ایک قوم ایک منزل۔ بلا شبہ یہ نعرہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور اس کا سب واضح مظہر تحریک پاکستان میں نظر آتا ہے جب مسلمانان ہندوستان نے صرف ایک منزل کا انتخاب کیا۔ ایک قوم بن کر اس منزل کی خاطر قربانیاں دیں۔ اور بالاخر پاکستان کی صورت میں اس منزل کا پلیٹ فارم یعنی کہ پاکستان حاصل کر لیا۔ مگر پھر لگتا ہے کہ وہ منزل ہی مبہم ہوگئی۔ آیا وہ منزل ایک اسلامی ریاست تھی یا پھر قومی ریاست اور ہم نے اس منزل کے لیے کیا کردار ادا کیا۔
دو قسم کے نکتہ ہائے نظر وجود میں آئے۔ ایک کی بنیاد یہ تھی کہ قائد کیسا پاکستان چاہتے تھے اور دوسرا یہ کہ اس خطے کے لوگ کس پاکستان کے لیے قربانیاں دے کر آئے۔ ایک کی بنیاد قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر ہے جبکہ دوسرے اس کے مقابلے میں جناح صاحب کی وہ تقاریر لے آتے ہیں جن میں انہوں نے قرآن کو اس ملک کا دستور قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس ملک کی پہلی کابینہ میں غیر مسلم ارکان بھی اہم وزارتوں پر براجمان نظر آتے ہیں جو کہ اس نظریے کو تقویت دیتا ہے کہ قائد ایک سیکولر قومی ریاست کے حامی تھے۔ اسی لیے ان کی 11 اگست کی تقریر کو بڑے شد ومد سے ریڈیو اور میڈیا پر پیش کیا جاتا رہا۔
قائداعظم کی 11 اگست 1947ءکی تاریخی تقریر میں تحریف کرنے کی بھی الگ داستان ہے اس تقریر کا تحریری ریکارڈ تو موجود ہے، مگر بدقسمتی سے اس کی کوئی ریکارڈنگ کہیں محفوظ نہیں۔جون 2012ءمیں ریڈیو پاکستان کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی نے اس تقریر کی ریکارڈنگ کی تلاش میں آل انڈیا ریڈیو میں اپنے ہم منصب ایل ڈی مینڈولوی سے بھی رابطہ کیا، کیوں کہ جس وقت یہ تقریر کی گئی اس وقت ریڈیو پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور پاکستان کے موجودہ حصوں میں آل انڈیا ریڈیو ہی کی حکمرانی تھی۔جناب مرتضیٰ سولنگی کے رابطے کے چند دن بعد آل انڈیا ریڈیو نے ہی اپنے ریکارڈ میں اس تقریر کی ریکارڈنگ کی موجودی سے انکار کردیا۔ بقول عقیل عباس جعفری چونکہ اس وقت کراچی میں کوئی ریڈیو اسٹیشن موجود ہی نہیں تھا اس لیے قائد کی یہ تاریخی تقریر شاید ریکارڈ ہی نہیں ہوئی۔
ان کے مطابق جب انہوں نےاس سلسلے میں پاکستان میں آوازوں کے سب سے بڑے خزانے کے مالک جناب لطف اللہ خان مرحوم سے رابطہ کیا تھا تو وہ بھی اس ریکارڈنگ کی موجودگی سے انکاری رہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جناح کی تقریر کی ریکارڈنگ کو غائب کر دیا گیا اس کے بارے قیاس آرائیاں تو بہت ہیں لیکن باقاعدہ شواہد نہیں ہیں۔
رہا معاملہ اس تقریر کا تو جناح کی باقی تقاریر ایک طرف اور یہ تقریر ایک طرف ہے۔
حالانکہ اس وقت مسلم لیگ کے پاس جو مینڈیٹ تھا وہ مذہبی تھا۔ لہٰذا اس تقریر کی بنیاد پر اس کو رد کر دینا خود بہت بڑی خیانت پے۔ فروری 1946 کی انتخابی مہم میں علما اور مشائخ کے بغیر مسلم لیگ کا کلین سویپ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق اس حوالے سے اپنی کتاب پاکستان دی گیریزن سٹیٹ میں لکھتے ہیں کہ
“مسلمان ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے مسلم لیگ نے باقاعدہ طور پر مسلمان علما اور مشائخ کی خدمات حاصل کیں جن کی مسلمانوں میں کافی شنوائی تھی۔ یہ لوگ مساجد اور مزارات کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں تھے۔ 1944 سے تقسیم ہند تک ان علما اور پیروں نے اس تحریک کو زندہ رکھا۔”
پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر پیش کیا گیا۔ نیکی پرہیزگاری اور خلافت راشدہ جیسی ریاست کا تصور دیا۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن نے جس طرح پاکستان کا نعرہ کیا لا الہ الا اللہ کے نعروں سے اس تحریک کو مقبول عام کیا اور اسلامی جذبات کو ابھار کر مسلم لیگ کے لیے حمایت حاصل کی۔ اس کا ثبوت وائسرائے لارڈ ویول کو گورنر پنجاب سربرٹرینڈ گلینسی کو بھیجی گئی 2 فروری 1946 کی خفیہ رپورٹ میں موجود ہے۔ اس میں یہاں تک لکھا ہے
“مسلم لیگی مقررین اپنی تقریروں میں شدت پسند بنتے جا رہے ہیں۔ مولوی, پیر اور طلبا یہ تبلیغ کر رہے ہیں جو مسلمان مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور اس کا نکاح ٹوٹ حائے گا اور مسلمان نہیں رہے گا”
مزید براں یہ بھی کہ “مسلم لیگ کی جانب سے “اسلام خطرے میں ہے ” کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جس کے بعد مسلم لیگ اسمبلیوں میں نمایاں نشستیں حاصل کرے گی”
اسی طرح محقق آرلینڈ جانسن لکھتے ہیں کہ
” پیر صاحب مانکی شریف نے اپنی تنظیم انجمن الصوفیا بنائی۔ اس انجمن نے مسلم لیگ کی حمایت کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد وہاں شریعت نافذ کی جائے گی۔ اس پر جناح نے رضامندی ظاہر کی۔ چنانچہ پیر صاحب مانکی شریف نے پاکستان کے قیام کے لیے جہاد کا اعلان کیا اور اپنی انجمن الصوفیا کو 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کا حکم دیا”
اسی طرح قائد اظم نے نومبر 1946 میں پیر صاحب مانکی شریف کو لکھے گئے خط میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ آئین ساز اسمبلی ایسے قوانین بنائے گی جو شریعت سے متصادم نہیں ہونگے۔
اور نتیجتاً مسلم لیگ نے 495 میں سے 440 نشستوں کے ساتھ کلین سویپ کیا۔
یہ درج بالا تفصیلات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلم لیگ کو ملنے والا ووٹ اسلام کے نام پر تھا۔ اور عوام نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ووٹ دیا تھا۔
دوسری جانب 11 اگست کی تقریر کے محض تیسرے دن انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
” میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں ”
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
” وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاؤ کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے”
مزید براں 25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ فتنہ پرور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کا قانون شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ یعنی ایسے لوگوں کو فتنہ پرور کہا۔
اسی طرح 11 اگست کی تقریر چونکہ ایسے حالات میں تھی جب مارچ 1947 سے شروع ہونے والے راولپنڈی اور پھر ملتان میں فسادات سے اقلیتوں کا تحفظ غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔جس میں 2 سے 5 ہزار کے قریب سکھ اور ہندو قتل ہوئے تھے اور جس کے انتقام میں دوسری جانب ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کا قتل عام سنگین نوعیت اختیار کر گیا تھا۔ اور ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کی ہجرت ہورہی تھی جس کی حفاظت و انتظام تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔ لہٰذا ان کی اس تقریر کو بطور اصول پیش کر کے ایک سیکیولر ریاست کا تصور اخذ کرنا پوری تحریک پاکستان اور اس کی روح کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں