مذہب اور معاشرتی اصلاح – خواتین کے مقام وحقوق کے تناظر میں

اللہ کے مستند پیغمبروں کی دعوتی جدوجہد سے مذہب کا جو تصور سامنے آتا ہے، اس کا ایک بہت بنیادی جزو معاشرتی ناہمواریوں اور اخلاقی بگاڑ کی اصلاح ہے۔ مذہب انسان کے عقیدہ وایمان کے ساتھ ساتھ اس کے عمل کا بھی تزکیہ چاہتا ہے، چنانچہ یہ ناگزیر ہے کہ انسانی جبلت کے منفی رجحانات سے پیدا ہونے والے معاشرتی رویوں اور رسوم واعمال کی اصلاح مذہبی تعلیمات کا موضوع بنے۔ اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے بھی عرب معاشرے کے تین پسے ہوئے اور مظلوم طبقوں، یعنی غلام لونڈیوں، عورتوں اور بے سہارا یتیموں کو اٹھانے اور انھیں ان کے حقوق دلوانے کو اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کا بطور خاص ہدف ٹھہرایا۔

اس ضمن میں خواتین کے معاشرتی حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ نا انصافی اور استحصال کے خاتمے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصلاحی اقدامات کیے، ان کا ایک جائزہ لینے سے حسب ذیل منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔

تصورات کی اصلاح کے حوالے سے سب سے بنیادی کام یہ کیا گیا کہ بطور صنف عورت کی تکریم و احترام کو اجاگر کیا گیااوربچیوں کی اچھی پرورش کرنے اور ان کے اور لڑکوں کے درمیان امتیاز نہ کرنے کو اعلیٰ اخلاقی رویے کے طور پر پیش کیا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ’’بچیوں کو ناپسند نہ کیا کرو، کیونکہ یہ تو (ماں باپ کا) دل لگانے والی اور غیر معمولی قدر رکھنے والی ہوتی ہیں۔’’ (مسند احمد، حدیث ۱۷۱۱۴)آپ نے فرمایا کہ ’’جس کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے اور اس کی تحقیر نہ کرے اور اس کے ساتھ لڑکوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیں گے۔’’ (ابو داود، حدیث ۵۱۴۶) مزید فرمایا کہ ’’جس شخص نے دو بچیوں کے بلوغت کو پہنچنے تک ان کی کفالت کی ، قیامت کے روز وہ اس حالت میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے۔’’ (صحیح مسلم، حدیث ۲۶۳۱)
ایک شخص کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمھاری ماں، تمھارے باپ کے مقابلے میں تمھارے حسن سلوک اور خدمت کی تین درجے زیادہ حق دار ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث ۵۶۵۰) جبکہ ایک شخص کو یہ کہہ کر جہاد پر جانے سے روک دیا کہ اپنی ماں کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو، کیونکہ جنت وہیں ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۷۹۵)
حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ (رشتہ نکاح کی وجہ سے) تمھاری پابند ہو کر رہتی ہیں، لیکن اس سے آگے تمھیں ان پر (زور زبردستی کا) کوئی اختیار نہیں۔’’ (ترمذی، حدیث ۱۱۴۵)
اس کے بعد اہم ترین دائرہ جس میں بہت بنیادی اصلاحی اقدامات کیے گئے، خاندانی زندگی کا دائرہ تھا۔ اس دائرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں شوہروں کے تعدی وتجاوز سے بچانے کے لیے حسب ذیل نظری وعملی اصلاحات رو بہ عمل کی گئیں۔

O رشتہ نکاح قائم کرنے کے لیے بیوی کو مہر کی ادائیگی شرعی حکم کے طور پر لازم قرار دی گئی (سورۃ النساء، آیت ۲۴) اور عورت کا یہ حق قرار دیا گیا کہ وہ مہر وصول کیے بغیر مرد کے ساتھ رخصتی سے انکار کر دے۔

O نکاح کے لیے عورت کی رضامندی کو بنیادی شرط قرار دیا گیا اور اہل خاندان کو پابند کیا گیا کہ وہ ان کی مرضی معلوم کیے بغیر ان کا نکاح نہ کریں۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۸۶۰) اگر ایسا کوئی نکاح کیا گیا تو عورت کی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عدالتی طور پر منسوخ کر دیا گیا۔ (ابوداود، حدیث ۱۸۳۴)

O وٹے سٹے کے نکاح پر پابندی عائد کی گئی۔ عرب معاشرے میں اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دو افراد اپنی زیر سرپرستی خواتین کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ کر دیتے تھے اور اس تبادلے کو ہی مہر کا بدل تصور کیا جاتا تھا، جبکہ متعلقہ خواتین حق مہر سے محروم رہ جاتی تھیں۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۸۳۹)

O نکاح کے وقت عورت سے جو وعدے اور پیمان کیے گئے ہوں اور جو شرائط طے کی گئی ہوں، ان کی پابندی کی تاکید کی گئی۔ (صحیح بخاری، حدیث ۲۵۹۹)

O خواتین کو شوہروں کی زیادتی سے بچانے کے لیے طلاق کے حق کو دو تک محدود کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تیسری طلاق کے بعد شوہر، رجوع نہیں کر سکے گا۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ۲۳۰) اسی طرح عدت کے دوران میں بیویوں کو ان کے شوہروں کے گھروں سے نکالنے کو ممنوع قرار دیا گیا اور شوہروں کو عدت پوری ہونے تک ان کے ضروری اخراجات اٹھانے کا پابند ٹھہرایا گیا۔ (سورۃ الطلاق، آیت ۱)

O ماہواری کے ایام میں بیویوں کے ساتھ میل جول کے حوالے سے عرب معاشرے میں افراط وتفریط اور بے اعتدالی کے رویے پائے جاتے تھے۔ ایک طبقہ ان ایام اور معمول کے عام دنوں میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتتا تھا، جبکہ دوسرے طبقے کے ہاں ان دنوں میں خواتین کو بالکل اچھوت تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس بے اعتدالی کا خاتمہ کیا اور جنسی تعلق کو ممنوع ٹھہراتے ہوئے باقی ہر طرح کے میل جول اور اختلاط کو مباح قرار دیا۔

O عدت کے لیے خواتین کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے متوازن اور مبنی بر اعتدال مدتیں مقرر کی گئیں اور عدت کی پابندیوں کے حوالے سے عرب معاشرے کے غیر معتدل رجحانات کا خاتمہ کیا گیا۔

O تعدد ازواج کے حق کو چار تک محدود اور تمام بیویوں کے مابین عدل ومساوات کے ساتھ مشروط کیا گیا، (سورۃ النساء، آیت ۳) جبکہ اس سے قبل عرب معاشرے میں لوگ کسی تحدید کے بغیر ان گنت خواتین کے ساتھ نکاح کر سکتے تھے اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک غیر ضروری سمجھا جاتا تھا۔

O یہ قانون بنایا گیا کہ اگر شوہر سے علیحدگی کے بعد خواتین اپنی ہی اولاد کو دودھ پلائیں تو وہ بچے کے باپ سے اس کا معاوضہ لے سکتی ہیں اور شوہروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ باہمی رضامندی سے جو معاوضہ طے کریں، وہ پوری دیانت داری سے بچے کی والدہ کو ادا کریں۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ۲۳۳)

O بچوں کی پرورش کے ضمن میں ماں کا حق تسلیم کیا گیا، چنانچہ ایک مقدمے میں شوہر نے بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس سے بچہ چھیننا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جب تک عورت دوسرا نکاح نہ کرے، بچہ اسی کی پرورش میں رہے گا (جبکہ بچے کا خرچ اس کے باپ کے ذمے ہوگا)۔ (ابوداود، حدیث ۱۹۷۶)

O خواتین پر گھریلو تشدد کے رویے کی، اخلاقی تربیت اور وعظ ونصیحت کے ذریعے سے حوصلہ شکنی کی گئی۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث ۱۷۳۰۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی کردار کو شوہروں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا اور فرمایا کہ بہترین شوہر وہی ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ ویسا برتاؤ کریں جیسا میں اپنی بیویوں کے ساتھ کرتا ہوں۔ (ترمذی، حدیث ۳۹۹۰)

O عرب معاشرے میں باپ کی منکوحہ عورتوں کو اس کے مرنے کے بعد وراثت میں بیٹے کو منتقل ہو جانے کا دستور تھا۔ قرآن نے باپ کی منکوحہ سے نکاح کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر یہ اخلاقی اصول بھی واضح کیا کہ عورتوں کی رضامندی کے بغیر انھیں ڈھور ڈنگر کی طرح وراثت کا مال بنا لینا درست نہیں۔ (سورۃ النساء، آیت ۱۹)

O باندیوں کو یہ حق دیا گیا کہ جب انھیں قانونی طور پر اپنے مالک سے آزادی ملے، جبکہ غلامی کے دوران میں مالک نے ان کی رضامندی کے بغیر ان کا نکاح کسی کے ساتھ کر دیا ہو، تو آزاد ہونے پر انھیں اس فیصلے پر بھی نظر ثانی کا حق ہوگا اور وہ یک طرفہ طور پر شوہر سے الگ ہونے کا فیصلہ کر سکیں گی۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۹۹۸)

اصلاح کا ایک اور اہم دائرہ خواتین کے مالی ومعاشی حقوق سے متعلق تھا۔ اس حوالے سے بنیادی ترین اصلاحی اقدام یہ تھا کہ وراثت میں خواتین کے لازمی حصے مقرر کیے گئے اور ان کی ادائیگی کو شرعی فریضہ قرار دیا گیا، (سورۃ النساء، آیت ۷) جبکہ اس سے پہلے خواتین سرے سے وراثت میں حصہ لینے کی حق دار ہی تصور نہیں کی جاتی تھیں۔عہد صحابہ میں خواتین کے، کسی معاشرتی دباؤ کے تحت اس حق سے دست بردار ہونے کو روکنے کے لیے بعض قانونی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ مثلاً جلیل القدر تابعی عامر شعبی کہتے ہیں کہ قریش کی ایک لڑکی سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اپنی وہ میراث جو تمھیں والد کی طرف سے ملی ہے، مجھے ہبہ کر دو۔ لڑکی نے اس کی بات مان لی، لیکن پھر شادی ہو جانے کے بعد اس نے اپنی میراث دوبارہ مانگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اسے واپس دلوا دی اور قاضی شریح کو تاکید کی کہ جب تک عورت اپنے شوہر کے گھر میں جا کر ایک سال نہ گزار لے یا ایک بچے کو جنم نہ دے دے، اس وقت تک اس کی طرف سے ہبہ کے فیصلے کو نافذ نہ مانا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۲۱۹۱۴، ۲۱۹۱۶)

خواتین کی، اجتماعی مذہبی وتعلیمی سرگرمیوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی گئی (صحیح بخاری، حدیث ۸۷۳) اور مسجد میں باجماعت نماز میں شرکت کے علاوہ تعلیمی مجلسوں میں شریک ہونے اور مختلف سماجی سطحوں پر متحرک کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ عہد نبوی میں اس حوالے سے صحابہ کے ساتھ ساتھ بہت سی ممتاز صحابیات کے نمایاں کردارکا بھی ذکر ملتا ہے۔ مسجد نبوی میں خواتین کی تعلیم کے مخصوص اور مستقل حلقے قائم کیے گئے اور بعض صحابیات کو اپنے گھروں میں خواتین کی باجماعت نماز کا امام مقرر کیا گیا۔ (ابو داود، حدیث ۵۲۰)

خواتین کے لیے کسی جھجھک یا حجاب کے بغیر اپنے مخصوص مسائل کے حوالے سے استفسار کرنے کا ماحول بنایا گیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر کہا کہ’’انصار کی خواتین بہت ہی اچھی تھیں کہ ان کی شرم، دین کے معاملے میں سوال کرنے سے ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث ۵۳۵)

Advertisements
julia rana solicitors london

سماجی اصلاح اور پسے ہوئے طبقات کو اٹھانے کی حکمت عملی کے ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ یاد رکھنے کا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے غلاموں کو آقاؤں کے خلاف، عورتوں کو مردوں کے خلاف اور فقرا کو اصحاب ثروت کے خلاف بھڑکا کر ایک دوسرے کا مد مقابل بنا دینے کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ یہ طریقہ کوتاہ نظر طبقاتی لیڈروں کا ہوتا ہے جن کے جوش وخروش میں ذاتی محرومیوں کا غصہ شامل ہوتا ہے۔اللہ کا پیغمبر کسی ایک طبقے کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا نبی ہوتا ہے۔ اسے آقا کی فلاح سے بھی اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی غلام کی، مردوں کی کامیابی بھی اتنی ہی عزیز ہوتی ہے جتنی عورتوں کی اور مال داروں کا حسن انجام بھی اتنا ہی محبوب ہوتا ہے جتنا فقرا اور یتامی ومساکین کا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصلاحی پروگرام کی بنیاد طبقاتی کشمکش کو ابھارنے پر نہیں، بلکہ ہر طبقے میں فطری طور پر موجود نیک جذبات اور اخلاقی تصورات کو اپیل کرنے پر رکھی اور یہ سمجھایا کہ انسانی سماج میں بہتر وکہتر کی یہ تقسیم انسان کی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے جس میں کامیابی کا معیار اللہ کی نظر میں صرف اور صرف اچھا عمل اور حسن کردار ہے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply