سوختم، چہ تدبیر کنم (مخذوف)-مختار پارس

ہونٹوں سے بھی تقدیر لکھی جاتی ہے۔ مقدر کو پہلے زبان پر لایا جاتا ہے، پھر قلم سے تحریر کیا جاتا ہے اور آخر میں قدم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قسم سے قدم تک کے سفر کا نام زندگی ہے۔ اگر زندگی بھر معلوم ہی نہ ہو کہ زبان سے ادا کیے گئے الفاظ کا مطلب کیا ہے تو پھر بڑی تباہی ہے۔ نینوا کو ناس کرنے کا سندیس آیا تو لوگ شہر چھوڑ کر بھاگے نہیں بلکہ سجدوں میں گر گئے ۔ ان کے لرزتے ہونٹوں نے انہیں محذوف ہونے سے بچا لیا۔ ھم جہاں ہیں وہاں سب خود اپنے غلام ہیں کہ کسی دوسرے کی بات من میں ٹھہرتی ہی نہیں۔ اپنی ذات کو حالات سے الگ کر کے سوچنا ایک مقام ہے۔ جب کسی شخص کا یقین اسکے جسم کو اپنے من کی غار سے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے تو پھر اسے افق پر رات اور دن کا حساب سمجھ میں آتا ہے۔
راستے پر گندگی پھیلانے والا شخص خود امیر شہر پر صفائی نہ ہونے کا شکوہ کرے، یہ نہیں جچتا۔ راستے صاف رکھنے کا اختیار تو سب کا ہے ؛ کوئی اسے استعمال نہ کرے تو کیا کیجیئے۔ راستے بدل کر بھی دیکھ لیں، ہر راہ ایک ہی مکان کی جانب جاتا ہے۔ ہر اس گلی میں جہاں سے روز گزر ہوتا ہو اور وہاں کچھ کھڑکیاں ضرور کھلتی ہیں ۔جہاں لوگ منتظر رہتے ہوں، وہی راست کا راستہ ہے۔ لازم ہے کہ اس راستے پر تعفن کا سامان نہ ہونے دیا جائے۔ کسی روز اس راستے سے گزرتے وقت پاوں پھسل گیا یا کبھی لڑکھڑا گئے تو دھندلی شام میں بھی پس پردہ پیویست آنکھوں پر حقیقت واضح ہو جائیگی اور پھر کچھ باقی نہیں رہے گا۔ جو راستے اندرون شہر لے جاتے ہیں، انہیں آباد رکھنا ضروری ہے۔ دل کی صفائی نہیں ہو گی تو اس دھڑکن کے پاس کوئی آباد نہیں رہے گا۔
وجہ عناد، صرف نشاط۔ خوشیاں نفرت کو جلد نشیمن بنا لیتی ہیں۔ جھیل کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر دوسرے کنارے کا درد نظر نہیں آتا۔ دنیا میں جو بھی نظر آتا ہے، سب نقطہء نظر ہے۔ ہم سب وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ ملکر آسمان میں قطار بنا کر اڑتی ہوئی کونجیں نہ دیکھنا چاہے تو ہم اسے منظر سے منفی کر دینے پر قادر ہیں۔ لوگ روز اپنی دنیا تخلیق کرتے ہیں ؛ پسند نہ آئے تو اسے برباد کرکے ایک نئی دنیا بنا لیتے ہیں۔ ہمیں آسمان سے اترا ہوا من و سلوی پسند نہیں کیونکہ ہم سجدے میں بھی خود کو دیکھتے ہیں۔ حسن ھوش پر غالب آنے کی قدرت رکھتا ہے اور اپنی ذات کسی اور کو خوبرو نہیں مانتی۔ حوس اور ھوش میں مقابلہ ہو تو جیت کسی کی بھی ممکن نہیں۔ خواہش دم توڑ دے تو انسان کا امتحان ختم اور حواس پر قابو نہ رہے تو انسان، انسان نہیں۔
توقع ہمیشہ امکانات پر غالب رہتی ہے ۔ ہر امکان کسی نہ کسی راست سے جڑا ہے۔ دروغ کا فروغ ہر آنے والے امکان کو آنے نہیں دیتا۔ ایک نیا جھوٹ ایک اور دروازے کو بند کر دیتا ہے۔ مگر دروازے بند ہونے سے توقع نہیں ٹوٹتی ۔ توقع اگر خدا سے ہو تو پوری بھی ضرور ہوتی ہے اور اگر خود پر بھروسہ مستحکم ہو تو امکانات کا انتظار کوئی نہیں کرتا۔ امکان ایک جھوٹ ہے اور توقع ایک جھلک۔ پر فریب عمر کی طوالت کی زد میں آ جانے والے نقصان سے نہ ڈر۔ اس ایک لحظے کی حقیقت کے اسرار کو سمجھ جس نے اس دیے کو تیرے دل میں روشن کر رکھا ہے جس کی لو کسی اور کی آنکھوں سے نکلتی ہے۔ یہ تیری میری تو بات ہی نہیں۔ یہ بل کسی رسی کے نہیں۔ یہ دھواں جھوم کر میرے اندر سے میری کالک کو سمیٹ کر نکلتا ہے؛ اسے جانے دے !
خواب اگر حقیقت کو بے دخل کرنے سے ملتے ہوئے دکھائی دیں تو عذاب بن سکتے ہیں ۔ ایمان اگر ناانصافی کے ستونوں پر استقامت تلاش کرے تو متزلزل رہے گا۔ یہ سوال جائز نہیں کہ کوہ ندا سے آواز کیوں نہیں لوٹتی؛ سوال یہ ہے کہ ہر سمجھ میں نہ آنے والا معاملہ اس بات کا متقاضی کیوں ہوتا ہے کہ بے بسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ خوشی اسی میں پنہاں ہے کہ میں کچھ سمجھ بھی نہ پاوں اور تیرا ہو جاوں ۔ تمنا بھی یہی ہے کہ آتش پر سوز میں جلتے ہوئے خاکستر ہو جاوں مگر کیا کروں کہ ہم قدم نہ جینے دیتے ہیں نہ جلنے دیتے ہیں، نہ سونے دیتے ہیں نہ مرنے دیتے ہیں، نہ آنکھ ملاتے ہیں اور نہ آنکھیں مسلنے دیتے ہیں۔ میری خوشی خشک لکڑی کی طرح عشق کے بجھتے ہوئے انگاروں پر گرتی ہے تو آگ پھر بھڑک اٹھتی ہے۔
وقت رخصت وہ دو لحظے رک جاتا تو شاید فراق میں وصال شامل ہو جاتا۔ آخر شب بدگمانی نہ ہوتی تو رات سہل کٹ جاتی۔ بدیع الجمال کو تڑپانے کےلیے یہ خیال ہی کافی ہے کہ جانے والے نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اپنے شہر میں بلا کر جو نہ ملے، اس کی وفاوں کا انتظار ممکن نہیں ۔ محبت میں معجزے نہیں ہوتے۔ اس کے حصول کےلیے صرف انسانی لمحے درکار ہوتے ہیں۔ مگر انا رشتوں سے بڑی ہو جائے تو پھر واپس جاتے ہوئے قدموں کو کوئی روکنے نہیں آتا ۔ اگر خوشی دوسروں کو دکھ دینے سے حاصل ہوتی ہو تو اس مرض کا علاج صرف آنکھیں موند لینا ہے۔ کسی کے محبت میں بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک دینے کےلئے بد دعاوں کا ہونا ضروری ہے ؛ کوئی سزا یافتہ ہی کسی کے بے غرض تحفوں کو ٹھکرا سکتا ہے ۔ اپنی خوشی کی خاطر دوسروں کی عزت نفس کو تار کرنے میں کوئی حکمت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے جدا ہونے سے پہلے ایک لحظے کو آنکھیں چار کر لینا ضروری ہے کہ جو بات زمانہ، عمر بھر کی خدائی میں نہیں سکھا سکتا، وہ معاملہ، لمحہ جدائی میں ایک دفعہ کسی کو نظر بھر کر دیکھنے سے سلجھ سکتا ہے۔
ہر چیز کا وقت مقرر ہے ۔ موت کا بھی، محبت کا بھی اور محبت کی موت کا بھی۔ قانون کی کتاب کو خدا کی کتاب سے بہتر گرداننے والے کس انتظار میں ہیں ۔ اس انتظار میں عمر کی شاخ کو ہرا رکھنا کہ درد کب ختم ہو گا، منزلوں کا ضیاع ہے۔ یہاں ہر شخص با وضو اور با وفا ہے ماسوائے اس کے جس نے انتہائے التفات میں دامن پھیلا رکھا ہے۔ کبھی اس کو ولی کہہ کر اس سے نظریں نہیں ملائی جاتیں اور کبھی اسے مجزوب گردان کر پرے کر دیا جاتا ہے۔ مگر ہر انسان صرف ایک خاص لمحے میں قدم رکھنے کےلئے پیدا ہوتا ہے ۔ آگاہ ہو کہ تم کہاں ہو؟ پانیوں کے نیچے بھی گرم اور سرد ہوائیں چلتی ہیں ۔ بہار کسی کے انتظار کے نتیجے میں نہیں اتی۔ وقت ایک سراب ہے اور کشش ایک التباس ۔ جس دن اس زمین کو گھومتے دائروں سے آزاد کر دیا گیا تو اس دن گوشہ نشاط کی تلاش شروع ہو گی۔
ایک چلو میں پانی کب تک ٹھہر سکتا ہے۔ مٹی کے برتن میں پانی پڑا رہے تو اس میں سے باس آنے لگتی ہے۔ پانی کو ترو تازہ اور رواں رکھنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ۔ کوئی صراحی، کوئی گلاس، کوئی رکابی کوئی پرات؛ سارے برتن مٹی کے اور سارے مٹی ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کسی کٹورے سے کسی کی پیاس بجھ گئی اور کسی تھالی نے کسی کی گرتی ہوئی طلب کو آگے بڑھ کر تھام لیا تو پھر وہ مٹی، مٹی نہ رہی اور وہ آب، سراب نہ رہا۔ حسن بہت عرصے تک نظر نہ آئے تو یہ غم کی علامت ہے۔ غم نصیب میں ہو تو ہونٹوں کا لمس تقدیر تو نہیں بدل سکتا مگر تدبیر کا انتظام کر سکتا ہے۔ سجدے میں گرتے ہوئے ہونٹوں کو ذرا بھینچ کر اس کا نام لو تو جان سکو گے کہ بستیوں کو برباد کرنے کا حکم واپس لینے پر بھی وہی قادر ہے۔ یہ یقین معجزے رونما کرنے کےلئے کافی ہے کہ وہ برباد کر سکتا ہے۔ یہ ایمان سرخرو ہونے کےلئے کافی ہے کہ بوسے میں اسکا نام لینے والوں پر عذاب کبھی نہیں اتریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply