امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی/ناصر خان ناصر

درد ایک احساس کے جاگنے کا نام ہے۔ جب تک محبت کی گہری چوٹ نہ لگے، درد کی آگ میں جل کر دل گداز ہو کر کندن نہیں بن سکتا۔ جب تک دل کی گہرائیوں سے کیے عشق کی ناکامی سے پیدا ہونے والی غم و غصے کی شدت انسان کو مکمل خاکستر نہ کر دے، سات سروں کا دیپک راگ الاپتا اور اپنی ہی پیدا کی گئی  آگ میں جل مرنے والا اساطیری سنہری پرندہ ققنس یا فینکس جنم نہیں لے سکتا۔

محترمہ امرتا پریتم کی ابلتے منہ زور بہتے لاوے جیسی تحریروں میں جو حدت، جذبات کی شدت، الفاظ کی ندرت ،خیالات کی وسعت، شعلہ بنے احساسات کی وحشت، کلی سی نازک محبت، بے کلی سی چاہت، بے کسی کی سی گھبراہٹ، صبر کی طمانت، سچی خوشی کی راحت اور حد سے بڑھی عجیب سی نفرت ہے وہ اسی پوتر آگ کی دین ہے جس میں وہ دن رات جلا کرتی تھیں۔

ایک غموں کی دھول میں اَٹے ہوئے مرجھاتے پھول کے مضمون کو درد کے سو مختلف رنگوں سے یوں باندھنا کہ دکھ، درد، غم و غصہ، رنج و الم، مصیبتیں، پریشانیاں، جلن کڑھن، پشیمانیاں، پچھتاوے، ہوکیں، آہیں، آنسو، سرد آہیں، کرلاتی چیخیں، کراہیں، سسکیاں، سبکیاں، خاموش ماتم، دِلی خواہشیں، حسرتیں، ارمانوں کا لہو اور جذبات کا خون سب کچھ الگ الگ حروف کی گٹھڑی میں گندھا، بندھا ہوا جدا جدا ہونے کے باوجود مکمل متحد نظر آئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید یہ امر امرتا جی کے لیے بھی خود ممکن نہ ہوتا۔

کندن بننے کے لیے آگ میں جلنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ “سمندر کیا جانے دوزخ کا عذاب؟”۔

امرتا جی نے جدائی ، رسوائی ، ٹھکرائے جانے کی اذیت اور چاہے جانے کی حسرت سب کچھ احساس کے عمیق، وسیع اور گہرے سمندر میں مکمل طور پر ڈوب کر جھیلے مگر اس سے پہلے وہ اپنے سچے عشق کے آگ کے دریا کو بھی پار کر چکی تھیں۔

امرتا جیسی خوبصورت لکھنے والی ہستی پورے برصغیر میں کوئی  اور کبھی تھی، نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ انھوں نے ساحر کے ساتھ ٹوٹ کر عشق کیا اور اس عشق میں ناکامی کا منہ دیکھ کر خود اندر سے یوں ٹوٹ پھوٹ گئیں کہ ایک ہوک اور درد بھری مٹھاس ان کے لکھے حرف حرف کی نس نس میں چاشنی بن کر سما گئی ، ان کے اپنے دل کی پیڑا ان کے لکھے حرفوں کی رگ رگ سے آرزوؤں اور ارمانوں کا لہو بن کر چھلکنے اور سسکنے لگی۔ اگرچہ پھر انھیں امروز کی صورت میں اپنے دکھوں کا مداوا مل تو گیا، جس کی انمول محبت نے انھیں سچ مچ مکمل کر دیا تھا مگر ناکام محبت کی سوز و گداز اور درد بھری ہوک تا دم مرگ ان کی ذات اور تحریر کا حصہ ہی بنی رہی۔ ان کی تحریر کردہ ہر سطر، ہر نظم ہر افسانے سے یہی حسرت یوں چھلکتی رہتی ہے جیسے نازنینوں کی اکھیوں سے ٹپکتی مدهرا۔۔۔ جیسے پھول کی پنکھڑیوں سے بکھرتی رنگ و بو۔۔

ان کی پچھتر سے زیادہ تصنیفات ہیں، جن میں ان کے کئے گئے تراجم شامل نہیں ہیں۔ وہ دنیا بھر میں جہاں جہاں تشریف لے گئیں، انھوں نے وہیں وہیں کے مشہور شعرا و ادباء کی نظموں اور تصنیفات کا ترجمہ کر ڈالا۔ ان کی ایک نظم “اج آکھاں وارث شاہ نوں” ہی ان کا نام منور رکھنے کے لیے کئی  صدیوں پر بھاری ہے۔

جناب سیف الدین سیف صاحب نے یہ نظم بطور گیت اپنی فلم “کرتار سنگھ ” میں استعمال کی، جسے عنایت حسین بھٹی صاحب اور زبیدہ خانم صاحبہ نے یوں گایا کہ گویا حق ادا کر دیا۔ کرتار سنگھ کے کردار کو با خوبی ادا کرنے پر پاکستانی اداکار علاؤالدین صاحب کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

علم و دانش کی دیوی سرسوتی نے اپنے ہاتھوں سے امرتا پریتم کے قلم میں روشنائی  کی جگہ روشنی بھر دی تھی۔ میری محبوب رائٹر کی ایک خوبصورت مختصر نظم۔۔۔ ٹوٹے ہوئے نازک دلوں کی خدمت میں نذر ہے۔۔۔
“آنکھ کی ٹہنی پہ آنسو پک گئے
چکھ لو
درد پھلی۔۔۔
میں تو
جنم جلی۔۔۔”

امرتا جی کو ساحر صاحب سے دیوانگی کی حد تک عشق تھا۔ اپنے اس سچے عشق کا سارا کچا چٹھا انھوں نے اپنے ناولٹ “ایک تھی انیتا” میں خود کھول کر رکھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ “رسیدی ٹکٹ”، ” میں جمع تو” اور کئی  دیگر کتابوں، افسانوں میں بھی اپنی درد بھری بپتا قرطاس ابیض پر بکھیر دی تھی۔ یہ عشق دراصل ایک یک طرفہ قصہ ہی تھا۔ ساحر صاحب عمر بھر امرتا جی کا نام استعمال کرتے ہوئے ان سے فلرٹ تو کرتے رہے مگر شاید وہ اس محبت میں کبھی سنجیدہ نہیں تھے، لہذا وہ ثابت قدمی سے امرتا جی کی طرف کبھی نہیں بڑهے۔ امرتا جی نے ان کو پانے کے لئے اپنا گھر خود تباہ کر لیا تھا۔

یہ سب کچھ اس زمانے میں ہوا جب عورت کی عزت اپنی محبت کو لاج کے سات پردوں میں چھپا کر خاموش رہتے ہوئے گھٹ گھٹ کر مر جانے ہی میں سمجھی جاتی تھی، امرتا نے نہایت بولڈ بن کر اسے اپنی بلند آوازی عطا کر دی تھی۔ اپنے عشق کے لئے اپنی عزت، شہرت، نوکری، شوہر، اولاد، گھر گھرہستی سب کچھ چھوڑ دیا۔۔۔ مگر ساحر انھیں پھر بھی نہیں مل سکے۔۔۔

ساحر نے نوجوانی میں ایک لڑکی امرت کور سے اپنے کالج کے دنوں میں ناکام عشق کیا تھا۔
امرتا کی سچی محبت کا بھی وہ کوئی  خاطر خواہ جواب نہ دے پائے اور انجام کار بھارتی گلوکارہ سدها ملہوترہ سے تیسرا ناکام معاشقہ بھی لڑایا۔ انھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ دراصل ساحر کی والدہ کو ان کے والد نے طلاق دے دی تھی، بیچاری مجبور، بے بس اور نہتی والدہ نے نہایت سخت مشکلوں مشقتوں سے انھیں پال پوس کر جوان کیا تھا۔ ساحر صاحب کو اس بات کا ہمیشہ گہرا احساس رہا اور وہ تمام عمر اپنی والدہ محترمہ کو خوش کرنے میں لگے رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ شاید مذہب کی بنیاد پر ساحر کی والدہ نے ان کی ان سب غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کی مخالفت کی ہو گی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ امرتا جی تو ساحر کے لئے اپنا مذہب تک ترک کر دینے کو تیار تھیں اور ببانگ دہل اس بات کا اظہار کئی  بار کر چکی تھیں۔ امرتا جی نے بھی اپنے پہلے ناکام بیاہ کے بعد دوسرا بیاہ کبھی نہیں کیا تھا۔ امروز صاحب اور امرتا جی عمر بھر بیاہ کے بغیر ہی ساتھ رہتے رہے جو اس زمانے اور معاشرے میں ایک انتہائی  معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ ایک بار امرتا امروز کے ساتھ ساحر سے ملنے گئیں۔ تب ان کے چلے جانے کے بعد ساحر نے اپنا مشہور عالم گیت تحریر کیا۔
“محفل سے اٹھ جانے والو،
تم لوگوں پر کیا الزام۔۔۔
تم آباد گھروں کے باسی،
میں آوارہ اور بدنام۔۔۔
میرے ساتھی، میرے ساتھی خالی جام۔۔۔”

یہ گیت بعد میں کسی فلم کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔

گلوکارہ سدها ملہوترہ صاحبہ کی شادی میں بھی ساحر صاحب نے اپنی نظم “چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں” بطور شادی کا تحفہ پیش کی تھی۔
یہ نظم بھی بعد میں کسی فلم میں بطور گیت استعمال کی گئی تھی۔

امرتا جی کی شادی ان کے بچپن(1938) میں ہی پریتم سنگھ سے ہو گئی  تھی۔ اس شوہر سے ان کے دو بچے کندلاں اور نوراج کواترہ پیدا ہوئے تھے۔ یہ شادی من کا سودا ہرگز نہیں تھی لہذا امرتا پریتم صاحبہ نے خود ہی ایک دن اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ انھیں پکی امید تھی کہ وہ ساحر صاحب جن کو پانے کے لئے انھوں نے سماج کی پہنائی  ہوئی  اپنی ساری کی ساری زنجیریں اپنے ناتواں ہاتھوں سے خود توڑ ڈالی تھیں، شاید انھیں تنہا اور بے سہارا دیکھ کر ضرور اپنا لیں گے۔ ساحر لدھیانوی صاحب نے ان کو اپنی محبت کی بیڑیاں پہنائی  تو ضرور تھیں مگر وہ ان کا ساتھ بالکل نہ دے پائے۔

تب دکھی اداس اور تنہا امرتا صاحبہ کو اکیلے ہی اپنی اداس زندگی کا زہر پینا پڑا۔ اس کڑی تپسیا کے انعام میں شاید انھیں امروز صاحب کا انمٹ پریم نصیب ہوا۔ انھوں نے امروز صاحب سے شادی نہیں کی تھی مگر یہ عمر بھر کا من پسند بندهن کسی بھی تحریری، مذہبی معاہدے یا کاغذی کاروائی  سے مبرا تھا۔ یہ جسم و جان کی گہرائیوں سے کیا گیا وہ ایک وچن تھا جو دونوں فریقین کی طرف سے آخری سانس تک بخوبی نبھایا گیا۔

چونکہ قانونی طور پر پریتم سنگھ صاحب سے امرتا جی کی علیحدگی نہیں ہوئی  تھی لہذا دوسری شادی نہیں کی جا سکتی تھی۔ امروز صاحب کی محبت ہی امرتا جی کی تمام بقایہ زندگی کا محاصل رہی۔ امرتا صاحبہ نے ساحر صاحب سے جو عشق ٹوٹ کر کیا تھا اس سے ملی تشنگی، درد اور پیاس امرتا جی روح کی گہرائیوں تک سدا محسوس کرتی رہیں۔ یہی تشنگی اور دکھ درد بھری جلن، دیوانگی کی حدت بن کر ان کی تحریروں نظموں کہانیوں سے چھلک چھلک پڑتی ہے۔ یہ ہوک ان کے حرف حرف سے لہو کی لکیر بن کر ٹپکتی ہے تو پڑهنے والوں کی آنکھیں بھی خود بخود بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔

امرتا جی چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی کوئی  نہ کوئی  ایسا پہلو تلاش کر کے اسے اجاگر کر دینے کی ماہر تھیں کہ حروف آنکھوں یا دیپک کی مانند جگمگا اٹھتے تھے۔ وہ ٹوٹے دل کی کرچیوں سے آئینے کا کام لیتیں، انھیں اپنے آفتاب ذہن کی فراست سے معمور کرنوں سے منور کرتیں، من کے منشور مثلثی سے منتشر کرتیں۔ پھر یہ روشنیاں ست رنگی تحریروں میں یوں منتقل کر دیتیں کہ انھیں دیکھ کر ہیروں کی جگمگاہٹ بھی شرما کر پیلی پڑ جائے۔ شہرت کی بلند و بالا بلندیوں پر پہنچ کر اور اپنی گراں قدر تصنیفات کے بے بہا انمول خزانوں کے انبار پر بیٹھ کر بھی امرتا نے ساحر کی محبت کو اپنا ” آسمان” قرار دیا اور امروز کی محبت کو اپنی “چھت “، کہہ کسی بھی آسمان کے نیچے رہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی چھت کی ضرورت تو ہر ایک شخص کو پڑتی ہی ہے۔

ہمیں افسوس ہے کہ امرتا جی کا پیسہ پیسہ جوڑ کر بہت محبت اور محنت سے بنایا گیا دہلی شہر کا گھر ٹیکس نہ ادا کرنے کی بنا پر چھین کر گرا دیا گیا ہے۔ محترم امروز صاحب کو اپنی یادوں کی پٹاری سمیٹ کر اس گھر کو چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ ایک بے حد بڑے فنکار اور ایک بے حد بڑی ادیبہ کے جیون ساتھی کی ایسی سخت توہین ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ کاش حکومت اسے میوزیم ہی بنا دیتی یا امروز صاحب کو یہ ٹیکس معاف کر کے انھیں تاحیات اس گھر میں رہنے کی اجازت مرحمت فرما دیتی۔ نجانے امرتا جی اور امروز صاحب کے دنیا بھر میں موجود دوست، ادبی دنیا، فلمی ستارے، کروڑ پتی مخیر افراد، ادب نواز سوسائٹیاں کہاں مر گئی  ہیں؟
اس ظلم پر کم از کم ہم تو خاموش بیٹھے نہیں رہ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

محبت اور سچی محبت اپنے تمام کرداروں سے بڑی ہوتی ہے۔ سچ ان سب سے بھی بڑا ہوتا ہے اور سورج کی طرح تمام عالم پر چمکتا ہے۔ جب سچ اور محبت دونوں مل جائیں تو امرتا پریتم بن جاتے ہیں۔
امرتا جی کا لازوال حسن زوال پا گیا مگر ان کی محبت کا سچ انھیں اور ان کے سچے جذبات سے معمور لکھے لفظوں کو جو تابندگی بخش گیا وہ آب حیات پینے سے ہی ممکن تھی۔ جب تک امرتا جی کے الفاظ باقی ہیں، اور لکھنے پڑھنے والے لوگ زندہ ہیں، وہ کبھی نہیں مر سکتیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply