اردو ادب کا شمس۔شمس الرحمن فاروقی۔۔ڈاکٹر فریدہ تبسم

ادبی تخلیقات و خدمات ایک جائزہ
جاوید اختر کا شعر ہے۔۔
درس دے کر ہمیں اجالے کا
خود اندھیرے کے گھر گیا سورج
اردو کی وہ شخصیت جو کمیاب و نایاب ہوتے ہیں کئی صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی بہترین نقاد، محقق،شاعر ،ناول نگار،مدیر، مترجم،افسانہ نگار،وغیرہ تھے فکشن میں مخصوص مقام کے مالک اور اپنے آپ میں ایک انجمن ایک ادارہ تھے۔وہ اپنی گوناگوں قابلیتوں اور صلاحیتوں سے پورے عہد پر چھائے ہوئے تھےانہوں نے اردو ادب کی خدمات اور اپنی تخلیقات سے پورے عہد کو بے حد متاثر کیا۔کئی طلباء کے لئے بہترین استاد اور راہنما تھے۔کئی اجلاس کے روح رواں اور صلاح کار تھے۔

ان کارناموں سے ایک عہد اور ایک تہذیب کو مرتبہ حاصل ہے۔اپنی ساری زندگی ادب کے لئے وقف کی اور آخری وقت تک وہ اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے تھے۔وہ آخری دنوں میں ایک نئی لغت پر کام کر رہے تھے۔۔انہیں فارسی،عربی،انگریزی،اردو زبان،کلاسیکی اور جدید ادبیات پر یکساں عبور حاصل تھا۔مغربی ادب پر گہری نظر تھی۔فکشن کی نئی راہیں ہموار کیں۔بیسویں صدی کے نصف سے لیکر اکیسویں صدی کے دو دہائی تک اردو نقاد کے لئے آپ کی تنقید مشعل راہ بنی رہی۔آپ جیسے نابغہء روز گار شخصیت ہی کے لئے کہا گیا ہے
میں سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑجاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

شمس الرحمٰن فاروقی کی پیدائش 15 جنوری 1934 کو پڑتا گڑھ اتر پردیش میں ہوئی۔1953 میں الہ باد یونیورسٹی سے انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈی لیٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی ۔ایک طویل عرصہ تک محکمہ ڈاک میں اعلیٰ  افسر کے عہدہ پر فائز رہے۔انہوں نے 1958میں سول سروس کا امتحان پاس کیا۔ 1996 میں سرسوتی سمان سے نوازے گئے۔2009 میں پدم شری ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
جدید فکشن اور تنقید پر جو نظریہء خیال پیش کیا ہے۔وہ قابل قدر اور قابل تقلید ہے۔جدیدیت کے بانی کہلائے۔
پروفیسر محمد نعمان خان۔عالمی زبان(،ص۔9 )میں یوں لکھتے ہیں کہ
“جدیدیت کے ادبی رجحان کو عام کرنے اور اسے نئی نسل سے روشناس اور مانوس کرانے میں شمس الرحمن فاروقی نے جو خدمات انجام دی ہے اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی ۔بقول وارث علوی “فاروقی پر لکھنے کے لئے فاروقی کا سا علم درکار اور آج وہ کسی کے پاس نہیں”
وہ مغرب ادب سے واقف تھے اور ہمارے اردو ادب کو بھی وہ عالمی سطح پر دیکھنے کے متمنی تھے۔
“شب خون” جیسے معیاری رسالہ کے ذریعے نئی نسل کی آبیاری کی اور خوب سے خوب تر کی جستجو کی طرف راغب کیا اس میں شائع ہونا ادیب اور شاعر کے لئے فخر کی بات ہوتی۔انہوں نے چالیس برس تک شب خون کی ادارت کی۔

شمس الرحمن فاروقی صاحب کی کتابیں
تحقیقی و تنقیدی کتابیں
اثبات و نفی
اردو غزل کے اہم موڑ
اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو
افسانے کی حمایت میں
انداز گفتگو کیاہے
تعبیر کی شرح
تفہیم غالب
شعر شور انگیز چارجلدیں
شعر غیر شعر اور نثر
خورشید کا سامان سفر
صورت و معنی سخن
غالب پر چار تحریریں
گنج سوختہ
لغات روزمرہ
ہمارے لیے منٹو صاحب
لفظ ومعنی
نئے نام
نغمات حریت
عروض آہنگ اور بیان

افسانے
سوار اور دوسرے افسانے

ناول
کئی چاند تھے سر آسماں

شاعری
آسمان محراب۔۔وغیرہ ہیں

پندرہ روزہ “عالمی زبان” سرونج بھوپال۔اگست 2018 میں اداریہ محمود ملک کے مضمون “اردو ادب کے ظل سبحانی ،شمس الرحمن فاروقی” ایک تقریب کی تقریر کا ذکر ۔۔یوں رقم طراز ہیں۔
“یوں سمجھائے کہ فاروقی صاحب جب غالب پر بول رہے تھے تو محسوس ہورہا تھا کہ وہ خود غالب کے کردار میں فرق بڑا لباس میں ملبوس مسند پر بیٹھے سامعین سے مخاطب ہیں اور گفتگو میں سامعین کو بھی شامل کر رہے ہیں لیکن جب وہ میر پر بول رہے تھے تو یوں لگا کہ وہ مسند پر بیٹھے ہوئے عوام سے نہایت بے تکلفی کے ساتھ بات کر رہے ہیں اور دوران گفتگو مسند سے اٹھ کر عوام کے بیچ بیٹھ کر سب سے گھل مل کر باتیں کرنے لگتے ہیں”۔۔(ص۔1)

شمس الرحمٰن فاروقی کے  تنقیدی افکار کا احاطہ تفصیل طوالت کا متقاضی ہے۔تاہم مختصراً جائزہ لیں تو ان کے نظریات کے مفاہم میں لفظ و معنی،شعر غیر شعر اور نثر،کلاسیکی شاعری، عروض و آہنگ اور بیان،افسانہ کی حمایت میں تنقیدی افکار کا مطالعہ لازمی ہے۔ جس میں انہوں نے شاعری کے رموز شعر کی ماہیت اس میں عروض و آہنگ کے بارے میں میر و غالب کی شاعری کے مختلف اشعار کا مطالعہ بہت گہرائی کے ساتھ   پیش کیا  ہے۔
تفہیم غالب کے دیباچہ ص۔15میں یوں رقم طراز ہیں
“میں اس نظریے کا شدت سے قائل ہوں کہ کسی شاعری کی فہم اسی وقت مکمل ہوسکتی ہے جب ہم اس شعریات سے واقف ہوں جس کی روشنی میں وہ شاعری خلق کی گئی ہے جس کی رو سے وہ بامعنی ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔میں سب سے پہلے اس بات سے سروکار رکھتا ہوں کہ مشرقی شعریات کی رو سے کسی شعر میں کیا خوبیاں ہیں، پھر یہ دیکھتا ہوں کہ مغربی شعریات کی روسے اور کیا کہا جانا ممکن ہے۔۔ مشرقی شعریات میں شاعر کی  عنایت کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے اور مغربی مفکروں کا ایک بڑا گروہ اس بات کاقائل ہے کہ ہر وہ معنی جو شعر کے الفاظ سے برآمد ہو سکیں، وہ صحیح ہے میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ شعر کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اس کے باریک ترین معنی تلاش کریں اور جتنے کثیر معنی شعر میں ممکن ہوں تلاش کریں۔”
اس کو یہاں اس مثال سے سمجھیں اس شعر کی تفہیم میں فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ شعر۔۔۔
“ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو”
“اس شعر کے مشہور معنی تو یہ ہیں کہ آدمی بذات خود طرح طرح کے خیالات کا مجموعہ ہے وہ اکیلا ہو پھر بھی اکیلا نہیں ہوتا، کیونکہ اس کا ذہن ہر وقت تخیلات اور توہمات کا ایک ہنگامہ برپا کیے رہتا ہے، پھر خلوت اور انجمن میں کیا امتیاز باقی رہا، یہ معنی بہت خوب ہیں لیکن طباطبائی اور بیخود موہانی نے عارفانہ مفہوم بیان کرکے ایک نئی جہت دریافت کی ہے انسان کو خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہیے ورنہ تخلیہ میں بیٹھنا فضول ہے کیونکہ تخلیہ میں بھی انسان کا ذہن پراگندہ رہ سکتا ہے یعنی اصل چیز یکسوئی  اور توجہ الیٰ  اللہ ہے نہ کہ محض ترک خلائق،ترک خلائق فی النفسہ توجہ الی اللہ اور تخلیہ نفس نہیں پیدا کر سکتا۔”

انہوں نے شعروادب کے بنیادی مسائل پر غور کیا ہے ،شاعری کیا ہے خوبی اور خامی، قدیم و جدید کے مابین فرق کو واضح کیا ہے۔شعر کا ابلاغ کیسے ممکن ہے۔شاعری میں اسلوب کی کیا اہمیت ہے۔شعر کو غیر شعر اور نثر سے متمائز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ابلاغ و ترسیل کو تین جہات میں منقسم کیا ہے۔اظہار خیال۔۔پھر اس کی ترسیل پھر اس کا ابلاغ ۔
تجربہ ۔۔۔اظہار ہے۔۔الفاظ کے پیکر میں تحلیل کرکے قاری تک پہنچانا “ترسیل” ہے۔پھر اس خیال کی کیفیت کو قاری کے خیال تک اس کی کیفیت کا پہنچانا “ابلاغ” ہے۔
انہوں نے شاعری کے مختلف جہات علامت ابہام،تمثیل،استعارہ،زماں و مکاں کی  قیود میں اس کی معنویت اور وسعت کو بیان کیا ہے۔
شعر اور غیر شعر کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے غیر شعر کی تعریف یوں بیان کی ہے۔
“کیا شعر میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتیں جو نثر میں بھی ہو سکتی ہیں؟ یقیناً  ایسا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے آخر رعایت لفظی، قول محال ضلع،طنز،ہجو ملیح،برجستگی،صفائی، بلاغت(بہ معنی اختصار الفاظ ) شعر کی ملکیت تو ہیں نہیں، اصلاح یہ نظر کی ملکیت ہیں ۔لیکن شعر میں بھی در آئی ہیں اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر کسی کلام میں موزونیت اور اجمال کے سوا کچھ نہ ہو لیکن کوئی نثری خوبی مثلاً  طنز ہو تو اسے کیا کہا جائے گا؟ میں چونکہ “خالص شاعری” کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس لیے ایسے کلام کو شاعری کا درجہ (درجہ بلندی اور “پستی” کے معنی میں نہیں ہے بلکہ کیٹیگری کے معنی میں) نہیں دیتا ،میں اسے غیر شعر کہتا ہوں۔”

وہ شاعری کی معروضی پہچان رکھتے تھےنثر اور شعر اور غیر شعر، تخلیقی نظر اور شعر،بامعنی اور مہمل میں فرق کو واضح طور پر پیش کیا ہے ۔صرفی و نحوی،اردو شاعری کے عروضی مسائل پر اس قدر اہم نکات پیش کیے ہیں کہ وہ تخلیق، نقاد کی توجہ چاہتی ہے۔ انہوں نے اصل اس نکتہ پر زور دیا ہے کہ ہمارے شعراء کا رویہ ہمیشہ تقلیدی رہا ہے تخلیقی نہیں ۔اور ہمارے متشاریح تشریح نگار اور نقاد بھی اپنے خول سے باہر نکلیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے انہیں نئی راہ کی طرف گامزن کیا۔
وہ تنقید کو بہت سنجیدہ علم تصور کرتے تھے مشرقی تنقید کے ساتھ ساتھ مغربی تنقید سے بھی آگاہی ضروری سمجھتے تھے۔تخلیق کار کے حالات معاشرت اور سماجی مسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فن پارہ کو اس کی اصل بنیاد خیال کرتے۔اس کی اصل تک رسائی نقاد کا کام ہے۔ان کی تنقید کا دائرہ وسیع ہے ادبی و فنی قدر معیار ضروری ہے۔
افسانہ کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کا یہ خیال ہے کہ افسانہ اپنی تمام تر عناصر میں سے اپنے بیانیہ سے بندھا ہے اور واقعہ کے بغیر یہ ممکن نہیں اس لئے اس میں اتنی جگہ نہیں کہ نئے تجربات ہوسکیں۔بڑی صنف وہ ہوتی ہے جس میں بڑی تبدیلیوں کی متحمل ہوسکے۔اس کے برعکس غزل میں تبدیلیاں ممکن ہیں ۔”افسانہ کی حمایت میں”وہ لکھتے ہیں کہ۔۔
“مکتبی نقطہ نظر سے دیکھیے تو غزل میں اس قدر تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اگر انہی  کو اُلٹ پھیر کر دہرایا جاتا رہے تو بھی صدیوں کا زاد سفر موجود ہے”

ان کے افسانوں کا مجموعہ۔۔۔”سوار اور دوسرے افسانے”منظر عام پر آیا تو اسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ان افسانوں کی تعمیر اس کی بنیاد میں بیشتر افسانوں میں اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کے ہندوستان کی ادبی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کی عکاسی ملتی ہے اسی کے پیش نظر اپنی تہذیبی اقدار کی بازیافت۔
ان کی مقبول ناول “کئی چاند تھے سرِ  آسماں” میں نمایاں نظر آتی ہے ۔اس ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کی جزئیات نگاری ہے۔اور جس کردار کو تہذیب کے دائرہ میں مرکزی کردار بنایا ہے وہ وزیر خانم چھوٹی بیگم کے نام سے مشہور ہے۔تاریخ اور تہذیب کے دائرہ میں پیش کیاگیا ناول خاص نوعیت کی زبان اور کلاسیکی شاعری سے مزین ہے۔بہترین مکالمہ ہیں ۔
نواب شمس الدین وزیر خانم کے حسن  و جمال کی تعریف کچھ اس انداز میں کرتے ہیں۔
“تم نے پورے مہتاب کی طرح اس گھر کو روشن کر رکھا ہے اندھا ہے ، جو تمہاری خوبیاں نہ دیکھ پائے ،ہمارا بس چلے تو تمہیں چادر مہتاب کی طرح اوڑھ کر سوجاؤں”۔
“سرکار نے مجھے چاند کہا میری توقیر کی۔۔لیکن عالی جاہ تو شمس ریاست اور مہر امارت ہیں سورج کے آگے چاند کی کچھ حیثیت نہیں ۔عالی جاہ نے ضرور سنا ہوگا نور القمر من الشمس ۔سورج اپنی منزل میں چلا جائے گا اور چادر مہتاب لپٹی لپٹی دھری رہ جائے گی۔۔”

بھئی واللہ ۔آپ کے فقرے کیا ہیں فقرے  بازیاں ہیں۔کہیں ان فقروں میں آپ ہمیں اُڑا ہی نہ دیں”۔۔نواب نے ہنس کر کہا
“سرکار ہم تو خود پرکاہ ہیں حضور کی نسیم شفقت کے منتظر ہیں کہ ہمیں اُڑا لے جائے اور آسودہء منزل کردے”

یہ ناول احمد مشتاق کے شعر سے ماخوذ ہے
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو میرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی۔

اس ناول کے کردار انیسویں صدی دہلی کی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں اور شرافت بھی ہے اور مطلب پرستی بھی وزیر خانم کی ترقی پسندی بےباکی، شوخی اور آزاد خیالی ہی اس کی بربادی کا سبب بنی۔۔
تنقید میں مشرق سے زیادہ مغرب کے آپ طرف دار ہیں اس بات کی تصدیق میں شمس الرحمن فاروقی یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔
“سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تنقید میں مشرق اور مغرب بہت دور تک نہیں چلتا افسانہ نگاری کی تنقید اور اس کا فن بھی آپ نے مغرب ہی سے سیکھا ہے ۔ کوئی بات محض اس وجہ سے غلط نہیں ہو جاتی کہ اس کا کہنے والا اردو نہیں بولتا ۔اور کوئی بات محض اس وجہ سے سچ نہیں مانی جاسکتی کہ اس کا کہنے والا ڈاکٹر ہے۔”
ادب کی بات کی جائے تو ان کی نظر میں اپنی روایت کو سمجھنا اس کی باز یافت ضروری ہے اور جدید تناظر میں پرکھنا فائدہ مند ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔
“نئے ادب کے طالب علموں کے لئے سب سے دلکش پہلو اس کا کام یہ ہے کہ قدیم شعریات کے ذریعے جو تناظر اسے حاصل ہو گا وہ اسے نئے ادب اور جدیدیت کو بھی سمجھنے میں مدد دے گا۔”
ان کی تنقیدی بصیرت اور طرز استدلال دیکھ کر اکثر و بیشتر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سب انہوں نے مغرب سے مستعار لیا ہے ۔جبکہ وہ چاہتے تھے کہ ہمارا ادب کسی بھی اعتبار سے  عالمی سطح سے ناواقف نہ رہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے تنقید و تحقیق کو حتمی قرار دینے سے منع کیا ہے۔یہ سلسلہ تو ہنوز چلتا رہے گا۔۔ اس سے ان کی وسعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔یہ اقتباس ۔۔۔
“میرا خیال ہے کہ ہر سوچنے والے شخص کو اس قسم کا تجربہ زندگی کی کسی نہ کسی منزل پر یقیناً  ہوتا ہے تصورات اور دریافتوں کی روشنی میں اپنے نظریات میں تبدیلی لے آنا مستحسن بات ہے لیکن نظریات میں ارتقاء ہونا ان میں مزید فکری اور علمی گہرائی پیدا ہونا اور بات ہے اور تبدیلی کے محض شوق میں نئے نئے افکار کی چادر اوڑھتے اتارتے رہنا دیگر واقعات ہیں  ،ادب کی دنیا میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ حقیقت کا جو بیان اس نے پیش کیا ہے وہ قطعی اور حتمی ہے اور نہ ہی یہ دعویٰ  کوئی کر سکتا ہے کہ حقیقت کا جو روپ اس نے پیش کیا ہے وہی اصلی اور حتمی ہے”
پرانے پن سے ہے بیزار آئینہ میرا
حیات اب نئے نقش و نگار دے مجھے

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی عہد ساز شخصیت برسوں میں نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتی  ہے ۔اور ایسی صدیاں کبھی کبھار ہی آتی ہیں۔آپ کے ان اہم کارناموں کی بدولت آپ اردو ادب میں زندہء جاوید رہیں گے۔
25 دسمبر ایک نہایت افسوس ناک دل دہلانے والی خبر لے کر آیا ،کہ پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی اردو کا’شمس’ غروب ہوگیا۔ افسوس صد افسوس ۔۔۔جس سے دل افسردہ اور حالت غم میں تبدیل ہوگئی۔
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا
ختم بالخیر۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply