• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایڈورڈ جوزف لوبری اور ہمارے سیاسی کردار /محمد اسد شاہ

ایڈورڈ جوزف لوبری اور ہمارے سیاسی کردار /محمد اسد شاہ

ایڈورڈ جوزف لوبری ایک مخلص، لائق اور ذہین طبیب (Doctor)، ماہر جراثیمیات (bacteriologist) اور نباض تھا- وہ امراض کی تشخیص اور تجزیئے کا ماہر (Pathologist) بھی تھا- وہ برطانوی دارلحکومت لندن میں 1913 میں پیدا ہوا- عہد حاضر کے عمومی رواج کے برعکس، وہ دکھی انسانوں کی جیبیں خالی کرنے کا فن نہیں جانتا تھا- ایڈورڈ لوبری نے اپنی زندگی اپنے پیشے سے حقیقی محبت اور انسانی خدمت میں گزاری- مریضوں کو ذلیل کرنے، اور ان سے من چاہی مشورہ فیس پیشگی وصول کرنے کی بدنیتی سے اس نے اپنے بند دروازے کے باہر منشی لڑکیاں نہیں بٹھا رکھی تھیں- ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں سے وہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے، گاڑی دلوانے یا طبی کانفرنسز میں شمولیت کے نام پر دوسرے ممالک کی سیر کروانے کے تقاضے کبھی نہیں کرتا تھا- اس نے اپنے مطب کے ساتھ دواؤں کی دکان بنا کر اپنے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا سالے کو بھی نہیں بٹھا رکھا تھا- کیوں کہ بیماروں کے ساتھ تجارت اس کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی تھی- تجارتی کمپنیوں سے مفادات لے کر ان کی تیار کردہ دوائیں لکھنے میں بھی اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی- وہ بس ایک معالج تھا، جسے لوگوں کے امراض سمجھنے اور ان کو شفایاب ہوتے دیکھنے سے عشق تھا- حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی طبی تحقیق کے لیے وقف کر رکھی تھی- وہ سرجن بھی تھا- صرف جسمانی ہی نہیں، وہ اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کی تشخیص بھی کرتا تھا اور لوگوں کو سمجھانے کی نیت سے نظمیں لکھتا تھا- یعنی وہ شاعر (Poet) بھی تھا- وہ نثر (Prose) میں بھی اخلاقی مضامین لکھتا تھا- اس کی طبابت اور علاج سے تو صرف لندن اور برطانیہ کے عوام مستفید ہوئے- لیکن اس کی شاعری دنیا بھر میں پھیلی، اس کی کتابیں شائع ہوئیں اور دنیا بھر میں وہ ڈاکٹر سے زیادہ ایک شاعر کے طور پر مشہور ہوا- 1936 سے 1985 تک اس کی شاعری کے سات مجموعے شائع ہوئے، جنھیں بعد میں جمع کر کے اس نے دو بڑے مجموعوں کی شکل میں پھر سے چھپوایا- وہ شاعری میں لوگوں کے دوہرے معیارات، جھوٹ، نسلی تکبر، بڑبولے پن اور منافقت پر طنز اور مزاح کے نشتر چلاتا تھا- اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنی طبابت اور تحقیق کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نئے اور مفید ادبی رجحانات و خیالات پر درس (Lectures) بھی دیا کرتا تھا- یونیورسٹی آف سالزبرگ نے اس کے ان دروس اور چند نثری مضامین کو مجتمع کر کے 1994 میں کتابی شکل میں شائع کیا- ایڈورڈ جوزف لوبری 2007 میں وفات پا گیا-

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان سمیت دنیا بھر میں انگریزی ادب کے طلبہ ایڈورڈ لوبری کے نام سے واقف ہیں- میں نے گریجوایشن کے دوران اس کی نظم (The Huntsman) پڑھی- سادہ الفاظ اور آسان مرکزی خیال کے باوجود مجھے اس کو سمجھنے اور اسے اپنانے میں بہت وقت لگا- اس نظم میں ایک شکاری Kagwa کے الم ناک انجام کی کہانی ہے جو جنگلوں میں شیروں کا شکار کیا کرتا تھا- آخر کار ایک جنگل میں وہ شاہی جلاد کے ہاتھوں اپنا سر قلم کروا بیٹھا- بعد میں اس کی کھوپڑی نے وہاں پہلے سے موجود ایک پرانی کھوپڑی کو بتایا؛
“Talking brought me here”.
ایڈورڈ لوبری آج اسی نظم کی وجہ سے مجھے یاد آیا- اس کی اس شاہکار نظم کے اس شاہکار جملے نے پاکستان کے موجودہ دور کے ایک مشہور کردار کے بہت سے مسائل کی تشخیص کر دی ہے-
پاکستانی تاریخ کے ہر دور میں کوئی ایک شخصیت پورے منظر پر چھائی رہی- ابتدائی سالوں میں بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب کی شخصیت اور خیالات ملک کے ہر شعبے میں اثر پذیر تھے- جناح صاحب اپنی قومی خدمات، دیانت داری اور اصول پسندی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں- ان کے بعد کئی سال تک جنرل ایوب خان، اور پھر بہت سالوں محترمہ فاطمہ جناح منظر پر غالب رہیں- 1970 کی دہائی میں پہلے جنرل یحیٰی خان پھر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء چھا گئے- 1985 سے 1999 تک دو شخصیات ملکی منظر پر غالب تھیں؛ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف- 1999 میں جنرل پرویز مشرف آ گیا- جب تک وہ اقتدار پر قابض تھا، سارے مناظر وہ اپنی مرضی سے ترتیب دلواتا تھا- لیکن اس کے باوجود اس کے دور میں بھی منظر پر میاں محمد نواز شریف چھائے رہے- 2007 میں جنرل پرویز چلا گیا اور سیاست کے کینوس پر میاں صاحب کے ساتھ آصف علی زرداری نظر آئے- 2010 میں اس کینوس پر گیند بلے کے ایک مشہور کھلاڑی عمران خان کی تصویر بھی چسپاں کر دی گئی- اب گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملکی منظر پر چار شخصیات نظر آ رہی ہیں؛ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان-
ہر دور کی غالب شخصیت کی الگ الگ پہچان رہی- جناح صاحب کی دیانت داری و اصول پسندی، جنرل ایوب خان کی آمریت، محترمہ فاطمہ جناح کی جرأت و بہادری، جنرل یحیٰی خان کی شراب و شباب، ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست اور آئین سازی، جنرل ضیاء کی مکاری و فریب کاری، بے نظیر کی عوامیت و جمہوریت، میاں محمد نواز شریف کی عوامی مقبولیت اور ترقیاتی منصوبے، خصوصاً سی پیک، جنرل پرویز کی رنگین مزاجی، اور رعونت و تکبر، آصف علی زرداری کی خارجہ پالیسی، سی پیک اور سیاسی فراست، اور مولانا فضل الرحمٰن کی اصول پسندی اور ملکی سیاست پر ان کی مضبوط گرفت- کیا کوئی مورخ بتا سکتا ہے کہ سیاست میں عمران خان کی پہچان کیا ہے؟ جی ہاں، عمران کی پہچان اپنی خود پرستی، تکبر، رعونت، آمرانہ مزاج، مکاری و عیاری کے ساتھ سیاست میں الزام تراشیاں، نفرت کے فروغ، جھوٹ در جھوٹ، اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں اشتعال ڈالنا ہے-
ان ساری خرابیوں سے بڑھ کر عمران کی جس عادت نے پاکستان کو مسلسل ہمہ قسم بحرانوں میں مبتلا کر رکھا ہے وہ ہے اس کا بڑبولا پن، اور دن رات مسلسل بغیر سوچے سمجھے بولتے رہنے کی ناپسندیدہ ترین عادت- اقبال کے الفاظ میں یہ شخص کردار کی بجائے صرف گفتار ہے- عمل کا دفتر خالی ہے- قمر و فیض کے ہاتھوں اور جہانگیر ترین کے جہازوں نے اسے وزارت عظمیٰ پر بٹھا دیا- اداروں نے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر اس کی پشت پناہی کی لیکن موصوف نے چار سال صرف مال بنانے اور تقریریں کرنے میں ضائع کر دیئے- پارلیمان کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخلی کے بعد موصوف نے سائفر، باجوہ، میر جعفر، میر صادق، فیض، غدار، ثاقب، لانگ مارچ، وزیر آباد فائرنگ، کینسر ہسپتال میں شش ماہی پلاستر، جان کو خطرے، کالی بالٹی، مشتعل کارکنوں کے ساتھ عدالتوں پر چڑھائی، ٹھوس مقدمات میں مسلسل عدم حاضری، لیکن ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے ضمانتوں کی بھرمار جیسے بیانیے بنائے- اپنی یقینی گرفتاری سے بچنے کے لیے مسلسل دھمکیاں دیں؛ “میں خطرناک ہو جاؤں گا” ، میری گرفتاری سے ایسا ردعمل آئے گا کہ یہ ملک کو سنبھال نہیں سکیں گے” جیسی باتوں سے کارکنوں کو مسلسل مشتعل کرنا کوئی اس سے سیکھے- اس کی اپنی دھمکیوں کے عین مطابق، پولیس وارنٹ کے کر اس کے گھر پہنچی تو اس کے تعینات کردہ کارکنوں نے دن بھر پولیس پر حملے کیے، درجنوں پولیس والے زخمی کیے، سرکاری گاڑیوں پر پٹرول بم پھینک کر آگ لگائی اور پھر ان گاڑیوں کو نہر میں پھینک دیا- جب 9 مئی کو اسے گرفتار کیا گیا تو انھوں نے افواج پاکستان سے وابستہ تقریباً ہر نشانی پر حملے کیے- جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس، شہداء کی یادگاروں، جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان، تھانوں، رینجرز چوکی، سرکاری بسوں اور جہازوں تک کو آگ لگا دی- پورا پاکستان اس دہشت گردی کی مذمت کر رہا ہے- لیکن عمران نے اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا- وڈیو ثبوتوں اور تصاویر کے باوجود خفیہ اداروں پر الزام تراشی کر رہا ہے- اگر یہ شخص اشتعال انگیزی بند کر کے صرف ایک ماہ خاموشی اختیار کر لے، تب بھی ملکی حالات اور خود اس کی اپنی سیاست میں مثبت تبدیلیاں آ سکتی ہیں- لیکن نہیں، یہ صرف بولنا جانتا ہے، بے تکان، بغیر سوچے سمجھے مسلسل بولنا؛
ایڈورڈ جوزف لوبری کے نظمیہ کردار Kagwa نے کہا تھا؛
“Talking brought me here”.

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply