جماعت اسلامی ہند کے 75 سال/ابھے کمار

اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جماعتیں ہر روز بنتی ہیں، مگر وہ آپسی لڑائیوں اور ذاتی مفادات کی بلی چڑھ جاتی ہیں۔ جب ہم ان تلخ حقیقت کو دھیاں میں رکھ کر جماعت اسلامی ہند کی تاریخ اور اس کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تو یہ کہے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں کہ یہ ادارہ کچھ تو الگ ہے۔جماعت کے ارکان اور کارکنان کے لیے یہ خصوصی  مسرت کا باعث ہے کہ ان کی محبوب تنظیم نے اپنے سفر کے 75 سال پورے کیےہیں۔یاد رہے کہ سال 1941 میں جماعت اسلامی کی تشکیل لاہور میں دی گئی تھی۔ بنیاد ڈالنے میں سید ابو الاعلی المودودی کا بڑا رول رہا ۔ ان کا شمار دنیا کے بڑے اسلامی مفکرین میں ہوتا ہے۔وہ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں اتارنے کے قائل تھے۔ تقسیمِ ہند نے جماعت اسلامی کے بھی دو حصے کر دیے۔ پھر سن 1948 میں جماعت اسلامی ہند کی تشکیل جدید عمل میں آئی۔جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی تھے، وہیں مولانا سعادت اللہ حسینی موجودہ امیر جماعت ہیں۔

سچ پوچھیے تو جماعت کی اس بڑی کامیابی کا سہرا جماعت کے لا تعداد کارکنان کے سر باندھا جانا چاہیے، جنہوں نے بہت ہی کم وسائل کے ساتھ اور بڑی ہی خاموشی سے خود کو گلیمر سے دور رکھ کر جماعت کا کام انجام دیا ہے۔آزاد بھارت میں جماعت کو دو بار بین بھی کیا گیا اور اس کے بڑے قاعدین کو جیل بھی بھیجا گیا۔ جماعت کے دفاتر پر ریڈ بھی پڑی، مگر ان سارے مسائل و مصائب سے گزرتے  ہوئے، جماعت کے ارکان اپنے مشن میں مصروف رہے۔ یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج جماعت ملک گیر سطح پر پھیل چکی ہے ، بالخصوص جنوبی ہند میں اس کا اثر کافی محسوس کیا جاتا ہے اور اس کی ذیلی تنظیمیں محلوں  تک سرگرم ہیں۔

جماعت اسلامی ہند کے حریف بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت کے ارکان اور کارکنان اپنے کاموں کو بہت ہی منظم طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ ان کی تربیت اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں۔ وہ جذبات کی رو میں نہیں بہتے ہیں۔ سخت کلامی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے حریف کو منطق اور دلیل کی بنیاد پر راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جماعت کے لیڈروں کی خوبیاں صرف اسلام اور مسلم معاشرے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ دیگر مسائل اور مضامین کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔بہت لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ جماعت اسلامی جمود کا شکار ہے۔سچ بات یہ ہے کہ جہاں جماعت اقامت دین کے اپنے مشن پر قائم و دائم ہے، وہیں وہ جدید تکنیک کو اپنانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتی ہے۔ جہاں اس کا عقیدہ اسلام کی  اقدار پر مبنی ایک معاشرے کو تشکیل دینا ہے، وہیں وہ سیکولر اور بائیں بازو کے لوگوں کے ساتھ بھی پلیٹ فارم شیئر کرتی ہے۔دین کی تبلیغ و اشاعت کے علاقہ ، جماعت فلاحی کاموں کو بھی انجام دیتی ہے ۔ میڈیا سے لے کر انسانی حقوق کے محاذ پر  کام کر رہی ہے۔سول سوسائٹی میں وہ کافی اُتر چکی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آج سینکڑوں کی تعداد میں جماعت سے جڑی   ہو ئی ذیلی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔جماعت کا کمال یہ ہے کہ وہ ان سب کے درمیان ہم آہنگی کا ماحول بنائے رکھنے میں کامیاب ہے۔ جماعت اسلامی ہند اپنا کام پیشہ ورانہ  طریقے سے کرتی ہے ۔جماعت  سے دیگر تنظیمیں ، اگر سیکھنا چاہیں ، تو بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔

مگر ان ساری خوبیوں کے باوجود بھی جماعت اسلامی ہند پر طرح طرح کے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلا الزام یہ ہے کہ جماعت مسلمانوں کی ایک” فرقہ پرست” تنظیم ہے۔ کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ جس طرح سے ہندو فرقہ پرست تنظیمیں کام کرتی ہیں ،ویسا ہی طرز عمل جماعت کا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جماعت کو فرقہ پرست تنظیم کہنا جائز نہیں ہے۔ جماعت کی سوچ و فکر سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے “کمیونل” کہنا شروع کر دیں۔بھارت میں فرقہ پرست تنظیمیں وہ ہیں جو لوگوں کو دھرم کے نام پر بانٹتی ہیں اور تشدد کا سہارا لیتی ہیں۔مگر جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی ایک لبر ل تنظیم ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے مسلمان جماعت کے ارکان، کارکنان اور قائدین کی حیثیت سے شامل ہیں۔ جماعت نے اکثر اپنے ارکان پر ایک مخصوص ڈریس کوڈ یا پھر ایک خاص مسلک کی تقلید کرنے کی زور زبردستی نہیں کی ہے۔ جو لوگ جماعت کو فرقہ پرست کہہ رہے ہیں یا تو انہوں نے جماعت کو قریب سے نہیں دیکھا ہے یا پھر وہ ایک خاص سیاسی مقصد کے تحت جماعت پر فرقہ واریت کا بے بنیاد الزام لگا رہے ہیں۔ کئی بار اکثریتی جماعت کو ڈرانے کے لیے یہ افواہ پھیلائی جاتی ہے کہ فلاں مسلمانوں کی جماعت فرقہ پرست ہے ۔آج تک کوئی بھی ایسی بات ثابت نہیں ہوئی ہے کہ جماعت اسلامی ہند نے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی ہے یا پھر فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں تیل ڈالا ہے۔ کچھ متعصب لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ  جماعت اسلامی ہند ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے یا پھر یہ ایک ” اینٹی نیشنل” سوچ کو بڑھاوا دیتی ہے۔ یہ سب الزمات سراسر غلط ہیں۔ ہندو ستانی مسلمانوں نے ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر کے لیے کسی بھی دیگر ملت کے مقابلے میں کم قربانیاں نہیں دی ہیں۔ جب کبھی ملک کے حالات نازک ہوئے ، تب مسلمانوں کی تمام مِلی اور مذہبی جماعتوں نے وطن عزیز کی ایکتا اور سالمیت کو مضبوط کیا ہے۔ جو بھی تنظیم اقلیتوں کے حقوق کے لیے لڑتی ہے، اسے ایک خاص مقصد کے تحت فرقہ پرست کہہ دیا جاتا ہے تاکہ اس کی باتیں دب کے رہ جائیں۔مگر شدت پسند و شر پسند عناصر کیا جانیں کہ بھارت کا دوسرا نام ہی تنوع ہے۔ کٹر سوچ کے لوگوں کو کون سمجھائے کہ جب ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو برابری ملے گی، تب ملک اور بھی مضبوط ہوکر سامنے آئے گا۔وہیں دوسری طرف جب ملک کے کمزور اورمحروم طبقات کو انصاف نہیں ملے گا، تب ملک کا اتحاد و سالمیت کمزور ہوگی۔

جماعت کی اس کامیابی پر راقم الحروف خراج تحسین پیش کرتاہے ، مگر اس موقع پر کچھ باتیں کہنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔پہلی بات تو یہ کہ جماعت کو مسلم اداروں کے درمیاں آپسی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کے اداروں میں جمہوری اقدار کا بڑا فقدان ہے۔جہاں اسلام کا پیغام مشاورت اور جمہوریت کا ہے،وہیں مسلم ادارے آپس میں بٹے ہوئےہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان ملی اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش ضرور کریں، مگر صرف مسلمانوں کے  مابین کافی نہیں ہے اور انہیں مظلوموں کے مابین اتحاد پیدا کرنے کی طرف کام کرنا ہوگا۔مذہب کے نام پر ناانصافی ہو رہی ہے، مگر ذات پات اور جنسی عدم مساوات کا نظام بھی لوگوں کو برباد کر رہا ہے۔ طبقاتی غیر برابری بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک مسجد میں سارے مسلمان نماز پڑھتے ہیں، مگر مسجد سے باہر آتے ہی وہی  مسلمان مالک اور نوکر میں بٹ جاتےہیں۔ جماعت کو چاہیےکہ وہ مسلمانوں کے کمزور اور پسماندہ طبقات اور خواتین کو قیادت میں آگے لائے۔اسے دلت، آدی واسی، پسماندہ اور دیگر محروم طبقات کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوگا پڑےگا۔ صرف یہ کہنا کہ فلاں لیڈر پسماندہ طبقہ سے آتا ہے اور جماعت نے سماجی انصاف کا مشن پورا کر لیا  ہے،کافی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذات پات کا نظام، اقتصادی غیر برابری ، جنسی عدم مساوات صرف غیر مسلم سماج کی بیماری نہیں ہے، بلکہ یہ مہلک مرض مسلمانوں میں  دوسرے  مسلمانوں کی غلطیوں سے لگ چکی ہے۔جماعت کے عالم مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ اسلام نے نمازادا کرنے کے ساتھ ساتھ غریب ، مسکین اور محتاجوں کی مدد کی بات کہی ہے اور اعتدال اور مساوات اسلام کا دوسرا نام ہے۔مگر ان تعلیمات پر چلنے کے لیے بہت سارے مسلم ادارے تیار نہیں ہیں۔ مسلم اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ خود اپنے اداروں میں کمزور طبقات کو جگہ نہیں دیں گے تو وہ کس منہ سے ریاست سے مسلمانوں کے لیے واجب نمائدگی کی بات کر سکتے ہیں۔ تعصب، تکبر اور عصبیت کے مرض سے لڑے بغیر مسلم ادارے اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر مسلم ادارے ان مسائل پر غور کریں  ، تو ان کو فرقہ پرست تنظیموں سے رات کے اندھیرے میں ملنے کی مجبوری نہیں ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply