• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کلائمبنگ سیزن کاآغاز اور نیپالی کمپنیوں کے ڈرامے/عمران حیدر تھہیم

کلائمبنگ سیزن کاآغاز اور نیپالی کمپنیوں کے ڈرامے/عمران حیدر تھہیم

مَیں بُنیادی طور پر کوہ پیمائی میں کمرشلزم کے خلاف نہیں صرف غیر تربیت یافتہ لوگوں کو ورغلانے کے خلاف ہوں۔ آپ دیکھیں کہ ابھی نیپالی آؤٹ فِٹّرز نے گُزشتہ چند سالوں میں بہت سے نوجوان مرد و خواتین کو ورغلا کر کوہ پیمائی میں سب سے پہلے، سب سے کم عُمر اور نمبر ون کی فضول دوڑ میں لگا دیا ہے۔ اور بدقسمتی سے اس کا زیادہ شکار پاکستان، بھارت اور عرب ممالک کے مرد و خواتین ہوئے ہیں۔ وہ عربی خاتون نیلی عطّار ہو یا پاکستانی نائلہ کیانی یا پھر بھارتی بلجیت کَور یا پھر پاکستانی نوجوان شہروز کاشف سب اسی راہ کے مُسافر ہیں کہ کسی طرح فلاں ریکارڈ اُن کے نام لگ جائے۔ اس تازہ بےمقصد دوڑ میں ان سب لوگوں کو لگانے والا نیپالی فراڈیہ شرپا نرمل پُورجا ہے۔ یورپی نژاد کوہ پیما زیادہ تر اس قسم کی مقابلے کی فضا سے کافی حد تک دُور ہیں۔ جیسا کہ فن لینڈ کی Lota Hintsa اور Andorra کی Stefi Troguet دو ایسی نوجوان خواتین ہیں جو نیپالیوں کے اس وار سے بچی ہوئی ہیں۔ ایک برٹش Adri Brownlee اس کا شکار ہوئی لیکن اس سال اُس نے توبہ کر لی ہے اور چند دن پہلے اس مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ نیپالیوں کی طرف سے غیرتربیت یافتہ لیکن امیر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اس فیک ہیروازم کے پیچھے لگانے کے پروگرام کا تازہ شکار ایک نادیہ آزاد نامی پاکستانی نژاد لڑکی ہے جسے یورپ سے کوہ پیمائی کےلیے ورغلا کر لائے ہیں اور ڈائریکٹ اَنّا پُورنا پر چڑھا دیا ہے۔ اُس کے پاس یورپ کی 4000 میٹر والی پہاڑیاں چڑھنے کے علاوہ کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب یہیں سے نیپالی اُسے ہیروازم اور شہرت کے پیچھے لگا دیں گے اور پھر وہ ہر سال یورپ سے سپانسر گھیر گھار کر شُہرت کے اِس نشے کے پیچھے لگ جائے گی اور ڈالرز لا لا کر نیپالیوں کی جھولیاں بھرے گی۔ جبکہ ایسا پہلے ہی دو پاکستانی نائلہ اور شہروز کر رہے ہیں۔ اس شُہرت پسندی کا پاکستان کے شُعبہ سیاحت اور کوہ پیمائی کو کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی کوہ پیمائی نے بانجھ کلائمبر پیدا کیے جنہوں نے ہمیشہ اپنی ذات کےلیے اچیومنٹس کیں۔ اشرف امان سے لیکر شہروز کاشف تک سارے ہی قومی ہیروز ہیں۔ بدقسمتی سے اس شُعبے میں پاکستان کا حقیقی خدمتگار کوئی نہیں ہے۔ اسی ڈگر پر چلتے ہوئے پاکستانی آؤٹ فِٹّرز نے بھی گُزشتہ سال ایک 16 سالہ پاکستانی بچّی کو براڈ پِیک سر کروانے کے خواب دکھائے لیکن فٹنس اور تربیت کے فقدان کے باعث وہ بچّی براڈ پِیک کے کیمپ ون سے آگے نہ جا سکی۔ اس سال پاکستان کے کلائمبنگ سیزن شروع ہونے پر معلوم ہوگا کہ پاکستانی کمپنیوں نے اس سال کون کون سے مُرغے مُرغیاں گھیری ہوئی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آتے ہیں نیپالی سیزن کی طرف جس کا آغاز ہر سال اپریل میں تین آٹھ ہزاری پہاڑوں مناسلُو، اَنّا پُرنا اور دھولاگیری پر کلائمبنگ سے ہوتا ہے۔ مناسلو پر خراب موسم کے باعث اس سپرنگ سیزن میں تاحال کوئی سمٹ نہیں ہو پائی۔ جہاں تک
اَنّا پُورنا کا تعلّق ہے تو آپ اگر نیپالیوں کی اَنّا پُورنا پر پچھلے سال اور اس سال کی وارداتوں کا جائزہ لیں تو آپ کو ایک ہی پیٹرن نظر آئے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال جو واردات Ascent کے دوران کی تھی وہی اس سال Descent کے دوران کر دی ہے۔ پہلے ذاتی مُلازم شرپا، نصب شُدہ رسّیوں اور مصنوعی آکسیجن کے ذریعے ناتجربہ کار ماؤنٹین ٹُورسٹس کو پہاڑ کی چوٹی پر پہنچایا اور پھر جب واپسی پر موسم خراب ہوا (جو کہ آٹھ ہزاری پہاڑوں پر معمول کی بات ہے) تو ہیلی کاپٹر ریسکیو کی refundable بھاری رقم کو بٹورنے کےلیے ہیلی ریسکیو آپریشن شروع کر کے افراتفری پھیلا دی۔ کوہ پیمائی کا اصل حُسن ہی نامساعد حالات اور اچانک پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں۔ انہی خطرات کا لُطف اُٹھانے کےلیے ماضی اور حال کے باقاعدہ تربیت یافتہ کوہ پیما پہاڑوں میں جاتے تھے۔ لیکن نیپالی جانتے بُوجھتے ہوئے جدید دور کے ہائبرڈ کلائمبرز کو ڈرانے کےلیے اُن کے ساتھ ریسکیو کے ڈرامے شروع کر دیتے ہیں۔ 7000 میٹر پر اور وہ بھی سمٹ سے واپس اُترائی کے دوران طبّی لحاظ سے آکسیجن کی کمی یعنی hypoxia کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا. جبکہ ایوالانچز تو وہاں ویسے ہی آتے رہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر واقعی وہاں موسم اتنا خراب تھا تو پھر ہیلی کاپٹرز کی پرواز کیسے ممکن ہوئی اور اُس کےلیے موسم کیسے بہتر ہو گیا؟
اگر آپ کو یاد ہو تو اَنّا پُورنا پر پچھلے سال بھی نیپالیوں نے رُوٹ فِکسنگ کے دوران رسّیاں کم پڑ جانے کا ڈرامہ کرکے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے 7000 میٹر پر رسّیاں پہنچانے کا ڈرامہ رچایا تھا۔
دراصل سارا مقصد صرف ایمرجنسی کی مصنوعی کیفیت پیدا کر کے رقم بٹورنا ہوتا ہے۔ لیکن انہیں پُوچھنے والا کوئی نہیں ہے جبکہ انکے کلائنٹس جو غیرتربیت یافتہ ہائبرڈ کلائمبرز ہیں اور وہ پہلے ہی انہیں مسیحا سمجھتے ہیں۔ ان کوتاہ فہموں کو یہ بھی شاید معلوم نہ ہو کہ دُنیا کے تمام 14 بڑے بڑے آٹھ ہزاری پہاڑوں پر ماضی کے کوہ پیماؤں نے بہادرانہ کوہ پیمائی اور پھر ریسکیو کی ایسی ایسی لازوال داستانیں رقم کی ہیں کہ جن کو پڑھ کر آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ کوہ پیمائی کی تاریخ کھنگالیے اور ذرا دیکھیے کہ اسی اَنّا پُورنا پر کیسے سوئس الپائنسٹ Ueli Steck نے Solo Ascent کی تھی۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر آسٹریلین Lincoln Hall کو ریسکیو کیے جانے کے واقعے پر تو ایک فلم بھی بن چُکی ہے۔ اسی طرح نانگا پربت پر سلوانیہ کے سولو کلائمبر Tomaz Humar کا ریسکیو اور پھر نانگا پربت پر ہی اٹالین Karl Unterkircher کا کریوس میں گرنے کے باوجود کریوس کے اندر سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے باقی دو ساتھیوں کی جان بچانے والے ہیلی ریسکیو مشن کو گائیڈ کرنا اور پھر کامیاب ریسکیو کے بعد اپنا ریڈیو بند کرکے خُود کو euthanize کر لینا کیونکہ کریوس کی گہرائی اتنی زیادہ تھی کہ خُود ریسکیو نہیں ہو سکتا تھا۔ حالیہ سالوں میں چار پولش کوہ پیماؤں کا کے۔ٹو سے اُتر کر نانگا پربت پر آکر فرانسیسی کوہ پیما الزبتھ ریوول کو کامیابی سے زندہ بچانا۔ کاش ہمارے ہائبرڈ کوہ پیما کلائمبنگ ہسٹری کو بھی پڑھیں اور اُس کے مطابق اپنے اندر تربیتی صلاحیت پیدا کر لیں تو یقیناً یہ لوگ بھی نیپالیوں کی وارداتوں کو سمجھ سکیں گے اور یہ عمل انکے مُستقبل کی کلائمبنگ میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔
تاہم ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نیپالیوں کے ڈراموں کے نتیجے میں ریسکیو ہونے والوں نے بھی آئندہ سارا سال مُختلف تقریبات میں موٹیوشنل گیسٹ سپیکرز بن کر جانا ہے اور وہاں اپنے ریسکیو کی کہانیاں سُنا کر اپنا خرچہ پُورا کرنا ہے شاید اس لیے ابھی یہ لوگ میری گُزارشات کو سمجھ نہیں پائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply