اُمِّ فیصل (3)-مرزا مدثر نواز

یعقوب کُل پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ اس دور میں سودا سلف جیسا کہ چینی‘ آٹا وغیرہ راشن کارڈ پر راشن ڈپو سے ملتا۔ یعقوب ملک کے پاس ہری پور ہزارہ کے ایریا کا ڈپو تھا جو بعد میں وہاں کا بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور بنا‘ جہاں خشک سودا سلف‘ سبزی‘ ہارڈویئر‘ کھاد‘ کھل بنولہ‘ زرعی بیج و ادویات وغیرہ دستیاب تھیں۔ یعقوب کا کاروبار کافی پھیلا ہوا تھا اور مزید پھل پھول رہا تھا‘ اس کے سٹورکا سامان ایبٹ آباد تک جاتا‘ دوسرے الفاظ میں وہ ایک خوشحال و امیرانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ کاروبار کے سلسلے میں جب کبھی کراچی چکر لگتا تو وہاں سے بلا مبالغہ سونے کی ڈلیاں و بسکٹ ساتھ لاتا۔
ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے شعر کہا تھا کہ‘
؎وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِدروں
لیکن ا سی وجود زن کو زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے میں باعثِ عار سمجھا جاتا اور انہیں زندہ درگور کر دیا جاتاکیونکہ وہ یہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ کل کلاں کوئی ان کا داماد بنے۔ دنیا کے دوسرے گوشوں میں بھی عورت ایک مظلوم مخلوق اور غلامانہ زندگی بسر کر نے پر مجبور تھی۔ دوسرے تمام مذاہب کے مقابلے میں دین فطرت یعنی اسلام نے عورت کو اس کے تمام حقوق دیئے‘ ایک خالص اسلامی معاشرے میں عورت کو جو عزت‘ مقام و مرتبہ حاصل ہے‘ وہ کسی بھی دوسرے معاشرے میں ممکن نہیں۔نبی رحمت ﷺ نے بار بار عورت سے حسن سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔اللہ تعٰالیٰ اور اس کے پیغمبرﷺ نے بیٹے کی پرورش پر کوئی اجر و ثواب نہیں بتایا مگر دو یا تین بیٹیوں کو پال پوس کر‘ تہذیب سکھا کر‘ ان کی شادی کر کے ان کے گھروں میں پہنچا دیاتو جنت کی ضمانت ہے۔ مسلمان آج بھی اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن قول کی حد تک‘ بات جب فعل کی آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور معاشرے میں رائج ہند وانہ رسومات کی پیروی کرتے ہیں۔ مذہب یہ تلقین کرتا ہے کہ‘ عورتوں کو وراثت میں سے ان کا حصّہ دو‘ کتنے فیصد لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟نسبت طے کرتے وقت لڑکی کی رضامندی کو شامل کرو‘ کتنے فیصد لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟ اپنی عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ‘ کتنے فیصد لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟
؎جس کو تم کہتے ہو خوش بخت‘ سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا‘ خطا ہے لوگو (رضیہ فصیح احمد)

ہاجرہ کے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی سکول موجود نہیں تھا اور نہ ہی لڑکیوں کی تعلیم کو اس معاشرے میں اچھا سمجھا جاتا حالانکہ انہوں نے وہ حدیث سن رکھی تھی جس میں ہر مسلمان کے لیے علم کو حاصل کرنا فرض بتایا گیا ہے۔ لڑکیوں کا کام گھرداری سیکھنا اور اس میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا‘ مویشیوں کے لیے چارہ کاٹنے میں مدد کرنااور ایندھن کے لیے گوبر کے اپلے تھاپنا اور جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرنا‘ چارپائی بُننااور اگر گاؤں میں کوئی عورت ناظرہ پڑھاتی ہو تو اس سے قرآن و نمازو دوسرے ضروری احکام کی تعلیم حاصل کرنا تھا۔ شادی کے لیے نسبت طے کرتے وقت لڑکی کی رضامندی پوچھنے کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہوتا‘ جو بڑوں نے طے کر دیا‘ وہی حرفِ آخر ہوتا۔ ہاجرہ کی شادی بھی بڑے بھائی نے طے کر دی اور یوں ایک سولہ سال کی لڑکی کا اس سے چوالیس سال بڑے شخص سے نکاح کر دیا گیااور ہاجرہ‘ ابراہیم کی تیسری بیوی بن کر اس کے گھر چلی گئی۔ ہاجرہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مرآۃ العروس کے کردار اصغری کی حقیقی جھلک تھی جس میں قناعت‘ صبر‘ شکر‘ امورِ خانہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے جیسی تمام خصوصیات موجود تھیں۔
؎حسن صورت ہے عارضی‘ حسن سیرت ہے مستقل
اِس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں‘ اُس سے خوش ہوتا ہے دل

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply