نائلہ رند کی موت اور ہماری روایتی جلد بازی

نائلہ رند کی موت اور ہماری روایتی جلد بازی
نجیب بھٹو
سندھ یونیورسٹی کے شعبہ سندهی کے فائنل ایئر کی طالبہ کے قتل کی خبر آنے کے بعد میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں. خاص طور پر سوشل میڈیا پر لوگوں نے واویلا مچایا اور طرح طرح کی باتیں لکھیں. کسی نے خودکشی کا واقعہ قرار دیا تو کوئی اسے قتل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، غرض یہ کہ ہر کسی نے اپنے انداز میں اس بات کو پیش کیا. اس لڑکی کی ذاتی زندگی کے متعلق بهی مختلف باتیں ہوئیں، ابهی یہ لکھنے ہی بیٹھا تها کہ ایک دوست کا میسج آیا۔ اس نے کسی انگریزی اخبار کے پیراگراف کو ہائیلائٹ کیا ہوا تها جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس کا کسی کی ساتهہ Love affair تها اور گهر والوں نے اس سے اس کے متعلق کچھ کہا تها اور اسے قتل کی دهمکی بهی دی تهی. میرے خیال میں یہ بات بهی قبل از وقت ہی ہے، کیونکہ اس کمرے سے اس کا موبائل فون بهی برآمد ہوا ہے جو فارنزک ٹیسٹ کے لیے بهیجا جا چکا ہے. اس کے علاوہ یہ بهی کہا گیا تها کہ جس کمرے سے لاش برآمد ہوئی ہے وہ اس کا نہیں کسی اور کا ہے، اس کی بهی کل تصدیق ہوگئی ہے کہ کمرہ اسی کے نام الاٹ تها.
بحیثیت سندھ یونیورسٹی کے شاگرد مجهے کئی سوشل میڈیا کے دوست جانتے ہیں. چند دوستوں نے متوجہ کرکے رائے پوچهی. جواباً یہی عرض کیا کہ کچھ بهی کہنا قبل از وقت ہوگا. تاہم یونیورسٹی کے ماحول پر چند گذارشات پیش کرنا چاہونگا جس سے آپ کو سمجهنے میں آسانی ہو شاید.اس کیس کا حتمی فیصلہ تو مکمل تحقیقات کے بعد ہی ہوگا کہ آخر معمہ کیا ہے! تحقیقات کے لیے آئی جی سندھ کے حکم پر ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جس نے ہاسٹل کا دورہ بهی کیا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

پہلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ان دنوں یونیورسٹی موسم سرما کی تعطیلات کی وجہ سے بند ہے، چهٹیاں ختم ہونے کی آفیشل تاریخ 2 جنوری تهی، لیکن کلاسز ہمیشہ 7، 8 دن کے بعد ہی باقاعدہ شروع ہوتی ہیں. (پچهلے دنوں ایک دوست نے پوچها کہ چهٹیاں کب ختم ہو رہی ہیں تمہاری؟ میں نے مزاح کے طور کہا کہ ہمارا اصول ہے اگر یونیورسٹی بیس دن کی چهٹی دے رہی ہے تو ہم دس دن اپنی طرف سے کرلیتے ہیں) پوری یونیورسٹی کے کسی بهی شعبے کی کلاسز تاحال شروع نہیں ہوئیں. ہماری کلاسز 9 جنوری کو شروع ہو رہی ہیں، ہاسٹلز بهی بالکل خالی ہیں. اب یہ بات بهی تو قابلِ غور ہے کہ اس طالبہ کو کس بات نے جلدی آنے پر مجبور کیا تها، یہ نکتہ بهی میرا خیال ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک چهوڑ دیا جائے تو بہتر ہے.
“دوسرا اہم مسئلہ یونیورسٹی کیمپس اور ہاسٹلز کی سیکیورٹی.”
سیکیورٹی انتظامات اتنے ناقص تو نہیں ہیں البتہ کچھ خامیاں ضرور ہیں. کیمپس میں آنے کے لیے کسی کو روکا نہیں جاتا، تاہم جب باچا خان یونیورسٹی میں حملہ ہوا تها اس کے بعد کچھ سختی کی گئی تهی، یونیورسٹی کی Lower point سے شناخت کے بغیر کسی کو آگے نہیں جانے دیا جاتا تها، (یہ کام رینجرز والوں کے ذمے تها) لیکن یہ صرف چند دن تک ہی رہا اس کے بعد سے سختی کم کی گئی تهی۔ اس کے باوجود رینجرز کے اہلکار اب بھی وہاں صبح کے وقت موجود ہوتے ہیں. باقی ہاسٹل کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے، وہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے. حالت یہ ہے کہ کسی کے والد یا بهائی کو بهی اندر جانے کی اجازت نہیں ہے.
گرلز ہاسٹل کے قوانین مختلف ہیں، وہاں ملاقات کے لئے وقت مقرر ہے اور والد یا بهائی (ان کا بهی شناختی کارڈ دیکها جاتا ہے) کے علاوہ کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہے. اور ملاقات کے لیے بهی باہر مین گیٹ کے سامنے پارک میں بیٹھا جا سکتا ہے.
یہ کچھ باتیں تهی جو عرض کرنا چاہتا تھا، آخر میں یہی کہوں گا کہ خدارا اپنی طرف سے قیاس آرائیاں بند کریں اور کیس کی تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کریں. قیاس آرائیاں اصل وجہ موت تو شاید نا بیان کر سکیں مگر مرحومہ اور خاندان کی عزت پر حملہ ضرور ہیں اور پسماندگان کی اذیت میں فقط اضافہ ہوگا اورکچھ حاصل نہیں.

Facebook Comments

نجیب بهٹو
سماجی رویہ سے دلبرداشتہ ہوکر "مکالمہ "کے ذریعے سماج سدھارنے کا عزم رکھتا ہوں، علم و ادب کا ادنی عاشق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply