الحاد بمقابلہ شیعت/ابو جون رضا

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیعت الحاد کے مقابلے میں سنیت سے زیادہ محفوظ ہے کیونکہ محرم نے شیعوں کو محراب و منبر سے جوڑ رکھا ہے۔

میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ محرم کی وجہ سے شیعہ منبر سے منسلک ہیں مگر جب ان کو پتا چلتا ہے کہ منبر پر بیٹھنے والا کیا واہی تباہی بک کر چلا گیا تو ان کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیعہ علما  نے خود کو اپگریڈ نہیں کیا ہے۔ یہ وہی جنات اور آسمان سے تلواریں اُترنے کے اوٹ پٹانگ قصے سنا کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا ہے۔

دوسری طرف بہت سے لوگوں کی تعداد ایسی ہے کہ جو سمجھتے ہیں کہ محرم میں فرش عزاء ضرور بچھنا چاہیے ،چاہے صاحب ِمنبر کتنی ہی جھوٹی روایات کیوں نہ پڑھے۔

میرے خیال میں ایسی روایات جن کا اجراء منبر سے ہو اور بعد میں نوجوان نسل کو پتا چلے کہ یہ جھوٹ پر مبنی ہیں ، اس سے بہتر ہے کہ مجلس نہ ہو۔

اس طرح کی مجالس کا اثر نوجوانوں پر اس طرح سے اثر دکھاتا ہے جس طرح سے زیر آب آتش فشاں اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور اچانک سے سونامی آجاتا ہے۔

پاکستانی ماحول کے تناظر میں ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

آپ سیرت ابنِ  ہشام اردو میں پڑھیں اور پھر اصل فارسی یا عربی میں پڑھیں

آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس قدر چیزیں اڑا دی گئی ہیں یا الفاظ بدل دیے گئے ہیں

اسی طرح سے مفاتیح الجنان میں تحریف قرآن کی دعائیں یا اذکار ہیں جو اُردو ورژن میں اڑا دیے گئے ہیں اس کے علاوہ حدیث کساء کو زبردستی ضمیمہ بنا کر مفاتیح میں گھسیٹر دیا گیا ہے کیونکہ نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایسی مقدس روایت جو ہر مجلس سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس کو شیخ عباس قمی نے در خور اعتناء ہی نہیں سمجھا کہ اتنی موٹی کتاب میں اس کو کہیں کونے میں ہی جگہ دے دیتے ؟؟

پھر جب ان کو پتا چلتا ہے کہ یہ تو عوالم العلوم کے حاشیے پر کسی مجہول انسان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی بلا سند روایت ہے تو انسان کا ایمان ڈانواں ڈول ہوجاتا ہے۔

بے تحاشہ باتیں ہیں جن کی اصل کا جب پتا لگتا ہے تو انسان یا تو رجڈ(Rigid) ہوجاتا ہے کہ بقول قرآن کہ ہم نے اپنے آباء کو اسی روش پر پایا ہے ۔ (ان سے پوچھو کہ کیا وہ بالکل عقل نہ رکھتے ہوں تب بھی؟) یا پھر وہ اگنوسزم کے راستے پر چل پڑتا ہے۔

وہ ظاہراً اپنے لوگوں میں ان کے ہم مسلک اور ہم مذہب ہی نظر آئے گا مگر اندر سے اس کا مذہب سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ وجدانی احساس کو الحاد سے وابستہ لوگ نظر انداز کرتے ہیں۔۔

یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن نے کہا کہ عنقریب ہم آفاق اور تمہارے نفسوں میں تمہیں نشانیاں دکھائیں گے ۔

میں نے ملحدین کے ساتھ کافی گفتگو کی ہے ۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربات بھی مجھ سے بیان کیے ہیں جو خود ان کے لیے بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں تھے یا اس کی وہ کوئی توجیہ پیش نہیں کر پارہے تھے۔

اسی وجہ سے رچرڈ ڈاکنز نے ملحدین کی کٹیگری  طے کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ڈاکنز بھی کبھی خود کو تیسرے ، چوتھے یا پانچویں نمبر پر آگے پیچھے کرتا رہتا ہے۔

اس کی خوش نصیبی ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا نہیں ہوا جہاں نبوت کا دعوی کرنے والے اور انکار کرنے والے دونوں کے لیے سزا موت ہے ورنہ وہ شدتِ  ردِعمل میں ساتویں نمبر پر پہنچ جاتا۔

حضرت علی نے درست فرمایا ہے  کہ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جن کی عقول میں خدا نے کلام کیا ہے ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علما  نے خود کو بلند نہیں کیا۔ انہوں نے ریشنل سوالات کے جواب میں کفر اور توہین کے فتو ے  لگائے۔

ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر پرانی چیزوں پر کلام کیا جائے گا تو اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور ہماری طرف لوگ رجوع کرنا بند کردیں گے۔

لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ جوابات نہ ملنے پر بھی بد دل ہونگے۔ اور سختی ان کو مزید مذہب سے دور کرے گی۔

مبشر بھائی نے بہت ساری الحادی کتابیں اپنے کتب خانہ میں حالیہ پوسٹ میں پیش کی ہیں ۔ میں الحمدللہ سب پڑھ چکا ہوں اور آج بھی اپنے وجدانی احساس کی وجہ سے بہت اطمینان سے مذہب پر قائم ہوں۔

یہ اور بات ہے کہ مجھے میرے مسلک کے لوگ سنی وہابی اور پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply