قائداعظم کا پاکستان اور آج کے نوجوان ۔۔خطیب احمد

قائداعظم اور آج کا نوجوان ,قائد اعظم اور قائد اعظم کے نظریات کے بارے میں بس 14 نکات تک محدود ہے۔ ۔ لیکن اس موضوع کا انتخاب میرے نزدیک ہماری قوم کو ایک بھولا سبق یاد دلانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔اور یہ نکات ہم کئی مرتبہ پڑھ چکے ہیں لیکن ہماری قوم اس سے آج تک وہ سبق حاصل نہیں کرسکی ہے جو ان نکات کا اصل مقصد تھا۔ محمد علی جناح ؒکا ہم سب پر’’ احسان‘‘ ہے کہ آپ نے ہمیں ایک’’ آزاد‘‘ ملک   دیا، لیکن’’ بدقسمتی ‘‘سے آج اس ملک میں جمہوریت کی بجائے’’ جاگیردارنہ‘‘ نظام مسلط ہےاور آج بھی ہم ان بے حِس اور جابر حکمرنوں کے تابع ہیں حالانکہ اس وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے  لاکھوں  جانوں کی قربانی دی گئی ہے۔ آج ہم سب نے ملک کے حصول کے بعد اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دیا ہے اور پاکستان کی تعمیر کے خیال کو  یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔
آج محض نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ ہم سب قائد اعظم کے نظریات اور تصورات سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ کیوں کہ قائد اعظم کے نظریات، تصورات، خواہشات، اصول اور پاکستان کے لئے ان کے وژن کو ہر دور کی حکومت نے نظر انداز کیا ہے۔آج کا پاکستانی نوجوان قائداعظم اور ان کی فکر سے واقف ہو یا نہ مگر 25 دسمبر کو چھٹی کے دن کے طور پر مناتاہے اس ملک کا نوجوان جو رشتہ بھیجنے کے بعد اپنے سسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے کہ جہیز کتنا دو گے اور عورت کو محبت سے نہیں پیسے  سے تولتا ہے اور اسے سر بازار نیلام کردیتا ہے ،اس ملک کا نوجوان اپنی سوچ ، تعلیم اور صلاحیت سے اس ملک میں تبدیلی کا خواہشمند نہیں بلکہ بد دیانتی اور کرپشن کے رواج پر عمل کرتا ہے اور ‏تعلیم اور کیریئر کی فکر کرنے کی بجائے حَسین دوشیزاؤں پر وقت صَرف کرکے اپنے آپ کو برباد کرتا ہے  اور زندگی میں کبھی کچھ نہیں بن پاتا، پھر کہتے ہیں کہ یہ جناح کے خوابوں کی تعبیر ہے، میں اپنے ہم عمر  نوجوانوں سے بس یہ کہتا ہوں   کہ  اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھیں ،
آج بھی ہم اس الجھن کا شکار ہیں اور اس سوچ میں گُم ہیں کہ آخر قائداعظم کے نظریات اور تصورات درحقیقت تھے کیا ،جن پر تجزیہ اور راۓ تو دی جاتی ہےمگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان نظریات اور تصورات  کو عملی طور پر خؤد پر لاگو نہیں کیا جاتا۔ آج اگر ہم اپنے ماضی کو دیکھیں تو ہمیں یہ سب نظر نہیں آئے گا، ہم نے نہ صرف قائد کو بھلادیا بلکہ ان  کے فرمودات کو بھی پس پشت ڈال دیا، یہی وجہ ہے کہ ہم اس فلاحی مملکت کے تصور سے کوسوں دور ہیں کہ اقبال نے جس کا خواب دیکھا تھا اور جس کی تعبیر قائداعظم کی آنکھوں میں سجی ہوئی تھی۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply