پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر طویل عرصے سے مٹھی بھر طاقتور سیاسی جماعتوں و غیر سیاسی قوتوں کا غلبہ رہا ہے، جن میں سے ہر ایک کے اپنے مفادات کے ہمراہ ایک دوسرے سے روابط بھی قائم رہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں قائم شدہ سیاسی نظام کے خلاف مزاحمت کا رجحان بڑھ رہا ہے، ماضی کی نسبت زیادہ شدت سے اسٹیٹس کو چیلنج کو کیا جا رہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں ”مزاحمت” کے تصور اور مقبولیت کے درجات کا مقابلہ و موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔ اقتدار اور حزب اختلاف دونوں میں موجود سیاسی جماعتیں اسے اپنے حامیوں کو متحرک کرنے اور جوں کی توں صورتحال کو چیلنج کرنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن اس مزاحمت کے پیچھے سب سے اہم محرک کیا ہے، خاص طور پر جب غیر سیاسی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی بات آتی ہے؟ کیا یہ تبدیلی اور اصلاح کی حقیقی خواہش ہے، یا محض اقتدار اور اثر و رسوخ کی تلاش ؟۔
غیر جمہوری قوتوں کی سیاسی نظام میں مداخلت یا کسی دوسری جماعت کے لئے حمایت کی ایک اہم وجہ ملک کے روایتی سیاسی طبقے کے لئے گہری مایوسی کے مظاہر ہیں۔ عوام کی اکثریت قائم شدہ بیشتر جماعتوں کو بدعنوان اور غیر موثر کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ملک کے اہم سماجی اور معاشی مسائل کو حل کرنے میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں مروجہ نظام میں سیاسی مزاحمت و مفاہمت کے مابین اہم محرک انصاف اور مساوات کی خواہش ہے۔ تاہم عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ غیر سیاسی قوتوں نے عدم مساوات اور استحقاق کے نظام کو برقرار رکھا ہے، جس میں استثنیٰ اور مفاہمت کے نام پر اشرافیہ کو عام شہریوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر بدعنوانی کے معاملات میں سچ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں طاقتور اکثر انصاف سے بچنے کے قابل ہوتے ہیں جبکہ غریبوں کو معمولی خلاف ورزیوں کے لئے سزا دی جاتی ہے۔ مایوسی کے اس احساس نے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مقبولیت کے موازنے کے ساتھ نیا بیانیہ تشکیل پا رہا ہے، جو اسٹیٹس کو چیلنج کرنے کے لیے ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
سیاسی مزاحمت کار حلقے اکثر اپنے آپ کو غیر جمہوری اثر و رسوخ سے آزاد اور پاکستان کے ایک نئے وژن سے وابستہ قرار دینے کی سعی کرتے نظر آرہے ہیں۔ بہت سی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے لیے مفاہمت کے نام پر سیاسی مزاحمت کا سب سے اہم محرک پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش بھی سمجھی جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مفاہمت کے نام پر مداخلت جمہوری عمل اور عوام کی خواہشات کو کمزور کرتی ہے۔ پاکستان میں آمرانہ حکمرانی کی تاریخ رہی ہے اور بہت سے حلقوں کو طاقت ور قوتوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہیں سنسر شپ، قید اور یہاں تک کہ قتل کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس سے متعدد مقتدر حلقوں میں گہری ناراضگی پیدا ہوئی ، جو غیر سیاسی قوتوں کو اپنے جمہوری حقوق اور آزادیوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان سیاست دانوں کے لیے بھی جو مزاحمت صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کے اصولوں اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑے ہونے کے لیے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاست میں مفاہمت کے رجحان اور طاقت ور حلقوں کے غلبے نے پاکستان کو اپنی پوری صلاحیت حاصل کرنے اور ملک کو ترقی سے روک دیا ہے۔
غیر سیاسی قوتوں کے خلاف مزاحمت کا ایک اور اہم محرک سیاست میں بدعنوانی اور اقربا پروری کو ختم کرنے کی خواہش بتایا جاتا رہا ہے۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ غیر سیاسی قوتیں بدعنوانی کو پھلنے پھولنے دینے میں ملوث رہی ہیں اور عام شہریوں کی قیمت پر اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ سیاست میں غیر ضروری مداخلتوں نے بدعنوان سرگرمیوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھنے اور استثنیٰ کا کلچر دیا۔ ان قوتوں کے خلاف آئین کے تحت سیاسی مزاحمت کرکے کرپشن کو بے نقاب کرنا مشکل امر بن چکا ہے لیکن عوام ہر صورت ان ذمہ داروں کا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، خدشات رہتے ہیں کہ مزاحمت میں مفاہمت ذاتی عزائم اور سیاسی فائدے کو متاثر کر سکتے ہیں کیونکہ کچھ سیاست دان غیر سیاسی قوتوں کی مخالفت کو عوام میں مقبولیت اور حمایت حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین کو غیر سیاسی قوتوں کے کٹھ پتلی کے طور پر پیش کرکے انہیں کمزور کرنے کی کوشش بھی کر تے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں عوام سیاسی نظام میں زیادہ شفافیت اور احتساب ، عدلیہ اور میڈیا جیسے اداروں کے لیے مضبوط تحفظ اور زیادہ آزادی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔
غیر سیاسی قوتوں کے خلاف مزاحمت اکثر اصلاحات کے حقیقی عزم کے بجائے اقتدار اور اثر و رسوخ کی خواہش کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بہت سے معاملات میں، سیاسی تبدیلی کی تحریکوں کی قیادت ایسی شخصیات نے کی جن کے پاس حکومت کا بہت کم یا کوئی تجربہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے ملک پر مؤثر طریقے سے حکمرانی کرنے کے لئے ضروری مہارت کی کمی کو گردانا گیا ان چیلنجوں کے باوجود سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کے خلاف سیاسی مزاحمت کا عروج جمہوری ارتقاء میں ایک اہم پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں مقبولیت کے میزانیہ کو سب سے اہم محرک کے طور پر ایک حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے اور بدعنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ کرنے کا منشور دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ذاتی عزائم اور سیاسی فائدے ایک کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے سیاست دان مفاہمت کو پاکستان کے بہتر مستقبل کے حصول کی خاطر ایک ضروری قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک کو کس راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔
بالآخر، ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار سیاسی اصلاحات پر وسیع البنیاد اتحاد بنانے اور اپنے ایجنڈے کے پیچھے عوامی حمایت کو متحرک کرنے کی صلاحیت پر ہوگا۔ اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی غیر سیاسی قوتوں کے مفادات پر قابو پانے اور پاکستان میں زیادہ متحرک اور جمہوری سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں