو اس روٹ (route) میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح شامل پاکستانی علاقہ میں اگر اس پراجیکٹ کی مخالف حکومت قائم ہو جائے تو بہت بڑی انویسٹمنٹ خطرے  میں آ سکتی ہے۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت کے مابین یہ ٹوٹتے جڑتے بیک چینل مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے اور ملک میں مسلسل سیاسی و معاشی ابتری چل رہی ہے۔

فی الحال تو پی ٹی آئی نے اپنے 9 مئی کے شدید پُر تشدد احتجاج کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کو ہتھے سے اکھاڑ دیا ہے اور اپنے لئے موجود ہر طرح کی ہمدردی کو سخت غصہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نئی صورتحال میں پی ڈی ایم حکومت کو فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم سے اپنی سیاسی لڑائی کا رُخ طاقت کے اُن ایوانوں یعنی اسٹیبشلمنٹ کی طرف موڑ لیا ہے کہ جن سے ٹکرانا اُن کی طاقت سے باہر ہے اور ناممکنات میں سے ہے۔ اس سخت کشیدہ صورتحال کے باوجود بھی وطنِ عزیز میں کچھ ایسے طاقت کے مراکز ہیں جو اس بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے اور سخت گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہاں اب یہ اعتراف عمران خاں کو بھی ہو چکا ہو گا کہ ان مذاکرات کے dimensions اب تبدیل ہو کر پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف مُڑ چکے ہیں لہٰذا اب پی ٹی آئی کو ان بیک چینل مذاکرات میں دینا زیادہ پڑے گا اور حاصل تھوڑا ہو گا۔راقم کے ذرائع کے مطابق اپنی حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور اشتعال کے مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کو پی ڈی ایم حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کی طرف سے ان بیک چینل مذاکرات کے اگلے سیشن کے لئے جن نقاط کی فہرست فراہم کی گئی ہے، وہ پی ٹی آئی کے لئے خاصی دھچکہ  لگنے والی ہے۔ راقم کی اس ضمن میں جتنے بھی متعلقہ لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے جن چند نقاط کی نشاندہی کی، وہ کچھ یوں ہیں:-

1- برطانوی کرائم ایجنسی کی طرف سے حکومت پاکستاں کو منی لانڈرنگ کیس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ضبط کردہ 50 ارب روپے سے 60 ارب روپے کی واپسی پر کئے گئے مبینہ گھپلے کی شفاف تحقیقات جاری رہیں گی اور اس حوالہ سے اگر پراپرٹی کنگ ملک ریاض اور اُس وقت کے وزیر اعظم عمراں خاں سمیت دوسرے متعلقین کو  گرفتار بھی کرنا پڑا تو پی ٹی آئی اُس میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہیں کرے گی۔

2- پی ڈی ایم حکومت بحریہ ٹاؤن کراچی میں کئی ہزاروں ارب روپے مالیت کی حکومتی زمینوں پر ملک ریاض کے مبینہ قبضوں کو صرف اور صرف 465 ارب روپے کے عوض جائز قرار دینے کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور PTI حکومت کی مبینہ ملی بھگت سے کی گئی سیٹلمنٹ(settlement) کی از سر نو تحقیقات کروائے گی اور اگر اس معاملہ میں بھی کوئی بے ضابطگی ثابت ہوئی تو اُسے بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا-

3- پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سےPTI کو موصول ہونے والے سینکڑوں ملین ڈالر کے غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور سماعت ہو گی جن میں پی ٹی آئی نہ تو کسی قسم کا رخنہ ڈالے گی اور نہ ہی تاخیری حربےاستعمال کرے گی۔اس معاملہ پر پی ٹی آئی کی طرف سے بھی اس نقطہ کو شامل کیا گیا ہے کہ غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ اگر دوسری جماعتوں کو ہوئی ہے تو اُن کی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں اور ایسی غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ وصول کرنے والےسب جماعتوں یا افراد کے خلاف ملکی قوانین کے مطابق بلا تخصیص سخت ایکشن لیا جائے۔

4- ان معاملات کے علاوہ پی ٹی آئی کے خلاف جتنے بھی الزامات اور کرپشن کیسز انکوائریاں چل رہی ہیں اُن سب میں عمران خاں، اُن کی اہلیہ بشری بی بی، اہلیہ کی سہیلی فرح عرف  گوگی اور پی ٹی آئی کے تمام متعلقین شامل تفتیش ہوں گے اور پی ٹی آئی ان معاملات کو ہرگز سیاسی رنگ نہیں دے گی۔

ایجنڈہ کے یہ نقاط پی ٹی آئی کی تقریباً سیاسی موت کے مترادف ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کا ملکی سیاست میں شروع سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ گناہوں اور کرپشن سے پاک کرنے والی فلٹریشن مشین ہے اور جو اُس میں شمولیت اختیار کرے گا، اُس کے تمام گناہ اور کرپشن معاف ہو جائیں  گے۔ اب ذرا تصور کریں کہ خود کو فرشتہ اور گناہوں/ کرپشن کو بخشوانے کا ذریعہ کہنے والی اُس جماعت کے جب اپنے خلاف درجنوں کرپشن کیسز اور انکوائریاں چلیں گی تو اُس کی سیاست کا تو سمجھیں جنازہ ہی نکل جائے گا۔

عمران خاں اور پی ٹی آئی کو صرف ان اوپر بیان کئے ہوئے کرپشن کیسز کا ہی سامنا نہیں ہے بلکہ اُن کے خلاف درجنوں دوسرے کیسز بھی تحقیقات کے تقریباً آخری مراحل میں ہیں جن کی تحقیقات میں عمران خاں اور پی ٹی آئی کی طرف سے تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا اور انہیں سیاسی انتقام کا رنگ دے کر اپنے نوجوان ورکروں کے ذریعہ ملک بھر میں پُر تشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ان معاملات میں کچھ ایک کی تفصیلات بھی قارئین کے لئے پیشِ خدمت ہیں:-

1- خیبر پختونخوا میں PTI حکومت کی پشاور BRT میٹرو کرپشن کیس (جس کا پردہ الجزیرہ نے فاش کیا تھا اور نیب کی اس موضوع پر رپورٹ کو پشاور ہائی کورٹ نے بھی صرف اس بنیاد پر seal کیا تھا کہ اس کی وجہ سے کہیں پروجیکٹ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو جائے) پر بھی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ پروجیکٹ ایک ایسے کنٹریکٹر / ٹھیکیدار کو ایوارڈ کیا گیا جسے پنجاب میں ٹھیکے لے کر بروقت نہ مکمل کرنے پر بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔ مزید ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کمپنی نے وقت سے پہلے کام ختم کرنے کی شرط پر 25 فیصد کا اضافی بونس بھی لے لیا اور کام پھر بھی مقررہ وقت سے کافی مہینوں کی تاخیر پر ختم کیا۔

2- توشہ خانہ معاملہ میں صرف عمران خاں اور پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ باقی تمام جماعتوں اور عہدے داروں کے خلاف تحقیقات کو منطقی انجام پر پہنچایا جائے گا۔ اس میں وہ معاملات بھی شامل ہوں گے جن میں توشہ خانہ سے قیمتی اشیاء وصول کر کے پہلے انہیں مارکیٹ میں فروخت کیا گیا، پھر اُس کی انتہائی کم جعلی قیمت لگوا کر اُسے خزانہ میں جمع کروا دیا گیا۔نیز توشہ خانہ سے قیمتی تحفے اور گاڑیاں لینے کے لئے قوانین میں تبدیلی کر کے فائدہ اٹھانے والے معاملات پر بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ عمران خاں پر الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے دیگر کئی اشیاء لینے کے علاوہ 2 ارب روپے مالیت کی صرف ایک گھڑی کو پہلے دوبئی متحدہ عرب امارات میں صرف 30 کروڑ روپے میں فروخت کیا، پھر اُس کی انتہائی کم قیمت 5 کروڑ روپے ڈیکلیئر کرکے اس پر صرف 2 کروڑ روپے ادا کر کے ملکی خزانے کو ایک ارب 98 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔

3- پی ٹی آئی کے پونے 4 سالہ دور اقتدار میں وزیر صحت عامر کیانی کے لگ بھگ 250 ارب روپےکے میڈیسن اسکینڈلز، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے 150 ارب روپے کے گندم  سکینڈلز اور خسرو بختیار و جہانگیر ترین وغیرہ کے 110 ارب روپے کے شوگر اسکینڈلز کی تحقیقاتی رپورٹس کو نیب NAB انکوائریوں میں تبدیل کر کے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ یاد رہے کہ عمران خاں کے دورِ حکومت میں ان سکینڈلز کے سامنے آنے پر سوائے وزراء کے تبادلے کے ان پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس نقطہ پر مسلم لیگ نون کی طرف سے یہ مطالبات بھی کئے جا رہے ہیں کہ عمران خاں نے قطر کے ساتھ نواز شریف حکومت کے دور کا LNG معاہدہ ختم کیا اور اس دوران LNG نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ بجلی گھروں کو ڈیزل سے چلوا کر مہنگی بجلی بنوائی گئی اور یوں ملکی خزانہ پر بوجھ ڈالا گیا ۔نیز اس دوران جب ملک میں LNG کی کمی کا شور مچا تو عمران خاں حکومت نے پچھلی حکومت سے زیادہ مہنگے داموں LNG برآمد کرکے ملکی خزانہ پر جو بوجھ ڈالا، اُس کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا جائے۔یاد رہے کہ معروف صحافی رؤف کلاسرا کے مطابق عمران خاں دور کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم و پاور ندیم بابر (جو خود IPP انڈسٹری کے بڑے پلیئر تھے) کے خلاف یہ انکوائری رپورٹس یوں غائب ہوئی تھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔

4- راولپنڈی رنگ روڈ کے 20 ارب روپے کے سکینڈل ( ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے راستہ کی تبدیلی اور قومی خزانے سے مزید زمین کی خریداری) کی غیر جانبدارانہ تحقیقات مکمل کروائے گی اور مبینہ طور پر عمران خاں کی بیگم بشریٰ بی بی، اُن کی سہیلی فرحت  (فرح گوگی) اور اُن کے فرنٹ مین زلفی بخاری کو از سر نو شامل تفتیش کرکے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے جس میں عمران خاں اپنی بیوی اور اُن کی سہیلی کو شامل تفتیش کروانے کے پابند ہوں اور اگر وہ اس تفتیش میں گناہ گار پائی گئیں تو اُن کی گرفتاری اور مقدمہ چلانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جانی چاہیے.

5- لاہور میں دریا راوی پر مجوزہ راوی اربن ریور پروجیکٹ (جو دنیا کا سب سے بڑا ریور فرنٹ ہو گا اور جس کا رقبہ ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے) کے اندر مختلف پراپرٹی قبضہ مافیاز اور اُن کے پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں سے تعلق کو بھی تفتیش میں لایاجانا بہت ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا اور باقی ملک چھوڑ کر صرف پنجاب میں جلد انتخابات کروائے جانے والی پُر تشدد احتجاجی تحریک کے پس منظر میں یہ ایک بڑا پہلو ہے کہ جس پارٹی کی بھی پنجاب میں حکومت ہو گی وہ ہزاروں ارب روپے مالیت کے اس پراجیکٹ سے اپنے لئے بہت کچھ حاصل کر سکے گی۔

6- کچھ عرصہ پہلے عمران خاں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نےشوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے فنڈز میں سے 30 لاکھ ڈالرز (موجودہ ریٹ کے حساب سے 84 کروڑ روپے) کی خطیر رقم ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے پراجیکٹ میں لگائی اور پھر لگ بھگ 8 سال بعد جب یہ معاملہ میڈیا پر آیا تو پھر واپس وہی 30 لاکھ ڈالر جمع کرائے۔ حالانکہ اس دوران ان 30 لاکھ ڈالرز سے 8 سالوں تک جو منافع کمایا گیا اُس کا کوئی حساب شوکت خانم میموریل ہسپتال کو فراہم نہیں کیا گیا،نیز یہ کہ یہ 30 لاکھ ڈالرز بورڈ آف گورنرز کی پیشگی منظوری لئے بغیر کیسے نکالے گئے۔

7- عمران خاں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ مل کر 300 کنال رقبہ کے اپنے بنی گالہ محل کی غیر قانونی تعمیرات کو جس طرح ریگولرائز کروایا اور حکومت میں آنے کے بعد جس طرح اس سلسلے میں حکومتی اثر و رسوخ کا استعمال کیا، اُس پر بھی تحقیقات شروع ہونے جا رہی ہیں۔

8- خیبر پختونخوا  میں NAB کی تحقیقاتی ٹیم اپنی تحقیقات میں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے کہ خیبر پختونخوا  حکومت کے ہیلی کاپٹر کو عمران خاں سمیت پی ٹی آئی کے 1،800عہدے داروں نے غیر قانونی استعمال کر کےقومی خزانہ کو 34 کروڑ کا نقصان پہنچایا ہے۔ نیز خیبر پختونخوا میں پاکستان بننے سے PTI حکومت کے آنے تک 65 سالوں میں کُل قرضہ صرف 90 ارب روپے تھا لیکن جیسے ہی پی ٹی آئی نے اپنی 10 سالہ دور حکومت خود ختم کی تو یہ قرضہ بڑھ کر 890 ارب روپے تک جا پہنچا۔اس معاملہ کی تحقیقات بھی غیر جانبدار ذرائع سے کروائی جانی چاہئیں۔

9- اربوں ڈالرز کے قرضوں میں جکڑے پاکستان میں کورونا وباء کے دوران PTI ٹیم نے پاکستان کے 600 امیروں میں 3 ارب ڈالرز کے بلاسود قرضے دے کر ملکی خزانے کا جس بیدردی سے استعمال کرایا ، اُس پر سابق اسٹیٹ بنک گورنر، سابق وزیر خزانہ اور عمران خاں نیازی کے خلاف شفاف تحقیقات کرکے اس کیس کو حقائق منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ان بیک چینل مذاکرات میں جیسے ہی معاملات پی ٹی آئی کے خلاف ہوئے ہیں تو ان میں ایجنڈہ کےنقاط کی تبدیلی بھی 180 ڈگری کا U ٹرن لے چکی  ہوتی ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کے پاس ان مذاکرات میں برتری کے زیادہ مواقع تھے اور وہ اِن میں بہتر پوزیشن کے ساتھ باہر نکل سکتی تھی لیکن صرف ایک غلطی (9 مئی کے پُر تشدد احتجاج) نے انہیں اب اُس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب نہ صرف پی ڈی ایم حکومت کا پلڑا بہت بھاری ہو چکا ہے بلکہ اب پی ٹی آئی کو اُن کے مطالبات بھی ماننے پڑیں گے اور اوپر بیان کئے گئے کرپشن الزامات کی تحقیقات سے بھی کئی سالوں تک گزرنا پڑے گا۔ جس دوران حکومت میں آنے کے اُن کے مواقع بھی معدوم ہو چکے ہوں گے بلکہ اسی دوران اگر پی ڈی ایم حکومت نے چین، روس اور ایران تک بڑھے ہوئے سی پیک کے نئے extended ورژن پر عمل درآمد شروع کروا دیا تو نہ صرف یہ پاکستان کے لئے بہترین ثابت ہو گا بلکہ پی ڈی ایم جماعتوں کی سیاسی حیثیت اور اُن کے قد کاٹھ میں بھی بہت زیادہ اضافہ کا سبب بنے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت بھی سی پیک کے اس نئے extended ورژن میں عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی تو قوم یہی سمجھےگی کہ تمام سیاست دان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور کسی کو نجات دہندہ سمجھنا صرف اور صرف سراب ہے، حماقت ہے۔اس لئے ہمارے سیاستدانوں اور سرمایہ دار اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ اُس دن سے ڈریں جب عوام تنگ آمد بجنگ آمد کا شکار ہو کر اُن کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply