کراچی کا مدوجزر۔ اذان ملک

ایڈیٹرز نوٹ: محترم مصنف کو ایم کیو ایم میں ہر وہ برائی اور رینجرز میں ہر وہ اچھائی نظر آئی ہے جو نجانے کراچی کے دو کروڑ “یرغمالیوں” کو کیوں نظر نہیں آتی۔ “مکالمہ” اس مضمون کو صرف اس غرض سے اشاعت کر رہا ہے کہ کوئی صاحب کراچی سے مدلل جواب پیش کریں اور کئی ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جو کراچی سے دور بیٹھے اکثر محبت وطن دانشوروں کو ہو جاتی ہیں۔

 آئیے، کراچی کے حقائق پر بھی ایک مکالمہ کریں۔ کراچی میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ جب بھی لندن میں بیٹھے ہوئے سابقہ قائد اور حالیہ لاتعلق شدہ الطاف بھائی بولتے ہیں تو بارود کو چنگاری دکھا کر ہی بولتے ہیں ۔ پاکستان اور محافظان پاکستان کو مشق ستم بنانا کبھی نہیں بھولتے، اس کے باوجود کہ رینجرز کی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں جرائم پیشہ افراد، ٹارگٹ کلرز، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوروں کا 80 فیصد تعلق ایم کیو ایم سے ہے، پھر بھی اس جماعت کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینا اور اب کراچی اور حیدر آبادکی میئر شپ بطور تحفہ دینا معنی خیز بات ہے ۔ فاروق ستار جن کی حیثیت صرف چہرے پہ چڑھائے نقاب کی ہے، وہ خوبصورتی اور مہارت سے الطاف حسین کی غلطی پر پردہ ڈال کر پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ان کے بقول اب تمام فیصلے کراچی میں ہوا کریں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فرماتے ہیں کہ بانی کی حیثیت سے الطاف حسین کا کردار شامل حال رہے گا۔ گویا بات تو وہی ہوئی جس کا پہلے بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا ۔ ایم کیو ایم کیا ہے، افسوس اس بارے میں یہ تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ یہ ایک شدت پسند تنظیم ہے جس نے سیاسی جماعت کا روپ دھار کر دو کروڑ آبادی کے شہر “کراچی”کو اپنے مضبوط پنجوں میں کچھ اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ کوئی چھڑانا چاہے بھی تو چھڑا نہیں سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں جب فوج کی جانب سے کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تو اس وقت ایم کیو ایم کا ایک وفد کور کمانڈر کراچی سے ملنے گیا اور اس وفد نے دھمکی آمیز لہجے میں کور کمانڈر کے روبرو کہا کہ اگر فوج نے کراچی میں آپریشن شروع کیا تو اسے واپسی کا راستہ نہیں ملے گا اور خون کی ندیاں بہہ جائیں گی ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں کتنی ہی مرتبہ کراچی میں فوجی آپریشن ہوئے لیکن ہر مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا اور ایم کیو ایم پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر ابھری ۔ اقتدار میں رہنے کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنا تاثر نہیں بدلا۔ بارہ مئی سن دو ہزار سات کا دن کراچی کی تاریخ کا ایک شرمناک دن ہے مگر اس کی آزادانہ تحقیقات ہنوز خواب ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس پر سماعت شروع کی تو لاکھوں افراد نے سندھ ہائی کورٹ کا محاصرہ کرلیا اور جج صاحبان نے سماعت کو جاری رکھنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ پھر اس عمارت کو آگ لگا کر تمام دروازے بند کرنے کا واقعہ بھی رونما ہوا جس میں درجنوں وکلا کے دفاتر تھے اور وہ سب لوگ زندہ جل گئے ۔ اس فیکٹری کو بھتہ نہ ملنے کی بنا پر آگ لگانے کا واقعہ آج بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں زیر بحث ہے جس میں اڑھائی سو افراد زندہ جلے تھے ۔ حکیم محمد سعید اور ہفت روزہ تکبیر کے چیف ایڈیٹر محمد صلاح الدین جیسے نیک سیرت افراد کو شہید کرنے والوں کاتعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی جوڑا گیا۔ ایک جانب یہ سب قتل و غارت تو دوسری جانب ایم کیو ایم سیاسی جماعت ہونے کی آڑ میں ہمیشہ وفاق کو بلیک میل کرتی رہی ہے ۔ یہاں تک بھی سنا گیا ہے کہ قائد ایم کیو ایم پاکستانی حکمرانوں سے بھی کروڑوں روپے بطور بھتہ وصول کرتے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کی جانب سے پابندی لگنے سے چند ماہ پہلے الطاف حسین کا ایک بیان اخبار میں شائع ہوا ۔ اگر وہ چاہیں تو صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو کراچی کی سرزمین پر قدم بھی نہ رکھنے دیں ۔ اﷲ تعالی کو شاید یہ متکبرانہ گفتگو پسند نہیں آئی کہ کراچی والوں کے لیے رینجرز ایک نعمت بن کر نازل ہوئے جس نے انتہائی الجھے ہوئے معاملات کو نہایت دانش مندی سے کچھ اس طرح سلجھانا شروع کیا کہ جرائم کے پس پردہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کا چہرہ واضح دکھائی دینے لگا ۔ پیپلز پارٹی کے کتنے ہی وزیر، مشیر اور بیورو کریٹ عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں جبکہ ایم کیو ایم سے منسوب زیادہ تر مجرم یا تو رینجرز کی جیل میں ہیں یا وہ انڈر گراؤنڈ ہوچکے ہیں لیکن کبھی کبھار اپنی موجودگی کا احسا س کروانے کے لیے کوئی نہ کوئی واردات کر دکھاتے ہیں ۔ بہرکیف الطاف حسین کی ہرزہ سرائی کے بعد جس طرح پاکستان مخالف نعرے بازی ہوئی اور پاک فوج کے خلاف دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کیا گیا، اس تناظر میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ملک بھر میں دفاتر سیل کرنے کے بعد ایم کیو ایم پر پابند ی عائد کردی جاتی اور سندھ میں دوبارہ بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردیا جاتا۔ لیکن مجاز اتھارٹی کی نااہلی کی بنا پر اب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے پاکستان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی بھی کہاجاتاہے، میں اسی جماعت کے ایک ایسے شخص وسیم اختر کو میئر شپ پر بٹھا دیا گیا ہے جس پر قتل اور دیگر جرائم کا الزام ہے۔ کیا پاکستان مخالف نعرے لگانے والوں کو یہ انعام اس لیے دیاگیا کہ وہ رہی سہی کسر بھی پوری کر دیں اور جرائم پیشہ افراد کی مزید سرپرستی کرتے ہوئے رینجرز کی محنت پر پانی پھیرکر ایک بار پھر کراچی کو اسی مقام پر لے جاکر کھڑا کریں جہاں نہ کسی کی جان و مال محفوظ تھی اور نہ ہی عزت ۔ ایک جانب بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کہنے والوں کوپھانسی کی سزا دی جارہی ہے جس پر ہمارے حکمرانوں کے لب خاموش ہیں لیکن کراچی اور حیدر آباد، جن میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی فنڈنگ کااعتراف کتنی ہی مرتبہ سامنے آچکا ہے، وہاں پاکستان مخالف نعرے لگانیوالوں کو مئیرشپ طشت میں رکھ پیش کردی گئی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا، یہ ایک اہم سوال ہے جو ہر ذہن میں ابھرکر سامنے آرہا ہے اور پاکستان کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی روحیں چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہیں کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر ہمیں قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اذان ملک سما ٹی وی سے بطور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ آپ چیئرمین ینگ میڈیا ایسوسیشن اور اور صحافتی سیاست میں سرگرم ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply