رشتہ داروں کی ہر کل ٹیڑھی/ محمد علی افضل

یوسفی نے دشمنوں کے حسب ِعداوت تین درجے گنوائے ہیں۔ دشمن ، جانی دشمن اور رشتے دار۔ ہم سورج کو چراغ دکھائے دیتے ہیں کہ رشتے داروں کی فہرست میں موجودگی سے بقیہ دونوں اقسام خواہ مخواہ ولی اللہ معلوم ہوتی ہیں۔ ابلیس کا تو نام بدنام ہے۔ علیحدگی میں کسی دن اُس سے رشتہ داروں کی بابت پوچھ لیں ۔ توبہ توبہ کرے گا اور کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔
برطانوی حکومت نے اپنے قیام کے دوران برصغیر کی تنزلی کی جن وجوہات کی نشاندہی کی ہے ان میں رشتہ دار سرفہرست ہیں۔
آپ سب نے خلیل جبران کا نام لازماً سن رکھا ہوگا۔ آپ یہ ملاحظہ فرمائیں۔
‘انسان کی شادمانی کے شیش محل میں لگنے والا سب سے پہلا پتھر رشتے دار مارتے ہیں’
اس کوٹیشن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ خلیل جبران نے نہیں کہی۔ میں نے کہی ہے۔

دنیا میں جتنے بھی لوگوں نے ترقی کی ہے رشتے داروں کو مقام مخصوصہ پر رکھ کر ہی کی ہے۔
انہیں عید ، شب رات ، شادی یا غمی سے فقط ایک غرض ہوتی ہے کہ یہ اس میں اپنا شر پھیلا سکیں۔
‘اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلا ؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔’ بقرة
غالب گمان یہی ہے کہ یہ آیت رشتے داروں کے بارے میں ہے۔

دل کے ہسپتالوں میں مریضوں کو احتیاطی تدابیر میں ورزش ، سادہ غذاؤں کی بجائے اگر صرف رشتے داروں سے بچنے کا مشورہ دے دیا جائے تو دل کے امراض ہی ختم ہوجائیں۔
ان کا طریقہ واردات اس قدر متنوع اور غیر متوقع ہوتا ہے کہ ایک مضمون میں بیان کرنا مشکل تحریمی ہے۔
پھر بھی ہم دو ایک مثالوں کے ذریعے کوشش کرتے ہیں۔

آدمی کا اپنی شادی والا ہفتہ اس کی زندگی کے مصروف ترین ‘ایام’ میں شمار ہوتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان خود سے بے خود ہوجاتا ہے۔اس کے دائیں ہاتھ کو بائیں کا ہوش نہیں رہتا ۔ کارڈ چھپ گئے۔مہندی ، بارات ، ولیمہ کے جنجال سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ایسے میں خبر ملتی ہے ابّا کے فلاں کزن صاحب برہم ہیں کہ کارڈ پر ان کا نام کیوں نہیں لکھوایا۔
اماں کی کزن صاحبہ کا فرمانا ہے شادی کا فنکشن ٹنڈو اللہ یار کی بجائے اسلام آباد میں کیوں رکھا ہے؟اب تو رکھ دیا اب کیا کریں؟
پھپھو نے کارڈ ہی واپس کردیا ہے ان کا پیام بر سندیسہ لایا ہے کہ بارہ سال قبل جب پھوپھا کے بزنس پارٹنر کی سالی کے بھتیجے کا ختنہ تھا اس پر چونکہ آپ لوگ تشریف نہیں لائے تھے لہذا ہم تو بالکل نہ آئیں گے۔

اب جو رشتہ دار شادی میں شرکت فرماتے ہیں وہ آکر اس قدر مونگ چھاتی پر دَلتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں غیر حاضر رشتہ داروں پر بے اختیار پیار سا آنے لگتا ہے ۔
دوسرے شہروں سے تشریف لانے والی رشتہ دار خواتین کا تقاضا ہوتا ہے کہ انہیں گھر میں بیوٹی پارلر کھول کر دیا جائے۔ گھر کی جملہ اشیا پر وہ لوٹ مار کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ان کے بدتمیز بچے دروازہ کھول کر بیت الخلا میں کھڑے کھڑے مُوت رہے  ہوتے ہیں۔
ماؤں نے استری یوپی ایس پر لگا کر تیس ہزار کی بیٹری ہی فارغ کر دی ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ ہماری شادی پر تشریف لانے والے ہمارے رشتہ دار صبح سویرے منہ اندھیرے ہی پوچھنے لگے کہ ولیمہ کتنے بجے ہے؟
حالانکہ یہی لوگ شادی کے کارڈ کے ایک ایک لفظ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے تھے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ شام سات تا دس بجے فلاں میرج ہال اسلام آباد میں ہے تو یہ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر نتھیا گلی روانہ ہوگئے کہ شام کو سیدھا فنکشن میں پہنچ جائیں گے۔ ہم منع کرتے رہ گئے مگر کسی نے ہماری ایک نہ سنی۔۔۔دسمبر کا مہینہ تھا اور برف باری کا موسم۔ وہاں پھنس گئے۔ اب ہال بُک ہے۔ مہمان پہنچ چکے ہیں۔ ہم رشتے داروں کے انتظار میں سوٹ بوٹ میں ملبوس سٹینڈ بائے کھڑے ہیں۔ آخر آٹھ بجے ناچار ہم گھر کو تالا لگا کر شادی ہال چلے گئے۔ ٹھیک نو بجے کال پر کال آنا شروع ہوگئی کہ ہم آپ کے گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ آپ تشریف لائیں ۔ عرض کیا آپ سیدھا ہال میں آجائیے۔ فنکشن شروع ہے۔ ہم یہاں سٹیج پر چڑھے بیٹھے ہیں۔ نہیں آسکتے ہیں۔ فرمانے لگے تو گھر کُھلوا دیجیئے۔ ہم نے شی کرنا ہے۔ نہانا دھونا ہے۔ کپڑے استری کرنے ہیں۔ بچوں اور ان کی ماؤں کے ڈائیپر تبدیل کروانے ہیں ۔ خواتین نے میک اپ کرنا ہے۔ اور آپ کے پاس رولر ہے کیا؟ بال رول کرنے والا؟
اتنے میں فوٹو گرافر بولا
‘ارے دولہےسر ، سامنے دیکھیئے ، فون بعد میں کر لیجیئے گا۔ ناراض بھی نہ ہونا۔’
اس وقت ہمارا منہ ایسا بن گیا جیسا بچہ پاخانہ کرتے وقت بناتا ہے۔

ولیمہ کے بعد گھر پہنچے ہیں تو سیر سپاٹے والے رشتہ دار گلی میں مونہوں کو ڈبل روٹیاں بنائے کھڑے ہیں۔ جیسے ہی دروازہ کھلا اپنے بیگ اٹھا اور بغیر سلام دعا یہ جا اور وہ جا۔ آج تک منہ پھلائے پھرتے ہیں۔

اب مرگ  کا حال سن لیجیے۔جو رشتے دار فوتگی پر تشریف نہیں لاتے ان کا سب سے بڑا عذر یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟

یاد رہے یہ کسی مشترکہ رشتے دار یا دوست احباب کی طرف سے دی گئی اطلاع کو اطلاع نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کا تقاضا ہوتا ہے کہ مرنے والے کا بیٹا ، بیٹی ، خاوند ، بیوی یعنی انتہائی قریبی قرابت دار انہیں اطلاع پہنچائیں۔جو لوگ آجاتے ہیں وہ صف ماتم پر بیٹھ کر “کیا ہوا تھا؟ ” کے بعد ملک میں جاری سیاسی کشمکش ، اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے اور دنیا بھر میں امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ابھرتی ہوئی سپر پاورز کے رسوخ پر سیر حاصل بحث فرماتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد سمارٹ فون نکال کر سکرولنگ کرتے ہیں۔ پھر کال سننے کے بہانے گلی میں جاکر سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔
واپس اندر آکر ان میں سے کوئی ایک پوچھتا ہے اللہ دتہ صاحب نہیں آئے؟ کوئی کہتا ہے شاید نہیں آئے۔
“کیوں ان کو اطلاع نہیں دی گئی تھی کیا؟
بہت ہی بُری بات ہے۔ دیکھو مصروف تو ہم بھی بہت تھے مگر ہزار میل سے اٹھ کر آگئے اور یہ ایک گھنٹے کی مسافت سے نہ آسکے۔
بھئی آج کل چل چلاؤ کا زمانہ ہے۔ مروت اور لحاظ ختم ہوگیا ہے۔ مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ حالانکہ مرحوم اللہ دتے کو اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔”
دوسرا رشتہ دار : ارے تمہیں یاد نہیں جب انہوں نے اپنا اکلوتا سکوٹر بیچ کر اسے دس ہزار روپیہ دیا تھا۔
بہت ہی مطلبی نکلا یار۔”
تیسرا : (سسکی لیتے ہوئے مرحوم کے بیٹے کی طرف اشارہ کر کے باآواز بلند)یہ تو ان کو سوچنا چاہیے جو ہر معاملے میں ان کو سر پر بٹھاتے ہیں اور ہمیں کسی کھاتے میں نہیں لاتے ۔”

Advertisements
julia rana solicitors

قبرستان میں دفن سے ذرا پہلے جب قبر کھد کر تیاری کے آخری مراحل میں ہے تو تین تین چار کی ٹولیوں میں بٹ کر درختوں اور دیواروں کے سائے  میں قہقہے لگ رہے ہیں۔
دفن کے بعد یا دفن سے پہلے ہی رشتے دار چھٹنا شروع ہوئے۔
ایک جنازے میں مرحوم کا سگا بھتیجا مجھے کہنے لگا
ڈاکٹر صاحب ، آپ کس طرف جا رہے ہیں؟ مجھے بھی ذرا اپنے گھر بحریہ ٹاؤن میں اتار دیجیے گا۔
میں نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو ایک رزیل شیطانی مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ سرگوشی میں کہنے لگے
“چاچے کے بیٹوں اپنے کزنوں کو حاضری لگوانی تھی ، وہ لگوا دی ۔ گلے مل کر رو لئے۔ اور کیا کریں ڈاکٹر صاحب؟ گرمی نے بے حال کیا ہوا ہے۔ مرنے والا مر گیا ۔ اب کیا ہم بھی اس کے ساتھ مر جائیں؟”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply