جوہان گوٹ لیب فشٹے/مبشر حسن

فشٹے کی پیدائش ہوئی 1762 عیسوی میں اور وفات 1814 عیسوی میں ،جرمنی سے اس کا تعلق تھا ‏The Science of Ethics”‏ اس کے اہم کاموں میں شمار ہوتا ہے۔

جرمن فلسفی اور معلم جو ہان گوٹ لیب فشٹے حقیقت اور اخلاقی اقدام کی عینیت پسندانہ تھیوری کا محرک تھا۔ فشٹے 19 مئی 1762ء کو ساکسونی میں بمقام Rammenau میں پیدا ہوا۔ اُس نے Prorta ‘جینا اور لیپنرگ میں تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بے نام شائع ہونے والے مضمون “Critique of All Revelation” کو شروع میں جرمن فلسفی کانٹ کی تحریر خیال کیا گیا۔ اسی کی بنیاد پر اسے جینا یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھانے کا عہدہ ملا (1793)۔

تا ہم فشٹے پر الحاد پرستی کا الزام لگا اور وہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اُس نے لکھنا اور لیکچر دینا جاری رکھا اور 1805ء میں ایرلانگن میں فلسفہ کی چیئر حاصل کر لی۔ 1810ء میں وہ نئی برلن یونیورسٹی کا پہلا ریکٹر بنا۔ اس عرصہ کے دوران نپولین کی اولوالعزمی اور مہمات نے جرمن ریاستوں کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال دیا اور فشٹے نے جوش و خروش کے ساتھ ایک جرمن قومی شعور کی ترقی کی حمایت کی۔ وہ 27 جنوری 1814 ء کو برلن میں فوت ہوا۔

فشٹے نے جاگیردارانہ مراعات پر تنقید کی ،جرمنی کے اتحاد اور جاگیردارانہ طبقات کے خاتمے پر زور دیا۔ وہ عملی فلسفے کی اہمیت اخلاقیات ریاست اور قانونی نظام کی توجیہہ کا حامی تھا، لیکن اُس نے فلسفے کی فعالیت کو صرف اخلاقی بصیرت تک ہی محدود کر دیا۔ اُس نے سائنسی بنیاد رکھنے والے نظام علم کی سائنس پر غور وفکر کیا جو عملی فلسفے کے لیے لازمی شرط تھی ۔ موضوعی عینیت نے اُس کی 1794ء میں شائع ہونے والی کتاب علم کی سائنس کی بنیاد فراہم کی۔

فشٹے نے کانٹ کے شے بالذات (thing-in itself”) کے نظریے کو مسترد کیا اور علم کی تمام متنوع اقسام کو واحد موضوعی عینیت پسندانہ عنصر سے مستنبط (Deduce) کرنا چاہا۔ وہ ایک قسم کے مطلق اور لامحدود فعالیت والے موضوع کی بات کرتا ہے جس نے دنیا تخلیق کی۔ اُس کی ابتدائی انا (Ego) نہ تو انفرادی انا ہے اور نہ ہی سپینوزا کے بیان کردہ جوہر جیسا کوئی جوہر ہے بلکہ وہ شعور کی اخلاقی فعالیت ہے۔ اس باطنی مطلق انا سے فشٹے نے انفرادی انا کا سراغ لگایا۔ مؤخر الذکر مطلق نہیں بلکہ محض ایک محدود انسانی موضوع یا تجربی انا ہے جس کو اپنے ہی جیسی تجربی فطرت کا سامنا ہے۔ چنانچہ انا اور غیر انا کو پیش کرنے والا نظری فلسفہ لازمی طور پر ایک ہی ابتدائی انا کی حدود کے اندر انہیں ایک دوسرے کے مقابل لاتا ہے۔ مقابل، جوابی مقابل اور تالیف کے اس مخصوص طریقہ پر عمل کرتے ہوئے فشٹے نے ہستی اور سوچ کی نظری اور عملی دونوں کیٹگریز کا ایک نظام پیش کیا۔ عینیت پسندانہ جدلیات کے کچھ عناصر اس طریقہ کار میں ترقی پذیر ہوئے۔ اسے “Antithetical” ( متناقض ) کہا گیا کیونکہ فشٹے اینٹی تھیس کو تھیس میں سے اخذ (مستقبط ) کرنے کے بجائے اسے بطور متضاد تھیس کے مقابل رکھتا ہے۔

در حقیقت فشٹے ایک اولین اصول کی تلاش میں تھا جو خود تاباں تھا اور کسی پر منحصر نہیں تھا البتہ باقی ہر چیز اس پر انحصار رکھتی تھی ۔ اُسے یہ اصول کانٹ کے نظر یہ خود آگہی میں مل گیا جسے انا کا نام دیا۔ لیکن وہ کانٹ سے مزید آگے بڑھا۔ کانٹ کے لیے خود آگہی نقطہ اتحاد فراہم کرتی تھی جس سے سارا علم منسوب تھا۔ فشٹے کی انا ایسا اتحاد ہے جس کے تحت ہر چیز چاہے ہستی ہو یا علم کو سمویا جاتا ہے۔ جو چیز کانٹ کے لیے محض منطقی یا علمیاتی تھی وہ فشٹے کے لیے مابعد الطبیعیاتی بھی بن گئی۔ در حقیقت فشٹے کی نظر میں خود آگہی علم اور ہستی دونوں کا اتحاد تھی ۔ انا کے لیے جاننا اور موجود ہونا ‘ دو مختلف چیزیں نہیں ۔ ہم چیز میں سے کچھ منفی کر سکتے ہیں لیکن انا میں سے نہیں ۔ یہ کہنے کی یہ مشکل ہی کوئی ضرورت ہے کہ فشٹے کے لیے انا کا مطلب انفرادی ذات نہیں ۔ انفرادیت شعور کا ایک مخصوص محدود انداز ہے لہذا ! سے ہمہ گیر طور پر حاضر انا کے مساوی نہیں کہا جا سکتا۔

فشٹے نے ذہن کے ذریعہ سچائی پر براہِ راست غور و فکر یعنی عقلی وجدان کو منطقی معلم کا وسیلہ قرار دیا۔ بنیادی موضوعی عینیت کے علاوہ اُس کا فلسفہ معروضی عینیت کی جانب بھی رجحان رکھتا ہے۔ زندگی کے آخری برسوں کے دوران یہ رجحان زیادہ نمایاں ہو گیا۔ چونکہ کانٹ نے عینیت پسندی کو مسترد کر دیا اور شے بالذات پر یقین قائم کیا، اس لیے فشٹے کو جرمن آئیڈیل ازم کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ شروع میں وہ کانٹ پسند تھا اور بعد میں اُس نے کہا کہ وہ صرف کانٹ کے فلسفہ کو مربوط بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے ایک اعلیٰ ترین سرچشمے میں سے کیٹگریز مستنبط کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ بلاشبہ کانٹ نے اپنے انداز میں انہیں مستقبل کیا تھا۔ لیکن فشٹے نے خود آگہی کو تجربے کی مطلق شرط ثابت کر دیا اور کہا کہ مختلف کیٹگریز اسی اتحاد کی مختلف صورتیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مارکسزم لینن ازم کے بانیوں نے فشٹے کے ترقی پسندانہ اور ری ایکشنری افکار کا بہت گہرائی میں مطالعہ کیا۔ اینگلس نے اُسے جرمن کمیونسٹوں کے لیے نہایت محترم فلسفیوں میں سے ایک قرار دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply