عوامی سئو موٹو -چیف جسٹس حاضر ہو/علی نقوی

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ پاکستانی دوسرے اداروں سے بھی زیادہ گمبھیر ہے اس عدلیہ کے ایسے فیصلے بھی ہیں کہ جو آج تک شرم کے مارے اسی عدلیہ میں کبھی دوبارہ نظیر کے طور پر بھی کسی نے پیش کرنے کی ہمت نہیں کی، نظام عدل چاہے جتنا بھی گدلا اور مٹیالا ہو بہرحال کہیں نہ کہیں انسانی ضمیر سے جڑا ہوتا ہے تبھی آج بھی ہماری عدلیہ میں بھٹو کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھٹو کے خلاف سنایا جانے والا فیصلہ بھٹو کا بدترین دشمن بھی بطور نظیر پیش نہیں کر پایا۔۔

سئو موٹو کا نام قوم نے اس وقت کے امام العدل جنابِ افتخار چودھری کے زمانے میں بہت زور و شور سے سنا اور خصوصاً ان کے دوسرے دور میں کہ جب وہ سی این جی کی قیمتوں پر بھی سئو موٹو لے لیا کرتے تھے….

۔۔
قانون نے بہت سی اصطلاحات لاطینی زبان سے مستعار لی ہیں ان میں سے ایک “On its own Motion”
“سئو موٹو”(Suo Moto) ہے اگر اردو میں بات کریں تو
“از خود نوٹس”
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ایسی عدالتی کارر وائی یا نوٹس کہ جس کو کسی فریق نے دائر نہ کیا ہو بلکہ جج اپنی جانب سے یعنی از خود اس کا نوٹس لے کر اس پر سماعت شروع کر دے تو اس کو از خود نوٹس کہا جائے گا، اس کی روح یہ تھی کہ کسی بھی قسم کی مفادِ عامہ کے خلاف ہونے والی بے ضابطگی کا نوٹس لینے کی اجازت قانون کو دی گئی ہے.. ہو سکتا ہے کہ کوئی مظلوم ایسا بھی ہو کہ جس میں عدالت پہنچنے کی سکت اور ہمت ہی نہ ہو تو قاضی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ خود سائل کی دادرسی کے لیے پہنچ سکے۔۔
اگر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق بات کریں تو گزشتہ تئیس برسوں میں پاکستانی عدلیہ کے 14 چیف جسٹسز نے 204 سئو موٹو ایکشن لیے اوسطاً 14.5 سئو موٹو فی چیف جسٹس، لیکن ان میں افتخار چودھری 79 کے ساتھ سرفہرست ہیں ان کے بعد بالترتیب ثاقب نثار 47 کے ساتھ دوسرے اور انور ظہیر جمالی 25 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔۔ ان تئیس برسو ں میں چودہ میں سے صرف دو ایک بشیر جہانگیری اور دوسرے آصف سعید کھوسہ ایسے جج صاحبان ہیں کہ جنہوں نے اپنے عہدے کی مدت میں کوئی سئو موٹو نہیں لیا تھا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ جسٹس بشیر جہانگیری کی مدتِ ملازمت صرف چوبیس دن اور آصف سعید کھوسہ صرف گیارہ ماہ چیف جسٹس رہے۔
ان 204 میں 70 فیصد سئو موٹو ادارہ جاتی معاملات اور سیاسی تنازعات پر لیے گئے اور 89 فیصد کی پیروی ہی نہیں ہوئی بہت سے سئو موٹو ایک حکم کی طرح بہت زور شور سے نازل ہوئے اور اسی طرح غائب ہو گئے آنیاں جانیاں ہوئیں، تھرتھلیاں مچیں، ڈنکے پر چوٹیں ہوئیں، بریکنگ نیوز بنیں، افسران کی دوڑیں لگوائی گئیں، حکم صادر ہوئے لیکن نظام وہیں کا وہیں رہا بلکہ زیادہ بدتر ہو گیا.. عدالتیں بیلنسنگ ہی کرتی رہ گئیں کہ اگر نواز شریف اندر ہے تو آصف زرداری کے بھی کیس کھولیں، ادھر نواز شریف کو اگر نا اہل کیا ہے تو بیلنسنگ ایکٹ میں جہانگیر ترین کو بھی نا اہل کردیں، عدالتیں ماورائے قانون آرڈر جاری کرتی رہیں جو کہ نہ صرف عدلیہ کی تذ لیل کا باعث بنے بلکہ عدل کے راہ میں حائل بھی ہوئے..جیسے آصف سعید کھوسہ نے ثاقب نثار کے جاتے ہی ان کے 47 میں سے 41 سئو موٹو ایکشنز پر ایکشن رکوا دیا تھا یہی کچھ افتخار چودھری کے بعد آنے والے جسٹس جیلانی نے کیا تھا کیونکہ ان دونوں کا خیال تھا کہ یہ تمام سیاسی نوعیت کے سئو موٹو ہیں جس سے ظاہر کہ کبھی ایک سیاسی قوت کا فائدہ ہوتا ہے تو کبھی دوسرے کا اور اکثر غیر سیاسی قوتوں کا۔۔۔۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اس سئو موٹو کے قانون میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے معاملہ عدالت میں ہے لہذا اس پر زیادہ بات نہیں کرتے لیکن جس طرح موجودہ چیف جسٹس نے عمران خان اور تحریک انصاف کی سہولت کے لیے اس کا استعمال کیا ہے اس نے معاملے کو گمبھیر بنا دیا ہے، نہیں معلوم کہ اس کی کوئی نظیر پہلے ہو لیکن میں نہیں ڈھونڈ پایا کہ ایک ملزم ہو کہ جس کا نیب ریمانڈ لے چکی ہو جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نے نوٹس لیا ہو اور اپنی تسلی کرنے کے بعد اس گرفتاری کو قانونی قرار دیا ہو لیکن ایک دن کی کسڈی کے بعد ایک دوپہر اچانک چیف جسٹس سپریم کورٹ سئو موٹو کے تحت ملزم کو آدھے گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم جاری کریں، ملزم آئے تو اس کو کہا جائے کہ
“آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی”
ریمانڈ ختم کیا جائے اور ایک رات کے لیے ملزم کو پولیس گیسٹ ہاؤس میں نہ صرف رہنے بلکہ دس مہمان ساتھ رکھنے کھانے، پینے اور ریلیکس کرنے کی اجازت ملے اور صبح گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ کو ملزم کا پابند کیا جائے کہ وہ اس کیس کو وہیں سے سنے جہاں وہ ملزم کی گرفتاری کے باعث رک گیا تھا، یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ 9 مئی کے بعد بننے والے کسی بھی کیس میں ملزم کو گرفتار بھی نہ کیا جائے جاتے ہوئے اس کو “بیسٹ آف لک” بھی کہا جائے۔۔ اگر اس کو “لائسنس ٹو کِل” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جو چیف جسٹس صاحب کی جانب سے ایک ملزم کو عطا ہوا کہ اب اگر آپ کسی کو قتل بھی کر دیں گے تو آپ پر پرچہ نہیں ہو سکتا….
ہماری عدلیہ اس رویئے سے نا آشنا ہے یہ وہ عدلیہ ہے کہ جہاں ایک شخص کے کیس کا فیصلہ اس کے پوتے اور نواسے سنتے ہیں ابھی کل شیری رحمان نے سینیٹ کے فلور پر کہا کہ چار لاکھ کیسز عدلیہ میں زیرِ التوا ہیں ۔۔میں پاکستان کی عدالتوں کے تمام چھوٹے بڑے جج صاحبان کو ایک عام شہری کے طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی عدلیہ پاکستان کے عام شہری کے لیے آسانی نہیں بلکہ تکلیف کا باعث ہے، آپ لوگ جانبدار تو ہوں گے بد عہد، اور بد سرشت بھی ہیں اگر میں ایک ملتان میں رہنے والے شہری کی نظر سے عدلیہ کو دیکھوں تو آپ بعینہ پاک آرمی کے ایک منظم قبضہ گروپ ہیں کیا اس ملک کا کوئی چیف جسٹس بتا سکتا ہے کہ کس قانون کے تحت آپ لوگوں نے ملتان کچہری کے باہر سڑک پر قبضہ کر رکھا ہے؟؟ کس قانون کے تحت کچہری کے پل کے نیچے پارکنگ بنائی ہوئی ہے ؟؟ کس قانون کے تحت وکیلوں اور ججوں کی گاڑیاں بیچ سڑک میں پارک ہوتی ہیں ؟؟ کون سا قانون کون سا آئین آپ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ آپ کے ایف سی چوک سے لیکر ایس پی چوک کے بیچ کی سڑک دوپہر میں عام ٹریفک کے لیے بند کر دیں؟؟ ایک بار یہ بات مجھے ایک ٹریفک پولیس کے سارجنٹ نے کہی تھی کہ جسٹس صاحب کے حکم سے یہ روڈ دوپہر تین بجے تک عام ٹریفک کے بند ہے کس قانون کے تحت یہ تو آپ پوچھ ہی نہیں سکتے؟؟ کیونکہ اس قسم کا کوئی بھی سوال توہینِ عدالت ہے..کیا کوئی ملتان کا شہری پوچھ سکتا ہے کہ صبح صبح گلگشت کالونی میں واقع ایکٹروں پر محیط ججز کالونی کے باہر کس قانون کے تحت لائن سے لگی پولیس موبائلز عام ٹریفک کو ججز کالونی کے گیٹ کے سامنے سے گزرنے نہیں دیتی؟؟ ججز کا پروٹوکول کیا اور کتنا ہو سکتا ہے؟؟ ایک سول جج، سیشن جج، ہائیکورٹ کے جج اور جسٹس کو آئین اور قانون کتنی سیکورٹی ساتھ رکھنے کی اجازت دیتا ہے کیا کوئی پوچھ سکتا ہے؟؟ کیا کسی بھی جج کی سیکورٹی کے اہلکار منہ پر کپڑا باندھ کر ہاتھوں میں تیار گن لیے عام ٹریفک کو روک سکتے ہیں؟؟ کیا انکی سیکورٹی کو سائرن بجانے اور مسلسل بجانے کی اجازت ہے؟؟ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جج کا پروٹوکول اشارہ توڑ کر نکلا اور جس طرف کا اشارہ کھلا ہوا تھا اس ٹریفک کو جج کی سیکورٹی کے گن پوائنٹ پر روک کر رکھا، حد یہ ہے کہ اس پر توہین بھی آپ کی ہو جاتی ہے ؟؟ جس طرح فوج نے علاقے کے علاقے قبضہ کر لیے ہیں وہی طریقہ کار عدلیہ نے اپنایا ہوا ہے جو بولے اسے طلب کر لو جو سوال کرے اسے نشانِ عبرت بنا دو ملتان میں جہاں کچہری ہے وہ شہر کا وسط ہے گورنمنٹ نے کچہریوں کے لیے شہر سے ذرا ہٹ کے ایک کھلی اور کم گنجان جگہ الاٹ کی نئی عمارات اور عدالتیں بنائی گئیں کشادہ اور تازہ نہ کہ موجودہ کچہری کی طرح تاریک و بوسیدہ لیکن وکیلوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ کچہری فعال نہ ہو سکی کیونکہ وکیلوں نے سٹئے لے لیے اور ججوں نے فوراً دے دئیے، شہر صرف ان عدالتوں کی وجہ سے شام تک جام رہتا ہے کوئی شریف آدمی اس علاقے سے گزرنا نہیں چاہتا کہ جہاں یہ عدالتیں ہیں اور یہی حشر اس عدلیہ نے ہر شہر کا کر رکھا ہے کیا لاہور کیا فیصل آباد کیا سرگودھا اور کارکردگی صفر سے بھی بدتر۔۔
جسٹس صاحبان کو کوئی بتائے کہ اس ملک میں محاورہ ہے کہ وکیل کیا کرنا جج ہی کر لیتے ہیں، اس ملک میں اشتہاری مجرمان کو پہلی پہلی پیشیوں پر ضمانتیں ملی ہیں، راشد رحمان جیسا وکیل جج کو کہتا رہا کہ یہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں تو جج نے کہا کہ مذاق کر رہے ہیں اور دو دن بعد راشد رحمان اپنے دفتر میں مارے جاتے ہیں لیکن کیا کوئی انٌ جج صاحب سے کچھ بھی پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے؟؟
بات تھوڑی اور طرف نکل گئی بات ہو رہی تھی سئو موٹو کی میں موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے قانون کی مکمل حمایت کرتا ہوں کہ سئو موٹو کا قانون بے لگام ہے اگر سئو موٹو لینا ہے تو اس غریب کی ہڑپی ہوئی جائیداد کے کیس پر لیں کہ جو اس کے دادا نے چالیس سال پہلے دائر کیا تھا جس کو لڑتے لڑتے اس کے دادا اور والد فوت ہو چکے اور وہ خود بھی بڑھاپے کے دہانے پر ہے، اس بڑھیا کے کیس پر کہ جس آسرا آسمان پر خدا اور زمین پر آپ ہیں لیکن آپ کے پروٹوکول میں موجود پولیس والا بھی اسکی جانب دیکھنا پسند نہیں کرتا، سئو موٹو لینا ہے تو اس سیاستدان کے خلاف لیں کہ جس نے اپنے الیکشن منشور کو پورا نہیں کیا، اس سیاسی جماعت کے خلاف جس کے اپنے اندر جمہوریت نہیں ہے، اس ادارے کے خلاف کہ جو اپنا کام نہیں کرتا، اس سرکاری افسر کے خلاف کہ جو عام لوگوں کی مشکلات حل نہیں کرتا، اس حکومت کے خلاف کہ جو مفادِ عامہ کی مخالف پالیساں بناتی ہے، اس جج کے خلاف جو فیصلہ نہیں تاریخ دیتا ہے۔۔
آخر میں موجودہ چیف سے ایک دست بستہ گزارش ہے سر شاید آپکو معلوم نہیں کہ سوشل میڈیا پر آپکی خوش دامن (ساس) کی ایک جھوٹی سچی آڈیو کال گردش کر رہی ہے جس میں وہ عمران خان کی حمایت کا کھلم کھلا اعلان فرما رہی ہیں اور ان کی خواہش یوں ظاہر ہوئی کہ اگر عمران خان نہیں تو مارشل لاء ہی لگ جائے اور فوج کے مارشل لاء نہ لگانے پر وہ کبیدہ خاطر بھی ہیں آپ کی صاحبزادی محترمہ سحر بندیال سے متعلق یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ان کو عمران خان کی حکومت نے دو ملین کی تنخواہ پر رکھا ہوا تھا، یہ تمام باتیں بہت سہولت سے نظر انداز کی جاسکتی تھیں اگر آپ عمران خان سے ایک ملزم کے طور پر پیش آتے نہ کہ ان کے سہولت کار کے طور پر کیا آپ نہیں دیکھ پا رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے باہر کیا ہو رہا ہے؟؟ شاید مولانا کا احتجاج درست نہ ہو لیکن وہ لوگ کہ جو خود اور جن کا سیاسی کیریئر انہی عدالتوں کے متنازع فیصلوں کی بھینٹ چڑھتا رہا ہو، وہ یہ سب کیسے اور کیوں برداشت کریں جن میں سے کسی کو آپ نے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا ہل کیا ہو، کسی کو آدھے منٹ خاموش رہنے کی سزا پر وزیر اعظم کی کرسی سے فارغ کیا ہو، کسی پر جھوٹی ہیروئن ڈال کر نو مہینے اسکو اندر کر دیا ہو، ایک جانب بشریٰ مانیکا صاحبہ کو ایک پیشی پر تیار ضمانت تمام مقدمات میں مل جائے دوسری جانب فریال تالپور کو عید کے دن ہسپتال سے گرفتار کیا جائے، مریم نواز کو جیل میں باپ کے سامنے سے گرفتار کیا جائے، اسی مریم نواز کے فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں صبح سویرے چھ بجے سیکورٹی اہلکار بغیر اجازت گھس جائیں تو پھر لوگوں کو یہ تمیز بھول جاتی ہے کہ وہ جو بھی ریسپانس دے ہیں وہ اخلاقی اقدار میں کہاں کھڑا ہوتا ہے، عدالت کی تعظیم و توہین اسکے فیصلے کراتے ہیں، کیسے وہ عدالت اپنی تعظیم کرایے کہ جس نے بھٹو کو پھانسی دی، اور کون اس عدالت کی توہین کر سکتا ہے جہاں سے غریب کو انصاف ملتا ہو؟؟ سوالوں اور اعتراضات کا جواب دیں نہ کہ سوال کے جواب میں توہین کا تیر چلایا جائے… یہ اب آپ پر ہے کہ آپ جسٹس کارنیلیس ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس رانا بھگوان داس جیسے جید جسٹسز میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں یا مولوی مشتاق ، جسٹس انوار، افتخار چودھری اور ثاقب نثار جیسوں میں دونوں راستے کھلے ہیں اور دونوں کہاں پہنچتے ہیں سب نے پہلے بھی دیکھ رکھا ہے ۔۔ چیف جسٹس صاحب جواب دیں ۔ ملزم کو نہ بلائیں اب خود حاضر ہوں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ گردوپیش

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply